جماعت اسلامی اور تحریک انصاف متحد؟کراچی میں پیپلز پارٹی کو لالے پڑ گئے

کراچی(سٹاف رپورٹر)شہر قائد اورحیدر آباد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد اب تینوں بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)میں جوڑ توڑ جاری ہے،دوسری طرف کراچی کا مئیر کس پارٹی کا ہو گا؟حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں جماعت اسلامی کا وفد پی ٹی آئی رہنماوں سے ملاقات اور مشاورت کیلئے پہنچ گیا۔جماعت اسلامی کے وفد میں اسامہ رضی،مسلم پرویز،سلیم اظہر اورمنعم ظفر شامل ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار،شہزاد قریشی اور دیگر نے وفد کا استقبال کیا۔
’پاکستان ٹائم ‘ کے مطابق کراچی کے میئر کے لئے کوئی بھی جماعت 124 کا گولڈن نمبر حاصل نہیں کر سکی،پیپلز پارٹی 93سیٹوں کے ساتھ سب سے آگے رہی۔جماعت اسلامی 86 جبکہ تحریک انصاف نے 40 نشستیں جیتیں۔ن لیگ کے 7،جمعیت علماءاسلام(جے یو آئی)ف کے 3 اورتحریک لبیک پاکستان( ٹی ایل پی) کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ 3 نشستوں پر آزاد امیدواروں نے میدان مارا جبکہ 11 نشستوں پر امیدواروں کی موت کے باعث الیکشن نہیں ہوئے۔تینوں بڑی سیاسی جماعتوں نے میئر شپ کے حصول کے لئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں جبکہ جوڑ توڑ کے لئے بھی سیاسی قائدین کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔حافظ نعیم الرحمان نے اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنماوں سید علی زیدی،بلال غفار اور شہزاد قریشی سمیت دیگر سے ملاقات کی اور میئر شپ کے حوالے سے تفصیلی مشاورت کی۔ملاقات میں دونوں جماعتوں کا بلدیاتی الیکشن میں چرائے گئے مینڈیٹ کی واپسی کیلئے مشترکہ جدوجہد پر اتفاق ہوا۔
ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اپنا میئر لانے کی پوزیشن میں ہے،میئر شپ پر کوئی سمجھوتا نہیں ہوگا،پیپلز پارٹی سے کہا ہے ہمارے مینڈیٹ کا احترام کرے،پیپلز پارٹی فاتح ہوتی تو انہیں مبارکباد دیتے،آر اوز اور ٹی آر اوز کے تقرر پر ہم پہلے روز سے تحفظات کا اظہار کررہے تھے،بلدیاتی الیکشن کمپرومائزڈ تھا،حلقہ بندیوں پر ہمیں بھی تحفظات تھے لیکن انتخابات کا انعقاد ضروری تھا ورنہ یہ 10 سال تک بلدیاتی ملتوی کردیتے،پولنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد فارم 11 نہیں دیے جارہے تھے، جب فارم 11 جاری کیے گئے تو نتائج میں تبدیلی کا عمل شروع کردیا گیا،دوبارہ گنتی کے عمل میں بھی یوسیز کھانی شروع کردیں،اس سب پر ہم نے شدید احتجاج کیا،اس دوران مجھے وزیر اعلیٰ سندھ کا فون آیا،میں نے انہیں کیا کہ ہم آپ سے کوئی ناجائز مطالبہ نہیں کررہے،آپ ہمارے مینڈیٹ کا احترام کریں ہم آپ کے مینڈیٹ کا احترام کریں گے،آپ اسے ٹھیک کریں گے تو بات چیت ہوگی،اگر پیپلز پارٹی جائز طریقے سے جیتتی ہے تو ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟اگر پیپلز پارٹی جائز طریقے سے الیکشن جیتتی ہے تو ہمارے اندر اتنا حوصلہ ہے کہ ہم انہیں مبارکباد دے سکتے ہیں۔
حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ہمارا تحریک انصاف کے ساتھ اس بات پر اتفاق ہوا ہے کہ کمیٹی بنائی جائے، 2 افراد پی ٹی آئی اور 2 جماعت اسلامی کی جانب سے ہوں گے،ہم نوٹس اور فارم 11 کا تبادلہ بھی کریں گے،اس کے نتیجے میں ہم کوشش کریں گے کہ ہم سے دھاندلی کے ذریعے جو چیزیں لے لی گئی ہں وہ زیادہ سے زیادہ واپس لے لی جائیں،جتنی سیٹیں بچ گئیں اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی ایک تصویر سامنے آرہی ہے،لہٰذا ہمارا نقطہ نظر ہے کہ ہم شہر میں اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں،جماعت اسلامی کی یہ پوزیشن ہے کہ ہم اپنا میئر لا سکتے ہیں،ہم چاہتے ہیں کہ جس کو عوام نے مینڈیٹ دیا ہے اسے تمام سیاسی جماعتیں تسلیم کریں،ہم چاہتے ہیں کہ شہر میں اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 2015 میں بھی ہم تحریک انصاف کے ساتھ انتخابات لڑ چکے ہیں،تمام تر اختلافات کے باوجود ہمارا ورکنگ ریلیشن شپ بھی ہے،ہم ان سے درخواست کرتے ہیں کہ اس میں ہماری مدد کریں تاکہ یہ شہر ترقی کرے اور شہر کے ساڑھے 3 کروڑ لوگ کچھ سکون کا سانس لے سکیں،یہ 2 مسئلے تھے جس پر آج ہم نے بات کی،مینڈیٹ کے تحفظ کے لیے ہم نے ایک دوسری کی سپورٹ کمیٹی بنا دی ہے،ساتھ ساتھ ہماری یہ پیشکش اور درخواست ہے کہ شہر میں اتفاق رائے پیدا ہوجائے اور متفقہ میئر کے لیے اگر آپ جماعت اسلامی کو قبول کرتے ہیں تو اس سے پورے شہر کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔حافظ نعیم الرحمان سے جب ایک صحافی نے سوال کیا کہ اگر آپ پیپلز پارٹی کے ساتھ نہ گئے تو وہ آپ کو کام نہیں کرنے دیں گے اور مالی مشکلات کا سامنا بھی ہوگا جس پر ان کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے ٹیکسوں کے پیسے سے حکومت چلارہے ہیں،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی کہے میرے پاس نہ آئے تو پیسے نہیں دوں گا،یہ کسی کے والد صاحب کے نہیں ہمارے ٹیکسوں کے پیسے ہیں،جو ہمارا حق بنتا ہے ہم ہر صورت لیں گے۔
حافظ نعیم الرحمان کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ میں امیر جماعت اسلامی کراچی اور ان کی ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ وہ آج یہاں آئے،کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ہم نے تفصیلی گفتگو کی،بلدیاتی انتخابات سے قبل،اس کے دوران اور اس کے بعد بھی ہمارا آپس میں مسلسل رابطہ تھا، 3 روز پہلے زرادری مافیا نے مجھ پر حملہ کیا تھا،اس پر حافظ نعیم الرحمان نے مذمت کی جس میں ان کا شکرگزار ہوں،سیاست میں اختلاف رائے ہوتا ہے لیکن اسے تشدد میں تبدیل نہیں ہونا چاہیے،بلدیاتی نظام جمہوریت کی نرسری ہوتا ہے،یہیں سے قیادت پیدا ہوتی ہے اور لوگوں کے مسائل بھی یہیں سے حل ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کے دوران جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا،کل رات کو بھی کچھ چیزیں سامنے آئی ہیں جس پر ہم نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے،ہمارے آج ہونے والے اجلاس میں ہمارا یہ مشترکہ ردعمل طے پایا ہے کہ ہم ایک 4 رکنی مشترکہ کمیٹی بنائیں گے، 2 رکن جماعت اسلامی کے ہوں گے اور 2 پی ٹی آئی کے ہوں گے،یہ کمیٹی تمام فارم 11 کا جائزہ لے گی،پی ٹی آئی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھا جا چکا ہے کہ 40 کے قریب یونین کونسلز ایسی ہیں جس پر ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا مینڈیٹ چرایا گیا،ہمارے پاس سارے فارم 11 موجود ہیں،جماعت اسلامی کے پاس بھی موجود ہیں،نتائج فارم 11 کے مطابق آنے چاہیے کیونکہ فارم 11 پر پریزائڈنگ افسر کے دستخط ہوتے ہیں،اس کے بعد اگر کوئی اس میں مزید ووٹ ڈال جائے تو ہم اسے تسلیم نہیں کریں گے اور ہر آئینی فورم پر اس معاملے کو اٹھائیں گے،بلدیاتی انتخابات کے دوران جو کچھ بھی ہوا اس میں شفافیت لانے کے لیے ہم نے یہ کمیٹی بنائی ہے، ہفتے بھر کے اندر یہ کمیٹی اپنا تفصیلی جائزہ پیش کرے گی جس کے بعد ہم دوبارہ ملاقات کریں گے اور اپنے آئندہ لائحہ عمل سے سب کو آگاہ کریں گے۔

علی زیدی نے دعویٰ کیا کہ اگلی صوبائی حکومت ہماری ہوگی،ہم میئر کو اختیار دیں گے۔یہ ہمارا واضح فیصلہ ہے کہ ہم کسی بھی فورم پر زرداری مافیا کے ساتھ کوئی رول نہیں ہوگا،اس کے علاوہ جن باتوں کا حافظ نعیم الرحمان نے ذکر کیا اس کے لیے ہمارے جماعت کے مختلف فورمز موجود ہیں،ہم اپنی اعلیٰ قیادت سے رابطہ کرکے آپ کو آگاہ کریں گے، ان شا اللہ جو بھی ہوگا اس شہر کے لیے بہتر ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں