”ہتک عزت کا دعویٰ تو وہ کرتے ہیں جنکی کوئی عزت ہو “عمران خان کا آصف زرداری کو کرارا جواب


لاہور(وقائع نگار خصوصی)چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین اورسابق صدر آصف زرداری کی جانب سے ہتک عزت کا نوٹس دینے پر کرارا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ میں آصف زرداری سے متعلق دیئے جانے والے اپنے بیان پر قائم ہوں ،آصف زرداری شوق سے ہتک عزت کا دعویٰ کریں کیونکہ ہتک عزت کا دعویٰ وہ کرتے ہیں جن کی اپنی عزت ہوتی ہے، پشاور میں بہت دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہوا ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے،برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے۔
لاہور میں سینئر صحافیوں سے گفتگو اور آن لائن خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے دھماکے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پشاور میں بہت دردناک اور تکلیف دہ سانحہ ہوا ہے اور دہشت گردی پر پھر سے بات چیت شروع ہو گئی ہے، دہشت گردی میں آہستہ آہستہ کمی آئی اور اب پھر اس میں اضافہ شروع ہو گیا ہے، ماضی میں بھی خیبر پختونخوا پولیس نے بہت قربانیاں دیں ،جب ہم 2013 میں حکومت میں آئے تھے تو اس وقت تک 700 سے زائد صوبے کے پولیس اہلکار شہید ہو چکے تھے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوا ہے لیکن اس کو سیاسی بنایا جا رہا ہے، ہم پچھلے 20سال سے ایک عذاب بھگت رہے ہیں، ہم نے افغان جہاد لڑا اور یہ سارا افغان جہاد قبائلی علاقوں سے لڑا گیا لیکن اس میں القاعدہ جیسے گروپس کے مجاہدین بھی جاتے تھے لیکن قبائلی علاقے کے لوگوں نے اس میں بڑے پیمانے پر شرکت کی، 2001 کے بعد جب جنرل مشرف نے فیصلہ کیا کہ ہم امریکا کی جنگ میں شامل ہوں گے تو پراپیگنڈا سے کسی کی جنگ کو اپنی جنگ بنایا گیا، میں تب سے کہتا گیا ہوں کہ یہ ہماری جنگ نہیں تھی، اس کی دو وجوہات تھیں جس میں پہلی یہ تھی کہ ہم نے کہا کہ افغانستان میں جو بھی قبضہ کرے گا اس کے خلاف لڑنا جہاد ہے جسے قوم نے بھی قبول کیا، ہم نے شرکت بھی کی اور مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں اس سے ڈالرز بھی آئے، جب 2001 میں امریکا افغانستان آنے کا فیصلہ کرتا ہے تو جن قبائلیوں نے سوویت یونین کے خلاف جانوں کی قربانیاں دیں ہم نے ان سے کہا کہ اگر اب آپ نے امریکیوں کے خلاف آپ لڑے تو یہ دہشت گردی ہو گی، سب کو پتا تھا کہ اس کا ردعمل آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ 1948 میں قائد اعظم نے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بھیجی اور اس کے بعد پہلی مرتبہ 2003 میں ہم نے پہلی بار قبائلی علاقوں میں فوج بھیجی، اس وقت میں نے قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ اگر آپ قبائلی علاقوں کی تاریخ پڑھ لیں تو کبھی بھی یہ حماقت نہیں کریں گے کیونکہ وہ وہاں پر ہماری طاقت تھے اور ہمیں وہاں فوج رکھنے کی بھی ضرورت نہیں تھی، پاکستان سے زیادہ قبائلی علاقہ پرامن تھا، ہماری حکومت نے خیبرپختونخوا پولیس کواپنے پیروں پر کھڑا کیا، ہماری حکومت آئی تو افغان طالبان کے ساتھ بات چیت میں معاونت کی، اشرف غنی صدر تھے تو میں خود بھی کابل گیا تھا، ہمارا مو¿قف تھا افغانستان میں امن ہو گا تو پاکستان میں امن ہو گا، سیکیورٹی ایشوز پر جنرل( ر)قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی سے بات کرتے تھے، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک پیج پر ہونے سے بہت فائدہ ہوا، افغانستان سے عوام کے انخلا میں مدد پر دنیا نے ہماری تعریف کی، جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے انہیں این آر او دینے کا کہا جس پر میں نے منع کر دیا، جو ملک کو تباہی کی جانب لے جائیں وہ ملک ٹھیک کیسے کرسکتے ہیں؟بدقسمتی سے رجیم چینج ہوااور ہماری حکومت گرائی گئی، برے حالات کی ذمہ داری مجھ سے پہلے 30 سال تک حکومت کرنے والوں پر ہے،انہوں نے سازش کرکے ہماری حکومت گرائی، لوگوں کی ملک سے امید ہی چلی گئی ، ہم اس کے ذمہ دار ہیں، جو ہمارے دور میں ہوا، جو ہمیں ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ان سے ہمارا سوال ہے کہ ہمارے دور میں خیبر پختونخوا میں کچھ کیوں نہیں ہوا؟جب ہم حکومت ہی میں نہیں تو حالات کے ذمہ دار کیسے ہوگئے؟۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے عوام مسائل کاشکار ہوگئے ہیں، ابھی ملک میں مزید مہنگائی آنی ہے، ابھی پیٹرول اور ڈیزل مزید بڑھے گا، گیس اوربجلی کی قیمتیں اور اوپرجائیں گی، اسمبلیاں تحلیل کرنا میری بہترین حکمت عملی تھی، اسمبلیاں تحلیل ہوتے ہی حکومت بند گلی میں آچکی ہے، اگر اسمبلیاں نہ توڑتے تو عام انتخابات نہیں ہوتے،صوبوں میں 90 روز میں انتخابات نہ کرائے گئے تو آئین شکنی ہوگی، ابھی میرا ایک اور میڈیکل چیک اپ ہونا ہے، ٹھیک ہو کر انتخابی مہم کا آغاز کروں گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں