اسلام آباد(کرائم رپورٹر)انسپکٹر جنرل (آئی جی)پولیس معظم جاہ انصاری نے تہلکہ خیز انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال دہشت گردی کے واقعات دوبارہ شروع ہونے کے بعد خیبرپختونخوا پولیس کو ٹارگٹ کیا جانا ایک بڑے ڈیزائن کا حصہ ہے، خیبرپختونخوا پولیس کی فورس ایک لاکھ 30 ہزار ہے، ان میں سے اگر ایک اہلکار 12 گھنٹے ڈیوٹی دے تو 65 ہزار باوردی اہلکار آپ کو شہر میں نظر آئیں گے، ہر ایک جوان کا نام نظر آتا ہے، رینک لکھا ہوتا ہے، اس لئے اس کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے کہ وہ آسان ہدف ہے، اس اہلکار کو نہیں پتا کہ اس کے گرد جو ہزار پانچ سو لوگ پھر رہے ہیں ان میں کون دہشت گرد ہے؟ دور سے فائر کرنا، انفرادی حملے کرنا، پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا بھی عام بات ہے، کیونکہ ان کی بھی اپنی شناخت ہے، پچھلے ایک گھنٹے کے اندر پولیس پر حملے کے مزید دو واقعات ہوچکے ہیں، خیبرپختونخوا پولیس کو نشانہ بنانے کی وجہ یہ ہے کہ مقامی بطور پر پولیس کو لوگ فخریہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں، انہیں یہاں اپنایا جاتا ہے،ہم نے سیف سٹی پروجیکٹ کو دوبارہ سے لانچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، 2023 میں اس کا فیز 1 مکمل کر لیں گے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے آئی جی پولیس معظم جاہ انصاری نے کہا کہخیبرپختونخوا پولیس کی اپنی ایک شناخت ہے، اس کا ایک ماضی، ایک تاریخ ہے اور دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کی قربانیوں کی ایک طویل داستان ہے، دہشت گردوں کا پہلا قدم ہے پولیس پر حملے کرنا، ان کا حوصلہ توڑنا تاکہ یہ اپنے گھروں میں محصور ہوجائیں، احتجاج کریں، تھانے خالی ہوجائیں اور جب عوام کی حفاظت کیلئے کوئی نہ ہو تو دہشتگرد اپنی رٹ قائم کریں، پولیس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے لیکن ہم نے ان میں سے کئی حملوں کا جواب دیا ہے یا انہیں ٹریس اور ٹریک کیا ہے، ہم ایک جنگ کی حالت میں ہیں، جنگ میں ہمارا بھی نقصان ہوتا ہے اور ان کا بھی، ہم نے یہ جنگ نقصان سے بالکل قطع تعلق ہوکر لڑنی ہے اور اس جذبے سے آگے نہیں بڑھے تو اس جنگ کو جیتنا مشکل ہوجائے گا۔
سیکورٹی لیپس کے سوال پر آئی جی خیبرپختونخوا نے کہا کہ میں نے تسلیم کیا سیکیورٹی لیپس تھا، حملہ آور کیونکہ پولیس کی وردی میں تھا، جس طرح اس نے خود کو جس طرح پیش کیا ہمارے لوگوں کو لگا کہ وہ اپنا پیٹی بند بھائی ہے، وہ موٹر سائیکل کو کھینچتا ہوا پولیس لائن میں لایا اور بڑے آرام سے چلتا ہوا اندر داخل ہوگیا، ہم سیکیورٹی پر نظر ثانی کر رہے ہیں، آج میں پولیس لائن میں داخل ہوا تو میری گاڑیوں کی بھی تلاشی لی گئی، میں نے تمام کو ہدایات دی ہیں کہ چیکنگ پر اب کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئیے، سینئیر افسر ہو یا کوئی بھی سب کی گاڑی کی جامع تلاشی لینی ہےل،پولیس میں موجود کالی بھیڑوں اور دہشتگردوں کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اندرونی مدد کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا، ہم پورے نیٹ ورک تک پہنچیں گے تو آگے مزید لیڈ پر کام کریں گے، جب برطانیہ میں پلے بڑھے اور تعلیم یافتہ لوگ داعش اور القاعدہ میں شامل ہوسکتے ہیں تو یہ کہیں بھی ہوسکتا ہے، جب لبرل معاشرے میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں پاکستان میں تو ویسے ہی قدامت پسند معاشرہ ہے۔
آئی جی کے پی نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن ہم ریاست، حکومت پاکستان اور عوام کے ملازم ہیں، ہم ہر ایک کیلئے وہ خدمات کریں گے جو قانون ہمیں کہتا ہے،میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا، 15 اگست 2021 میں افغانستان حکومت کی تبدیلی کے بعد وہاں جو لوگ تھے ان میں سے بہت سے یہاں آئے ہیں، ان دہشتگردوں کے ساتھ مجرموں کا ساتھ بھی ہے جو اپنے علاقوں میں کچھ نہیں تھے لیکن اب یہ عوام کو ڈراتے دھمکاتے اور بھتے لیتے ہیں، پچھلے ڈیڑھ دو سال سے ہمارے پاس بھتے کی کالز آرہی تھیں اور تمام نمبرز افغانستان سے تھے، ہمارے پاس حکومتی سطح پر کوئی قانونی مدد نہیں تھے۔ ہم افغان نمبرز کو بلاک بھی کردیں تو واٹس ایپ بلاک نہیں کرسکتے۔
![](https://www.pakistantime.com.pk/wp-content/uploads/2023/02/328172410_6210782142305408_7232584125487882119_n-1200x480.jpg)