افغانستان میں خواتین پر پابندیاں ،ملالہ یوسف زئی بھی میدان میں آ گئیں


نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک)دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ پاکستانی ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں خواتین پر عائد کی جانے والی پابندیوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین پر پابندیاں عائد کرنے کی ثقافت پشتونوں کی نہیں طالبان کی ہے بلکہ دہشت گردوں کی برین واشنگ ہے۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق اقوام متحدہ میں پاکستان کے نمائندے منیر اکرم کی طرف سے افغان طالبان کی جانب سے خواتین پر عائد پابندیوں کو پشتون ثقافت سے منسلک کرنے پر جواب دیتے ہوئے نوبل انعامہ یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ ایک پشتون خاتون ہونے کے ناطے مجھے اس نکتہ نظر سے سخت اختلاف ہے اوربحیثیت پشتون، ایک پاکستانی اور مسلمان ہونے کے ناطے میں منیر اکرم کے مو¿قف سے سخت اختلاف رکھتی ہوں، میں بھی ان پشتونوں میں سے ہوں جس نے لڑکیوں کے حقوق،تعلیم، برابری اور برادری میں امن کا دفاع کرتے ہوئے اپنی زندگی خطرے میں ڈالی۔انہوں نے کہا کہ سفیر منیر اکرم، جو کہ اپنے بیان پر معذرت کر چکے ہیں، نے افغان خواتین کو درپیش غیر انسانی بد سلوکی کا الزام پشتون ثقافت پر ڈالنے کی کوشش کی، اگرچہ طالبان اپنے مقاصد کے لیے عقیدے اور ثقافتی ورثے کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتے ہیں لیکن ملک میں خواتین پر سخت پابندی اور ان کے حقوق کی خلاف وزری کے سب سے بڑے ذمہ دار طالبان ہیں اور ملک پر ان کا کنٹرول ہے، افغانستان سمیت پاکستان میں پشتون عوام ’برین واش‘ دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں تشدد، ذلت، نقل مکانی اور موت کا شکار ہو چکے ہیں، بحیثیت لڑکی میں سکول گئی، میں نے کار مکینک، ڈاکٹر اور یہاں تک کہ وزیراعظم بننے کے خواب دیکھے اور میرے والد جو کہ ایک پشتون ہیں انہوں نے میری حوصلہ افزائی کی کہ جتنا ہوسکے میں تعلیم حاصل کروں تاکہ اپنے مستقبل کا انتخاب خود کرنے کے ساتھ ساتھ خواتین کو درپیش مشکلات کے خلاف سرعام بات کر سکوں۔
ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ میری براداری کے لوگوں نے مجھے تعلیم سے نہیں روکا مگر وہ پاکستانی طالبان تھے جنہوں نے لڑکیوں کی تعلیم، خواتین کے باہر نکلنے، مردوں کے داڑھی بنانے، فن، موسیقی سمیت ہر اس چیز پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس کا وہ انتخاب کرتے تھے، افغانستان میں بہت سی پشتون خواتین اور مردوں نے، تاجک، ہزارہ، ازبک اور دیگر لوگوں کے ساتھ لڑکیوں کے سکولوں اور حقوق کی بات کرنے والی تنظیموں کے نیٹ ورکس بنانے میں دہائیاں گزار دی ہیں اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں جو آج بھی اپنے ملک کی سڑکوں پر احتجاج کرنے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی ایسی پرورش کی ہے جو خاموش نہیں رہیں گی جہاں ان سے ملازمت کرنے، سفر کرنے، پڑھنے اور کھیلنے جیسے حقوق چھین لیے گئے ہیں لیکن ایسا نہیں کہ پشتون سماج بالکل ٹھیک ہے، اس میں خواتین کو کئی سخت پابندیوں کا سامنا ہے جہاں لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم ہیں اور متعدد لڑکیوں کی نوعمری میں شادی کردی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح لوگ ثقافت بناتے ہیں، وہی لوگ اسے بدل سکتے ہیں، آج ہم افغانستان اور پاکستان کی کمیونٹیز میں صنفی مساوات کے لیے مل کر کام کرنے والی خواتین اور مردوں میں ایسی تبدیلی دیکھ سکتے ہیں جہاں طالبان اور دیگر انتہا پسند گروہ ہمیں پیچھے ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں، اگر سفیر منیر اکرم اور دنیا بھر کے رہنماو¿ں کو حقیقت میں افغان عوام کے انسانی حقوق کا خیال ہے تو انہیں متحد ہوکر ایک آواز میں بات کرنی چاہیے اور خواتین سے متعلق بنیادی حقوق پر طالبان کو کسی بھی سمجھوتے کی پیش کش نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم، ملازمتوں اور دیگر بنیادی حقوق پر عائد پابندیاں واپس لیں۔ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ 20 ویں صدی کے آغاز میں امن پسند پشتون باچا خان نے انگریز راج کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی اور ایک پرامن، مذہبی ہم آہنگی اور خواتین کے ساتھ برابری کا سماج تعمیر کرنے کا خواب دیکھا، جب میں سوچتی ہوں کہ گزشتہ دو برسوں میں میری افغان بہنوں کی زندگی کیسے بدل گئی ہے تو مجھے باچا خان کے الفاظ یاد آتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ثقافت کتنی مہذب ہے، تو اس میں دیکھیں کہ خواتین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں