’عمران خان عام آدمی نہیں،انہیں عوامی پشت پناہی حاصل ہے‘

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر )چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کوئی عام شہری نہیں،حکومت چھوڑنے کے بعد بھی عمران خان کو بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل ہے،عدالت قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی،عدالت نے کوئی از خود نوٹس نہیں لیا بلکہ قومی احتساب بیورو(نیب)ترامیم کے خلاف درخواست آئی ہے،عمران خان اسمبلی میں نہیں ہیں اور نیب ترامیم جیسی قانون سازی متنازع ہو رہی ہے،اس کیس میں عمران خان کا حق دعوی ہونے یا نا ہونے کا معاملہ نہیں بنتا،جو بھی ضروری ہے اس بات کا فیصلہ عوام کو کرنے دیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کیخلاف کیس پر سماعت کی،سماعت کے دوران حکومتی وکیل نے موقف اختیار کیا کہ کبھی نہیں ہوا کہ سیاسی بازی ہارنے کے بعد کوئی پارلیمان سے نکل کر عدالت آیا ہو،سیاست کو عدلیہ میں اور عدلیہ کو سیاست میں دھکیلا گیا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اقلیت میں موجود شخص حقوق متاثر ہونے پر عدالت کے علاوہ کہاں جائے؟جو بھی ضروری ہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنے دیا جائے۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ انتخابات سے قبل قانون میں وضاحت ضروری ہے،پارلیمنٹ چھوڑنے کے بعد انتخابات کیلئے ہر ایک کو زائد نشستوں پر الیکشن لڑنے کا حق ہے،بھارت میں ایک شخص کو ایک ہی نشست پر انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہے،ایک سے زائد نشستوں پر ایک شخص کی ہار یا جیت سے عوامی پیسے کا ضیاع ہوتا ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایک سے زائد سیٹ سے زیادہ انتخابات لڑے تھے،بھٹو نے بلا مقابلہ نشست جیتی تو باقی انتخابات معمول کے مطابق ہوئے،مخدوم علی خان نے موقف اختیار کیا کہ یہ 1970 سے پہلے کا معاملہ تھا،عوام نے بھٹو کے بلا مقابلہ جیتنے کی بھاری قیمت ضیا کے 11سالہ دور حکومت سے اتاری،کوئی عدالت اکیلئے جمہوریت نہیں بچا سکتی، 40 سال پہلے ایک بین الاقوامی اخبا ر میں آرٹیکل لکھا گیا تھا کہ”عدالت حکومت نہ کرے “ جس پرچیف جسٹس نے جواب دیا کہ عدالت کبھی حکومت کرنا نہیں چاہتی، عدالت از خود نوٹس کے اختیار میں محتاط رہی ہے،سیاسی خلا عوام کیلئے کٹھن ہوتا ہے،جب سیاسی بحران ہوتا ہے تو عدالت کو مداخلت کرنا پڑتی ہے،عوام کرپشن سے پاک حکومت چاہتے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل نے پھر کہا کہ عمران خان نے حکومت چھوڑی تو ترامیم قائمہ کمیٹی میں تھیں،موجودہ حکومت نے عمران خان کی ہی چھوڑی ہوئی نیب ترامیم منظور کیں،پی ٹی آئی دور میں سال 2021 میں 5 نیب آرڈیننس لائے گئے،عمران خان نے صرف حکومت جانے پر نیب ترامیم چیلنج کی ہیں،کیا پتا عمران خان عدالت میں آ کر کہیں انہوں نے نیب ترامیم پڑھی ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں تمام مسائل کا حل عوام کے فیصلے سے ہی ممکن ہے،موجودہ حکومت کے قیام کو 8 ماہ ہو چکے ہیں،الیکشن کمیشن نے سپیکر رولنگ کیس میں کہا تھا کہ نومبر 2022 میں عام انتخابات کرانے کیلئے تیار ہوں گے،موجودہ پارلیمنٹ دانستہ طور پر نامکمل رکھا گیا ہے،موجودہ پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی بھی متنازع ہو رہی ہے،ملک میں شدید سیاسی تناو اور بحران ہے،پاکستان تحریک انصاف نے پہلے پارلیمنٹ چھوڑنے کی حکمت عملی اپنائی،پتا نہیں چلا کہ پی ٹی آئی نے پھر سے کیوں پارلیمنٹ میں واپس آنے کا بھی فیصلہ کر لیا؟عمران خان کوئی عام شہری نہیں ہیں،عمران خان کے حکومت چھوڑنے کے بعد بھی بڑی تعداد میں عوام کی پشت پناہی حاصل رہی ہے،عمران خان ملک کی بہت بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں،عمران خان سابق وزیر اعظم رہ چکے ہیں،سیاسی تنازعات کی وجہ سے ان کی پارٹی نے پارلیمنٹ سے مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا،عمران خان کی پارٹی نے ذہن تبدیل کیا اور وہ واپس آناچاہتے ہیں لیکن اس وقت وہ پارلیمینٹ کا حصہ نہیں ہیں تاہم پارلیمنٹ موجود ہے،عمران خان عوام کے بہت بڑے حصے کی نمائندگی کرتے ہیں،اب اتنی بڑی متنازع ترمیم پر اگر یہ پارٹی پارلیمنٹ میں اعترض نہیں اٹھا سکی تو یہ ان کا استحقاق ہے کہ وہ اسے عدالت میں چیلنج کریں،قانون سازی کا جائزہ لینے میں ہم خود بھی محتاط ہیں اس لئے ہم نے سو موٹو نہیں لیا تھا مگر یہ سماعت ایک پارٹی سربراہ کی درخواست پر کی جا رہی ہے، عدالت بھی قانون سازی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی،عدالت اس سے پہلے بھی ایک بار اپنے فیصلے پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے،پاکستان کی تاریخ میں ایک ہی وزیراعظم آئے تھے جو بہت دیانت دار سمجھے جاتے تھے،ایک دیانت دار وزیر اعظم کی حکومت 58 ٹو بی کے تحت ختم کی گئی تھی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا عدالت اسمبلی بائیکاٹ پر کسی کا حق دعویٰ مسترد کر سکتی ہے؟نیب ترامیم صرف اپنے فائدے کیلئے کی گئیں،نیب ترامیم چند افراد کیلئے کی گئیں جن کے اپنے مفادات تھے،آرڈیننس عارضی قانون سازی ہوتی ہے،حالیہ ترامیم مستقل نوعیت کی ہیں،آرڈیننس لانے کی وجہ اسمبلی میں اکثریت نہ ہونا بھی ہوتی ہے، پارلیمان میں ہونے والی بحث میں حصہ نہ لینے کی وضاحت کا بھی انتظار ہے،انہو ں وکیل سے استفسار کیا کہ عمران خان کے آرڈیننس اور حالیہ ترامیم میں کیافرق ہے ؟سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف درخواست پر سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں