تحریر:بیرسٹر امجد ملک
![](https://www.pakistantime.com.pk/wp-content/uploads/2023/02/Amjad-Malik.jpg)
عدالت عالیہ کے سامنے کیسز ہوتے ہیں فیسز نہیں۔اگر عدلیہ آئینی اور قانونی دائرہ کار میں اشرافیہ کو رکھنا شروع ہوگئی تو عام آدمی کا ان عدالتوں پر اعتبار اور یقین مضبوط ہوگا۔عدالت کا کام مکمل انصاف کرنا ہے من پسند اشرافیہ کو راہداریاں دینا نہیں۔۔۔پاکستانی عدلیہ کے ججوں کے احتساب کی بات ہونا شروع ہوگئی ہے۔۔۔ججوں کے عدم تعاون اور اعلی عدلیہ کی مداخلت کی وجہ سے سپریم جوڈیشل کونسل ایک ناقابل عمل احتسابی ادارہ بنکر رہ گیا ہے۔۔۔ہمسایہ ممالک کا نظام دیکھ کر ججز کے ڈسپلن کو قابل احتساب بنایا جاسکتا ہے،اگر ایسا ہوا تو باقی مقدس گائیں بھی سبق سیکھ جائیں گی۔۔۔
پاکستان میں وزیر اعظم بھٹو کا عدالتی قتل،وزیر اعظم نواز شریف کی اقامہ کے ذریعے پانامہ کیس میں برطرفی ، سزا اور پھر بلا واسطہ جلا وطنی ایک المیہ ہے۔۔۔۔پاکستانی پاک صاف عدالتیں یہ کیسز کہیں بھی نظیر کے طور پر استعمال نہیں کرسکیں گی۔۔۔رہی بات عمران خان حکومت کی تو اسکی فاشسٹ حکومت کے بارے میں ضمانت درخواستوں میں سپریم کورٹ کے فیصلے مشعل راہ ہیں جہاں سیاسی بنیاد پر نیب کے ذریعے بنائے گئے مقدمات میں سیاستدان سالوں ضمانت کے انتظار میں انڈر ٹرائیل لڑھکتے رہے۔۔۔سول سوچ اور بھٹو کو مارنے مروانے والے اب سوچ تو رہے ہوں گے کہ پھر پاکستان میں لیڈرشپ کو کیا زوال آیا ہے؟۔کیا وقت تھا کہ لیڈر نے ڈکٹیٹر سے رحم کی اپیل کرنے سے انکار کیا اور تختہ دار پر چڑھ گیا۔۔۔اب تو حال یہ ہے کہ لیڈر کہتا ہے جیل بھرنی ہے اور عوام اسکی ضمانت قبل از گرفتاری کا عدالتی کمرہ بھر دیتی ہے۔۔۔
کیا لوگ ہیں اور کیا لیڈر؟؟؟مسعود مفتی کی زبان میں صحیح معنوں میں قحط الرجال ہے۔اب صدر محترم یکطرفہ
الیکشن کی تاریخ دے رہے ہیں۔۔۔۔وزیر قانون نے کہا ہے کہ صدر صاحب،جب آپ نے عمران خان کو عدم اعتماد سے بچانے کے لئے ایک غیر آئینی رولنگ پر 3 منٹ میں قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی،اس وقت تو آپ کو آئینی بالادستی کا خیال نہ آیا۔۔۔آج پھر اپنے لیڈر کی خواہش پر آزاد آئینی ادارے الیکشن کمیشن آف پاکستان پر بلا وجہ دباو نہ ڈالیں۔۔۔آپ صدر ہیں۔۔۔سیاسی ورکر نہیں۔۔۔وزیرِ داخلہ نے بھی اسی ٹون میں صدر پاکستان کو کھری کھری سنا دی ہیں اور کہا ہے کہ صدر علوی صاحب”آ بیل مجھے مار“والے کام نہ کریں،آئین کی حد میں رہیں،صدر کے دفتر کو بلیک میلنگ کا اڈہ نہ بنائیں۔۔۔الیکشن کی تاریخ دینے سے صدر کا کوئی لینا دینا نہیں،عارف علوی خوامخواہ ٹانگ نہ اڑائیں،صدر الیکشن کمیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی احکامات پر مجبور نہیں کر سکتا۔۔۔میرا یہ ماننا ہے کہ کتنا برا ہوگا اگر الیکشن کمیشن صدر پاکستان کے فرمان کو غیر آئینی،غیر قانونی اور حد سے تجاوز قرار دے دے۔۔۔نہ انکو اپنی عزت کا خیال ہے۔۔۔نہ کوئی ملک کی عزت کا پاس۔۔۔مفت میں جگ ہنسائی ہوگی۔۔۔جب تک الیکشن کمیشن آف پاکستان کوئی سمری بنا کر صدر مملکت کو نہیں بھیجتا۔۔۔تب تک صدر کا آرڈر بالکل غیر قانونی ہے۔۔۔میری آئینی اور قانونی رائے یہی ہے کہ صدر کے پاس اختیار نہیں تھا کہ وہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان کریں لیکن انکو سمجھائے کون؟؟؟جنرل باجوہ نے انکی عادتیں خراب کردی ہیں۔۔۔۔انکو”فیض ادبی میلہ“نہیں”فیض والا فیض“چاہیے۔۔۔جو،اب شاید ممکن نہ ہے۔۔۔غیر آئینی کام کرنے والے ہتھوڑا گروپ کی صفائی تو ہو رہی ہے مگر سادہ سی بات ہے،عمران پراجیکٹ نافذ ہی پانامہ پراجیکٹ کے تحت ججوں کے ذریعے کیا گیا تھا۔۔۔سو سب سے پہلے یہی معاملہ دیکھنا ہوگا،علاج بھی صرف اتنا ہے کہ آئین کو دوبارہ ماوارائے پارلیمان لکھنے اور قوانین کی من مانی تشریح اور دوسروں کے کاموں میں مداخلت کے غیر قانونی عمل کو روک دیا جائے۔۔۔پارلیمان کا سپریم گردانا،مانا اور اور اسکے احکامات پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے۔۔۔بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟؟یہی ملین ڈالر کاسوال ہے۔۔۔باتیں سب کرتے ہیں لیکن انصاف کیلئے سسکتے،بلکتے، تڑپتے سائل کیلئے اصلاحات کون لائے گا؟؟۔
پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام بےحد تضادات کا شکار ہے۔۔۔موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر،کرپشن،جانبداری،غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے۔۔۔۔تفتیش اور استغاثہ میں سیاسی مداخلت کے تاثر پر ازخود نوٹس لینا درحقیقت کسی بھی حکومت پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔۔۔۔تاثر یہ بھی ہے کہ گذشتہ سالوں میں بین الاقومی رینکنگ میں عدلیہ کی کارکردگی اور ساکھ انڈیکس میں نیچے آئی ہے۔۔۔اس پر فل کورٹ ریفرنس بنتا ہے تاکہ عام سائل کیلئے اصلاحات تجویز ہوں۔۔۔عدالت اگر چاہتی ہے کہ فیصلوں کی عزت ہو تو عوام کے کیسوں پر جلد فیصلے کریں۔۔۔معنی خیز قانون سازی اور اصلاحات کیلئے سپریم جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تجاویز دیں۔۔۔سیاسی معاملات سے دور رہیں۔۔۔ازخود نوٹس ضرور لیں لیکن متعلقہ ہائی کورٹ بھیجیں تاکہ کہ ٹائم فریم میں فیصلہ کریں،سپریم کورٹ اپیل سن سکے۔۔۔انصاف کریں تاکہ تاریخ آپکے ساتھ انصاف کرسکے۔
کرمنل لاء میں پاکستان اب بھی انگریز کے زمانے میں رہ رہا ہے۔۔۔ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائیل کے ذریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ہے اور ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ ایک جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت اور نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے۔۔۔۔سول نظام تو بیٹھتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ۔۔۔۔ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا۔۔۔اصلاحات کی دہائی ضرور دی لیکن پارلیمنٹ میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو نہ ہوسکی اور ہوئی بھی تو سیاسی مقاصد حائل آئے اور وہ نتیجہ خیز نہ ہوئی۔۔۔۔قانون تو بحث کے بعد ہی بنتے ہیں اور تو اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے عدالتی اکابرین نے بھی مشوروں سے اجتناب ہی برتا ہے۔۔۔عدالتی بڑے 76سالوں میں مثالی برتاو اور زیادہ عرصہ غیر جانبدار رہنے سے قاصر رہے۔۔۔یا یوں کہیں انہیں رہنے ہی نہیں دیا گیا اور انکے ساتھ ”یا ہمارے ساتھ“ اور” یا ہمارے خلاف“ والا معاملہ رہا۔۔۔فوجی ڈکٹیٹر کا نزلہ پی سی او کے ذریعے سب سے پہلے عالیہ اور عظمی پر ہی گرا ہے۔
برطانیہ نے بھی سول نظام میں خرابیوں کو 1995 میں ایک سپریم کورٹ کے جج لارڈ ولف کے نام پر ولف ریفارمز کے ذریعے سیدھا کیا۔۔۔انہوں نے کیس مینجمنٹ کا نظام متعارف کروایا جس سے ایک کاونٹی یا قصبے/ضلعے میں ایک ہی عدالت کے ذریعے جدید ذرائع کے ساتھ مقدمات کا اندراج اور اخراج شامل تھا۔۔۔۔اس تمام کاروائی کو چھ ماہ میں مکمل کرنے کا خودکار نظام وضع کیا۔۔۔کیس سے پہلے کچھ شرائط لازماً قرار دیں ٹرائیل سے پہلے سمجھوتے کے امکان اور اسکے لئے ایک نظام کو متعارف کیا اور چھوٹے اور درمیانے اور بڑے مقدمات کے لئے گزارشات مرتب کیں اور انصاف کے حصول کے متبادل ذرائع کو استعمال کرنے کے لئے(اے ڈی آر )آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کا پورا نظام کھڑا کیا۔۔۔۔اس نظام کے ذریعے دونوں پارٹیوں کے درمیان مفاہمت،سمجھوتہ اور صلح صفائی اور باہم رضامندی سے عدالت جائے بغیر مقدمات کا حل موجود تھا۔۔۔ہم ابھی تک آربریٹریشن اور مصالحاتی کمیٹی جیسی عدالتی اصلاحات کے پاس سے بھی نہیں گزرے۔۔ گرچہ ہمارا دیہی پنچائت کا نظام اسی اصول پر کار فرما تھا لیکن ہم نہ اِدھر کے رہے نہ ادھر کے۔۔۔اسلامی معاشرہ انصاف کی گھر کی دہلیز تک فراہمی کا داعی ہے۔۔۔سستا،فوری اور بروقت انصاف عوام کی دہلیز پر،ووٹ کے لئے اچھا نعرہ تو ہے ہی لیکن اگر کوئی کچھ کرنا چاہے تو خدمت خلق کا عمدہ ذریعہ بھی ہے۔۔۔کسی بھی معاشرتی اور اخلاقی طور پر عمدہ اور مضبوط نظام مملکت میں عدالتیں اپنا دروازہ بند نہیں کرتی اور انصاف کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا اور جہاں پسے ہوئے طبقوں کی بھر
مار ہو وہاں تو ہر وہ قدم اٹھانا چاہیے جس سے سستا فوری اور منصفانہ انصاف ممکن ہوسکے۔ ۔۔۔چیف جسٹس لا کمیشن کے ذریعے تجاویز اور حل پیش کریں ۔۔۔ عوامی نمائندگان ، وکلا تنظیمیں بار کونسلز ، بار ایسوسی ایشنز ، سول سوسائٹی، ہیومن رائٹس کمیشن ، میڈیا اور قانون دان آئین ساز اور ماہرین کو اس سلسلے میں تمام شراکت داروں کے ساتھ مل کر نظام میں وہ تبدیلیاں تجویز کرنا ہوں گی جس سے ان لاکھوں کیسوں کو سالوں کی بجائے مہینوں میں نپٹایا جا سکے۔۔۔۔لوگ انصاف کے حصول کے لیے در در ٹھوکریں نہ کھائیں،سستا،فوری اور مکمل انصاف انکے گھر کی دہلیز تک پہنچایا جاسکے۔۔۔اصلاحات کے لئے کسی بھی نظام کو دیکھا جا سکتا ہے۔۔۔چاہے امریکن نظام یا وولف اصلاحات پر مبنی برطانوی طرز انصاف ہو یا ہندوستانی لوک عدالتوں کا ماڈل اور یا ہمارا تاریخی ثقافتی اور حقیقت پسندانہ پنچایتی ماڈل،بات انصاف کی فراہمی کی ہے۔۔۔۔پاکستان اس وقت سخت سیاسی تقسیم،نوجوانوں میں نفرت کا شکار ہے۔۔۔ایسے میں پنڈی اکٹھ میں چیف آرگنائزر مسلم لیگ ن مریم نواز صاحبہ نے شاہد خاقان عباسی صاحب کے لئے اپنی نشست چھوڑ کر سیاسی اور خاندانی روایات کی بہترین مثال قائم کرکے سب کے دل جیت لئے ہیں۔۔۔۔عمران خان الیکشن کی مانگ کر رہے ہیں اور پی ڈی ایم اکتوبر تک کھینچنا چاہتے ہیں۔۔۔۔اب سب معاملات عدالتوں میں نظر آ رہے ہیں۔۔۔آنے والے الیکشن آر او کے ہوں گے یا آر ٹی ایکس والے وقت ہی بتائے گا۔۔۔معاشی حالات یہی رہے تو شاید سنبھلنے کے مواقع کم ہوں۔۔۔لیکن جب جب آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیری جائیں گی تب تب آپکو عابدمنٹو،علی احمد کرد اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلاء یاد آئیں گے جنکی ساری زندگی قانون کی حکمرانی کیلئے لڑتے اور جدوجہد کرتے گزر گئی لیکن قانون کی حکمرانی نہیں آئی۔۔۔یہ خواب آئین کو سب سے بالاتر کرنے سے ہی ممکن ہے اور ہم نے ہمیشہ تاریخ سے نفرت کی ہے اس سے سبق نہیں سیکھا۔۔۔
(بیرسٹر امجد ملک برطانوی وکلاء کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے چئیرمین اور برطانیہ میں انسانی حقوق کا سن 2000 کا بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں،وہ ہیومن رائٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں)