تحریر : امجد عثمانی
قوم اور”ہجوم” میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہ بھی عالم گیر سچائی ہے کہ قومیں اپنی “قومی شناخت”کے دم قدم سے ہی زندہ رہتی ہیں۔۔۔۔۔ اٹلی کی خاتون وزیر اعظم جارجیا میلونی کے بھائی نے انگریزی زبان کے استعمال کو خصوصی طور پر قابل سزا دینے کا بل اطالوی پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔۔۔۔نئے قانون کے تحت اٹلی کی سرکاری رابطہ کاری میں انگریزی یا دیگر غیر ملکی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے پر ایک لاکھ یورو تک جرمانہ عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔۔۔۔قانونی مسودے میں تمام غیر ملکی زبانوں کے الفاظ کے استعمال کو روکنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم خصوصی طور پر ’انگلومینیا‘ یا انگریزی زبان کے الفاظ کے استعمال کو اطالوی زبان کیلئے” کسر شان” قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ تو اور بھی بدتر ہے کیونکہ برطانیہ اب یورپی یونین کا بھی حصہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بل میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ سرکاری نوکریوں اور عوامی انتظامیہ کیلئے کسی بھی شخص کیلئے اطالوی زبان پر تحریری اور زبانی عبور کو لازمی قرار دیا جائے۔۔۔۔۔۔بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ اٹلی میں کام کرنے والی کمپنیوں کو بھی سرکاری دستاویزات میں انگریزی زبان کے الفاظ استعمال نہ کرنے کیلئے پابند بنایا جائے۔۔۔۔۔ وطن عزیز میں قومی زبان تحریک کی روح رواں فاطمہ قمر صاحبہ بھی اردو کے باب میں صبح شام یہی”فقیرانہ صدا”لگا رہی ہیں مگر انہیں کون بتائے کہ محترمہ یہ اٹلی نہیں کہ کوئی ایسے”قومی موضوع” کا سوچے اور ایوان سجائے۔۔۔۔۔ہم بھی عجب قوم ہیں کہ قومی زبان کا خیال ہے نہ قومی لباس کا لحاظ۔۔۔۔۔۔قومی شاعر کو پڑھتے نہ قومی کھیل کھیلتے ہیں۔۔۔۔گلاب پسند نئی نسل تو اپنے قومی پھول سے بھی بمشکل ہی واقف ہوگی۔۔۔۔کڑوا سچ یہ کہ سبز ہلالی پرچم کے سوا شاید ہی ہماری کوئی” قومی پہچان” رہ گئی ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ پھر بھی ہم “عظیم قوم” ہیں۔۔۔۔۔۔۔ اشرافیہ کا تو” کاروبار زندگی” ہی انگریزی سہارے چل رہا ہے۔۔۔۔المیہ یہ ہے کہ انگریزی کے “خبط” نے ساجھے ماجھے کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔ عجب تماشا ہے جہاں اردو بھی پنجابی میں سمجھ آتی ہے وہاں گلی گلی آکسفورڈ کا نصاب پڑھایا جا رہا ہے ۔۔۔۔ہماری حالت ہنس کی چال چلتے اپنی چال بھول جانے والے بے چارے کوے کی سی ہے۔۔۔۔۔۔”کھانا فنش”اور “ہاتھ واش”کلچر نے ہمیں آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے “ماہرین نصاب” کے بھی کیا کہنے کہ جہاں انگریزی کی ضرورت نہیں وہاں بھی انگریزی ٹھونس دی ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ دن ہوئے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج کے بہترین انگریزی ٹیچر جناب پروفیسر عابد کھوکھر کی دست بوسی کے لیے حاضر ہوا تو استاد گرامی بھی محترمہ فاطمہ قمر والا” نوحہ” پڑھ رہے تھے ۔۔۔۔۔عابد کھوکھر ہمارے گریجویشن میں انگریزی کے استاد تھے۔۔۔۔۔وہ راوین ہیں اور لندن سے بھی پڑھے لیکن خوش قسمت ہیں کہ انہیں بھی” دانش افرنگ” خیرہ نہ کر سکی کہ ان کی آنکھ میں بھی خاک مدینہ و نجف کا سرمہ محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔۔انگریزی کے انوکھے پروفیسر ہیں کہ مسجد میں اذان کہتے۔۔۔۔نماز کی امامت کراتے اور خطبہ جمعہ بھی دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ پروفیسر صاحب کہنے لگے انگریزی کو بطور زبان و ادب پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔۔۔۔کوئی بھی زبان سیکھی جا سکتی اور کسی بھی ادب کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔کہنے لگے انٹرمیڈیٹ تک انگریزی کی بطور لازمی مضمون سمجھ تو آتی ہے۔۔۔۔۔ بی ایس انگریزی کا لفظ لفظ بھی انگریزی میں ہی جچتا ہے۔۔۔۔۔۔۔سوال مگر یہ ہے کہ بائیو،کیمسٹری،فزکس اور میتھ کے بی ایس میں انگریزی کی لازمی مضمون کے طور پر کیا منطق ہے؟؟کہنے لگے ان بی ایس میں تو مطالعہ پاکستان اور اسلامیات بھی ضروری نہیں چہ جائیکہ انگریزی مضمون ہو۔۔۔۔۔۔۔کیا ہمارے” لارڈ میکالے” پروفیسر صاحب کے اس سیدھے سادھے سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟یہی حال ہماری میڈیا ایجوکیشن کا ہے۔۔۔۔۔ہماری جامعات کے طالب علم انگریزی میں ایم ایس سی ماس کمیونیکشن کی ڈگری لیتے اور اردو میں” ابلاغ عامہ”کی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔۔کیا ہی “سائنس” ہے۔۔۔۔۔۔!!!! معتبر کالم نگار جناب آصف محمود نے اپنے ایک کالم میں اسی” سائنس” پر کچھ سوالات اٹھائے تھے۔۔۔۔انہوں نے استفسار کیا کہ ہمارے “سو ٹڈ بوٹڈ” اینکر پرسن اپنے ٹاک شوز انگریزی میں کیوں نہیں کرتے؟۔۔۔۔۔ یہ نہ طنز ہے نہ افتاد طبع کی شوخی ، یہ انتہائی اہم سوال ہے۔۔۔۔۔۔ انہوں نے لکھا کہ اکثر محترم اینکرز ٹوئٹر پر موجود ہیں۔۔۔۔۔ وہاں یہ انگریزی زبان میں ابلاغ فرماتے ہیں۔… سوال یہ ہے کہ پھر یہ اپنے ٹاک شوز بھی “اسی زبان” میں کیوں نہیں کرتے؟وجہ کیا ہے؟ اس ملک میں ایک انگریزی ٹی وی چینل آیا تھا ، کچھ عرصے کے بعد اسے اردو چینل میں بدل دیا گیا۔۔۔…۔ کبھی کسی نے جاننے کی کوشش کی کہ ایسا کیوں کرنا پڑا؟ایک اور میڈیا ہائوس نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ ایک انگریزی زبان کا چینل لا رہا ہے ، ابتدائی کام بھی ہو گیا ، افراد کا انتخاب بھی ہو گیا لیکن پھر وہ پراجیکٹ بند کر دیا گیا۔ سوال وہی ہے کہ کیوں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے کہ انگریزی اس ملک کا Lingua Franka نہیں ہے۔یہ یہاں نہ ذریعہ اظہار ہے نہ ذریعہ ابلاغ۔…. یہ صرف احساس کمتری کا استعارہ ہے اور ’ مقامی جنٹل مین‘ اس زبان میں ابلاغ کو تفاخر کی علامت سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن وہ اتنے سیانے ضرور ہیں کہ اپنے پیشہ ورانہ مفادات پر ضرب نہیں آنے دینا چاہتے۔۔۔۔۔۔چنانچہ جب بات ٹاک شو کی آئے گی تو وہ انگریزی میں نہیں بلکہ اردو میں ہو گا ۔۔۔۔۔۔جب یو ٹیوب چینل پر خطبہ ہو گا تو وہ اردو زبان میں دیا جائے گا تا کہ دیکھنے والوں کی تعداد بڑھے۔۔۔۔وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں اگر کوئی زبان ہر جگہ سمجھی جا سکتی ہے اور اس میں بات کی جا سکتی ہے تو وہ اردو ہے….۔مقصد اگر بات سمجھانا ہی ہے اور اپنے موقف کا ابلاغ کرنا ہی ہے تو پھر انگریزی پر اصرار کیوں؟ نہ اینکر پرسن انگریزی میں ٹاک شو کرتا ہے نہ سیاست دان انگریزی میں جلسہ عام کرتا ہے ، تو یہ بیچ میں جب احساس کمتری ” انگریزیائی”جاتی ہے تو اس کا مقصد کیا ہے؟ احساس کمتری کی اس سے کریہہ شکل اور کیا ہو گی کہ اقوام متحدہ اردو میں اپنا بلیٹن جاری کر چکا ہے لیکن قومی اسمبلی اور سینٹ کی کارروائی کی تفاصیل آج بھی انگریزی میں ملتی ہیں۔…….پاکستان کا ایوان ہے ، قومی زبان اردو ہے لیکن تمام نوٹی فکیشن انگریزی زبان میں جاری ہوتے ہیں۔……معاملہ کسی زبان سے نفرت کا نہیں۔..معاملہ اس احساس کمتری سے نکل کر اپنی شناخت کی تلاش کا ہے جس سے ہمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے تربیت یافتہ اور ملکہ وکٹوریہ کے وفادار مقامی جنٹل مینوں نے محروم کر رکھا ہے۔…..ہمارے احساس کمتری نے یہ تصور کر لیا ہے کہ زبان اب ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ وہ اس ملک میں طبقاتی تقسیم کی آلہ کار ہے….۔یہ واردات صرف غلامی مشترکہ ، معاف کیجیے ، ’ دولت مشترکہ‘ کا اجتماعی ورثہ ہے کہ عزت اور فضلیت صرف انگریزی زبان میں ہے اور اگر آپ کو اس زبان میں بات کرنا نہیں آتی تو آپ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔…..اس ملک کو اپنی زبان ، اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت اور اپنی روایات کی ضرورت ہے….تبدیلی کا یہ واحد راستہ ہے۔۔۔۔۔ہر وہ طبقہ جو اس کی نفی کرتا ہے وہ غاصب ہے یا احساس کمتری کا مارا مقامی جنٹل مین۔۔۔۔۔۔۔۔۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ سے بھی لارڈ میکالے کے “انگریزی منصوبے” کا پردہ چاک ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ بھارتی ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم اگروال کے مطابق انگریزوں کی آمد سے پہلے انڈیا میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا۔۔۔۔۔…. مکتب اور مدارس تھے، جن میں صرف مذہبی تعلیم نہیں بلکہ سیکولر تعلیم بھی دی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ مساجد میں بھی تعلیم دی جاتی تھی۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے “معمار”کہلانے والے انگریز ماہر تعلیم لارڈ میکالے چاہتے تھے کہ برطانوی حکومت پیسہ صرف مغربی تعلیم دینے پر خرچ کرے نہ کہ مشرقی تعلیم پر۔۔۔۔ انہوں نے ان تمام کالجوں کو بند کرنے کی وکالت کی تھی، جہاں صرف مشرقی فلسفہ اور مضامین پڑھائے جاتے تھے۔۔۔۔۔۔۔دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تعلیم بالغاں میں ریسرچ سکالر رادھیکا کپور کے مطابق اس زمانے میں تعلیم کا آغاز ’بسم اللہ‘ نامی تقریب سے ہوتا تھا۔۔۔۔۔ابتدائی سطح کے طلبا کو حساب، وزن، پیمائش، اشکال وغیرہ کے حوالے سے تربیت دی جاتی تھی۔۔۔ اس کے لیے ریاضی کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔۔۔۔ادب ایک اور موضوع تھا جس پر توجہ دی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔ تعلیمی اداروں میں سائنس، سماجی سائنس، فلکیات، پبلک ایڈمنسٹریشن اور مذہبی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ تاریخ کے سابق استاد پروفیسر سید ظہیر حسین جعفری بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ تعلیم کا نظام مکتب مدرسے کے علاوہ خانقاہوں میں بھی تھا،جہاں لوگ پڑھنے جایا کرتے تھے۔۔۔۔جعفری صاحب نے انگریز کی ایک اور چال بے نقاب کی ہے۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ انگریزوں کے آنے کے بعد تعلیم یافتہ ہونے کی تعریف بدل گئی اور آج بھی مردم شماری میں انہی کو تعلیم یافتہ مانا جاتا ہے جنہوں نے سکول کالج کی ڈگریاں حاصل کی ہوں۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ انگریزوں کے تعلیمی نظام میں غیر روایتی طور پر تعلیم یافتہ کو تعلیم یافتہ نہیں کہا گیا چنانچہ عربی فارسی کے سکالرز بھی غیر تعلیم یافتہ ٹھہرے۔۔۔۔یہاں تک کہ یہ کہاوت مشہور ہوگئی کہ پڑھے فارسی بیچے تیل۔۔۔ دیکھو بھائی قدرت کا کھیل۔۔۔۔۔انہوں نے تیل بیچنے کا مطلب بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ کچھ نہ کرنے یعنی بے روزگار ہونے کے مترادف ہے۔۔۔۔۔۔ تاج برطانیہ کو سرنگوں ہوئے پون صدی بیت گئی مگر لارڈ میکالے کے دماغ سے پھوٹا دوہرا نظام تعلیم آج بھی دونوں ممالک کے طول و عرض میں پنجے گاڑے ہوئے ہے۔۔۔۔۔۔آج بھی انگریزی کا نام ہی تعلیم ہے۔۔۔۔۔۔اج بھی کالج یونیورسٹی کہلانے والی درسگاہوں کے فارغ التحصیل پڑھے لکھے اور مہذب جبکہ دینی دانش گاہوں سے فیض یاب ان پڑھ اور گنوار سمجھے جاتے ہیں۔۔۔۔!!!