حسین حقانی،عمران خان کے الزامات پر پہلی مرتبہ کھل کر بول پڑے،ایک،ایک چیز تفصیل سے بیان کر دی

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے تسلسل کے ساتھ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی پر الزامات کے بعد حسین حقانی پی ٹی آئی چیئرمین کے الزامات پر کھل کر بول پڑے ہیں،حسین حقانی نے پاکستانی سیاست میں امریکہ کے کردار اور عمران خان کے حوالے سے ایک،ایک چیز کھول کر بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ عمران خان کے بیانیے کی نہیں جھوٹ کی جنگ ہے اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے،خان صاحب کے پیرو کار ہی ان کی باتوں کو سمجھتے ہیں کوئی دوسرا ان کی بات نہیں سمجھ سکتا، عمران خان کے اقتدار سے ہٹائے جانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق نجی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے حسین حقانی کا کہنا تھا کہ پہلے عمران خان کہتے تھے کہ یہ خط آیا ہے اور امریکہ نے خط کے زریعے میرے خلاف سازش کی ہے،اعلان کر کے تو کوئی سازش نہیں کرتا، اس کے بعد پھر یہ ہوگیا کہ جی وہ ہمارے اپنے ہی سفیر کا سائفر تھا،مختصر سی بات یہ ہے کہ ایک میں بیچارہ رہ گیا تھا جس پر خان صاحب کی نظر عنایت نہیں ہونی تھی،تو وہ بھی ہو گئی،عمران خان اگر یوٹرن نہ لیتے تو جس اسٹبلشمنٹ پر میں بیس برس سے تنقید کر رہا ہوں،جو باتیں میں بیس برس سے کہہ رہا ہوں کہ بھائی پاکستان میں ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ کار میں کام کرنا چاہئیے اور نہ فوج کا سیاست میں کردار ہونا چاہئیے نہ سیاستدانوں کو فوج کے ساتھ زیادہ عمل دخل کرنا چاہئیے،ان کو اپنا کام کرنے دیں وہ ہمارے ملک کا دفاع کریں جس میں وہ بہت اچھا کردار ادا کرتے ہیں،جس کی وجہ سے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں لیکن خان صاحب تھے اس وقت جو امپائر کی انگلی کا مطالبہ کر رہے تھے،اگر آپ کو یاد ہو تو کنٹینر پر کھڑے ہوکر وہ کہا کرتے تھے کہ امپائر انگلی اٹھائے اور امپائر سے ان کی مراد پاکستان کی مسلح فوج اور اس کی قیادت تھی،اب عمران خان کافوج کے ساتھ جھگڑا ہوگیا اور اس جھگڑے کے کے بعد 174 اراکین قومی اسمبلی نے ان کے خلاف عدم اعتماد کو ووٹ دے دیا،بیچارہ حسین حقانی بیچ میں کہاں سے آ گیا؟یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا لیکن خان صاحب کی باتوں کا آپ کو پتا ہی ہے کہ ان کی باتوں کو سمجھنے کیلئے، بعض اوقات پیری مریدی میں ایسا ہوتا ہے کہ مریدوں کو اپنے پیر کی بات سمجھ میں آتی ہے کسی اور کو سمجھ میں نہیں آتی، اسی طرح سے خان صاحب کے جو پیرو کار ہیں وہی ان کی کہانیاں سمجھتے ہیں،ریکارڈ کیلئے میں عرض کر دوں،خان صاحب کے اقتدار سے ہٹائے جانے میں میرا کوئی کردار نہیں۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو امریکہ کا سیاسی نظام سمجھ میں نہیں آتا،اگر آپ کو یاد ہو تو خان صاحب کہا نہیں کرتے تھے کہ جی میں مغرب کو سب سے زیادہ جانتا ہوں؟تو جب وہ مغرب کو سب سے بہتر جانتے تھے تو ایک بیچارہ دو چار کتابوں کا مصنف،ایک یونورسٹی کا پروفیسر،ڈھائی ساڑھے تین سال سفیر رہ چکا،وہ ان کو اقتدرا سے کیسے فارغ کرسکتا ہے؟یہ جو انہوں نے میرے ساتھ حسن زن برتا ہے،اس کیلئے میں صرف ان کا شکریہ ہی ادا کر سکتا ہوں،مشہوری کے اوپر میں ان کا ممنون ہوں،مسئلہ سارا یہ ہے کہ پچیس سال جس آدمی نے اپنا بیانیہ یہ بنایا ہو کہ میں امریکا مخالف ہوں،اس کے خلاف امریکنوں کو منانے کی کوئی ضرورت نہیں،دوسری بات یہ ہے کہ 174 اراکین اسمبلی کو امریکا نے خان صاحب کے خلاف نہیں کیا،اب وہ خود کہتے ہیں کہ یہ امریکا کا معاملہ نہیں تھا،سازشی نظریوں کے بارے میں جو ماہرین ہیں انہوں نے ان نظریوں اور ان پر یقین رکھنے والوں پر بڑی ریسرچ کی ہے،ان کا کہنا ہے کہ جو لیڈر اپنی غلطی نہیں ماننا چاہتے وہ سازشی نظریات پھیلاتے ہیں،یہ تو نہیں ماننا آسان کہ بھئی 174 آدمی میرے اپنے حلیف ان میں سے چند ایک اور میری اپنی پارٹی کے کچھ لوگ چھوڑ چھاڑ کر چلے گئے کیونکہ میں ان سے ملتا نہیں تھا،زیادہ آسان یہ ہے کہ ملبہ امریکا پر ڈال دو جس کے خلاف میں نے 25 سال تک بیانیہ تیار کیا ہے مگر جب بعد میں لوگوں نے سمجھایا کہ بھائی کل کلاں آپ کو دوبارہ حکومت مل گئی تو اسی امریکہ سے معاملات تو کرنے پڑیں گے نا،تو ذرا کچھ تھوڑا سا ہتھ ہولا کیجئے،مذہبی ٹچ کی طرح کسی نے انہیں کہا کہ نہ سائیں کبھی آپ کو امریکی ٹچ کی بھی ضرورت پڑے گی ذرا ہتھ ہولا کریں،انہوں نے ہتھ ہولا کرنا شروع کر دیا،اب ہتھ ہولا کرتے کرتے پہلے فوج پر ملبہ ڈالا، پھر خیال آیا کہ نہیں فوج سے نہیں لڑائی کرنی،پھر اس کے بعد انہیں خیال آیا کہ محسن نقوی صاحب چیف منسٹر بن گئے، ان سے جھگڑا ہو گیا تو ان پر ڈال دیا،اب مجھ پر ڈال دیا ہے اور جس بات کی بنیاد پر ڈالا ہے وہ ایسی مضحکہ خیز ہے کہ جناب میں نے ایک ریسرچ کی اور اس ریسرچ کی بنیاد پر مجھے پیمنٹ(ادائیگی) ہوئی اور وہ پیمنٹ 30 ہزار ڈالر رجیم چینج کیلئے استعمال ہوئی،تو اگر 30 ہزار ڈالر میں رجیم چینج ہو رہی ہے تو آپ بھی 30 ہزار ڈالر دے کر دوبارہ رجیم چینج کرا لیں،افتخار درانی کا جس (لابنگ) فرم سے کانٹریکٹ تھا اس سے میرا بھی کانٹریکٹ تھا لیکن کسی اور کام کیلئے،یہ کون لوگ ہیں جو یقین کرلیتے ہیں کہ سازشوں کی رسیدیں رکھی جاتی ہیں،امریکہ میں لابنگ کھل کر ہوتی ہیں،اس کی رسیدیں ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کی جاتی ہیں،اس لئے اس کو ایک سازش سے ملانا لوگوں کو بیوقوف بنانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

حسین حقانی کا کہنا تھا کہ یہ مغالطہ ہے عمران خان کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بڑے اچھے تعلقات تھے،آپ کو یاد ہوگا کہ 2018 کی جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کیا تھا کہ میں پاکستان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتا، اس کو سبق سکھاؤں گا،اس کو اتنے ارب ڈالرز دیئے ہیں اور پاکستان نے کبھی ہمارا ساتھ نہیں دیا،الٹا افغانستان میں ہمیں نقصان پہنچایا ہے،اس کے بعد تھوڑی سی بدمزگی ہوئی تھی،اسی دوران ایک سینیٹر لنڈسے گراہم کو بعض پاکستانی نژاد امریکن پاکستان لے کر گئے،وہاں ان کی بڑی خاطر تواضع ہوئی اور واپس آ کر انہوں نے عوامی طور پر کہا کہ میں نے صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ پاکستان کا وزیر اعظم آپ ہی کی طرح کا ہے،آپ اس سے ملیں آپ کھل کر بات کریں گے تو آپ کی اچھی بنے گی،اس کے بعد عمران خان امریکہ مدعو کئے گئے لیکن پالیسی کی بنیاد پر کوئی بہتری نہیں آئی،س دوران انتظامیہ بدل گئی اور جو بائیڈن نے فون تک کرنا گوارہ نہیں کیا،یہ بہت کم ہوتا ہے کہ امریکی صدر ان ممالک کے سربراہان کو فون نہ کرے جن کے ساتھ امریکہ کے اچھے یا خصوصی تعلقات ہوں،ان کو جب فون نہیں آیا تو یہ بے چین ہوئے کیونکہ ان کا دوطرفہ معاملہ چلتا ہے کہ پاکستان میں کہنا ہے کہ ہمیں امریکہ سے حقیقی آزادی چاہئیے وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف امریکہ کو بھی منا کر رکھنا ہے،اس وقت افتخار درانی نے اس فرم کی خدمات حاصل کی ہوں گی،مجھے اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے،مجھے تو صرف اتنا پتا ہے کہ کئی ماہ بعد جب اس فرم کی سالانہ فائلنگ ہوتی ہے تو اس میں میرا نام بھی تھا کہ ہم نے اس آدمی سے ریسرچ کرائی تھی۔
حسین حقانی نے کہا کہ پہلی بات تو یہ کہ اگر جنرل باجوہ نے ہائر کرایا تھا آپ کے آدمی نے ہائر کیوں ہونے دیا؟دوسری بات یہ کہ اس سے حسین حقانی کہاں سے ہائر ہوگیا بھائی؟یہ تو جھوٹ بولتے ہیں نا جو شارٹ کٹ مارتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے حسین حقانی کو ہائر کیا اور حسین حقانی نے امریکہ کو میرے خلاف کردیا،دونوں باتیں غلط ہیں،نہ مجھے جنرل باجوہ نے ہائر کیا نہ کوئی ہائر کرسکتا ہے،میں ایک سکالر ہوں،بائیس تئیس سال سے اپنی ثقاہت میں نے منوائی ہے اپنی تحریروں کے زریعے،اپنی تحقیق کے زریعے،میں اپنی رائے دیتا ہوں اور میری رائے کو لوگ مانتے ہیں اس کی عزت کرتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے،میری ماں کی دعاوں کا نتیجہ ہے،اس میں کسی کے ہائر کرنے نہ کرنے کا دخل نہیں ہے۔

ایک سوال کے جواب میں حسین حقانی کا کہنا تھا کہ میرا یہ خیال ہے کہ ریاست کے جو بگڑے ہوئے تعلقات تھے،اس کے بہت سارے اسباب ہیں،پاکستان کی افغان پالیسی،طالبان کے معاملے میں امریکہ کا یہ خیال کہ پاکستان افغانستان میں طالبان کی حمایت کرتا ہے امریکہ کی نہیں کرتا، خود پاکستان کے فیٹف لسٹ میں آنا جس میں یہ بات شامل ہیں کہ پاکستان میں اتنے برسوں سے جو جہادی گروپ ہیں ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا،امریکہ نے بہت سارے معاملات کے اوپر پاکستان کو تنبیہ کی ہے اختلاف کیا ہے لیکن امریکہ کو ہمیشہ سے یہ امید تھی کہ پاکستان سے تعاون ہمارا اختلافات سے کہیں زیادہ ہے،ایک مرحلہ ایسا آیا کہ امریکنوں میں یہ احساس پیدا ہوگیا کہ ہمارے اختلافات اب ہمارے تعاون کی بنیاد سے کہیں زیادہ ہیں،اس میں بہت ساری باتیں ہیں،امریکہ کے بھارت سے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے اور امریکہ نے اسے اپنا اتحادی سمجھنا شروع کردیا،پاکستان اور چین کے درمیان تعلقات کے بارے میں امریکہ میں بدگمانیاں شروع ہوگئیں،امریکہ چین کو اپنا حریف سمجھتا ہے تو پاکستان اور امریکہ کا مشترکہ مفاد کیا رہ گیا؟اس سارے عرصے میں عمران خان جب اقتدار میں آئے تھے تو ان کا بیانیہ یہ تھا کہ میں معیشت ٹھیک کردوں گا،چوروں لٹیروں سے پیسے کھینچ کر لے آوں گا اس کے بعد ملک دوبارہ امیر اور خوشحال ہوجائے گا،جب اسٹبلشمنٹ کو یہ نظر آیا کہ یہ سب کچھ نہیں ہو رہا تو ان کو پھر یہ سمجھ میں آیا کہ ہمیں وہیں واپس جانا ہوگا جہاں سے ماضی میں ہم معاملات ٹھیک کرتے رہے ہیں،سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،امریکہ، چین،ان کے ساتھ مل جل کر معیشت کے معاملات کو ٹھیک کیا جائے،اس میں میرا خیال ہے کہ عمران خان کا مزاج آڑے آرہا تھا اور اسی لئے اسٹبلشمنٹ نے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لیا،اس پر میں نے تنقید کی کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ وزیر خارجہ کا کردار بھی فوج کا سربراہ ادا کرے لیکن ان کی سوچ یہ تھی کہ ہم کریں کیا،اگر مدد چاہئیے اور سعودی عرب اس لئے مدد نہیں کر رہا ہے کہ عمران خان کا مزاج نہیں ملتا سعودی عرب کے حکمران کے ساتھ،یا ان کو یہ لگا کہ انہوں نے ان کی بے عزتی کی ہے تو ہم ہی جاکر منا لیتے ہیں، پھر انہوں نے امارات کے ساتھ بھی یہی کیا،پھر ان کو خیال آیا کہ امریکہ کے ساتھ بھی یہی آزمایا جائے،اسی وجہ سے ایک نہیں ایک سے زیادہ لابسٹ امریکہ میں ہائر کئے گئے تھے لیکن میں ان لابسٹوں میں شامل نہیں ہوں کیونکہ میں لابسٹ ہوں نہیں۔

حسین حقانی نے کہا کہ کئی سال پہلے جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد صاحب امریکہ تشریف لائے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمارے عوام یہی سننا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں پتا ہے کہ کبھی ہمیں اقتدار مل گیا تو ہمیں بھی امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کر کے گزارا کرنا ہو گا،عمران خان کو بھی احساس شاید ابھی بھی ہے کہ امریکہ کے ساتھ حکومت میں ہوتے ہوئے اچھے تعلقات ضروری ہیں۔جنرل باجوہ سے ملاقات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میں کسی منصوبہ بندی کا حصہ بننے کیلئے کسی سے بھی نہیں ملا،کون مجھ سے ملتا ہے کون نہیں اس کی تفصیلات میں نہیں بیان کرسکتا لیکن دیار غیر میں ہوتے ہوئے کوئی اپنے ملک سے آتا ہے تو خوشی ہوتی ہے،اگر ان لوگوں نے جن کے اداروں نے مجھ پر ناجائز طور پر الزام تراشی کی،مجھے غدار،ملک دشمن اور کیا کیا کہا اور صرف بیانئے کی بنیاد پر میرے نقطہ نظر کی بنیاد پر،میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس پر میرے خلاف فوجداری مقدمہ بنا ہو کوئی غیرقانونی کام کرنے کی وجہ سے کسی عدالت نے سزا دی ہو،یہ سب کرنے کے بعد اگر وہ مجھے رابطہ کریں بھی تو میں تو اس کو اپنے لئے مثبت بات سمجھوں گا کیونکہ مجھ پر جو الزامات لگائے گئے تھے وہ جھوٹے تھے،غلط تھے اور میں ان کا مستحق نہیں تھا،آج میں یہ عمران خان کو بھی کہتا ہوں، کیونکہ انہوں نے ماشا اللہ بہت کردار ادا کیا ہے جھوٹے الزام لگانے میں، کہ وہ بھی اپنے جھوٹے الزامات سے تائب ہوجائیں،اعتراف کریں،جو ان سے سوال کر لے ان سے اختلاف کرلے ان کو لفافہ کہہ دیتے ہیں،جو کلچر انہوں نے بنایا ہے اس کی دنیا میں کوئی عزت نہیں کرتا،یہ ان کی غلط فہمی ہے کہ ان کی عزت کرتے ہیں اور یہ ایک بار پھر لابنگ کیلئے پیسے خرچ کر رہے ہیں امریکہ میں،ان کی لابنگ سے علاوہ اس کے کہ پاکستان میں اخباروں میں کچھ خبریں لگ جائیں اور ان کے اپنے یوٹیوب چینلز کیلئے کچھ ویڈیوز نکل جائیں کچھ نہیں نکلنا، امریکہ اور پاکستان کے درمیان کجی کافی پرانی ہے،یہ گڑ بڑ کئی سالوں میں ہوئی ہے اور اس کو ٹھیک ہونے والا کام بھی کئی سالوں میں ہوگا،پہلے تو ملک میں مفاہمت کی فضا پیدا کی جائے،ایک دوسرے کو غدار کہنا،ملک دشمن، کافر کہنا،لڑنا جھگڑنا،چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے،لٹیروں کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے،اگر سب پاکستانی ہیں تو سب کے ساتھ بیٹھنا ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں