سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل سماعت کے لئے مقرر،آٹھ رکنی بنچ میں کون کون سے ججز شامل ہیں؟جان کر حکمران اتحاد کی پریشانی بڑھ جائے

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر کر دیا ،سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آٹھ رکنی بینچ کل صبح ساڑھے 11 بجے کرے گا۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل کے خلاف آئینی درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا ہے،چیف جسٹس کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ کل ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔8رکنی بنچ میں جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس منیب اختر،جسٹس شاہد وحید،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس محمد علی مظہرت،جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس سید حسن اظہر رضوی شامل ہیں۔درخواستوں میں سپریم کورٹ رولز اینڈ پروسیجر بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔درخواست گزاروں کی جانب سے استدعا کی گئی ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار صرف عدالت عظمی کو ہی حاصل ہے،سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023ء کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت نظر ثانی کیلئے پارلیمنٹ کو واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے،بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی (colourable legislation) ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ، میرے خیال میں اس بل کی درستگی اور جانچ پڑتال کرنے کیلئے دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے جس لئے بل واپس کرنا مناسب ہے،آئین سپریم کورٹ کو اپیلی،ایڈوائزری،ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے،مجوزہ بل کے آرٹیکل 184 تین عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے،مجوزہ بل کا مقصد ابتدائی اختیار سماعت استعمال کرنے اور اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا ہے،یہ خیال قابل تعریف ہو سکتا ہے مگر کیا اس مقصد کو آئین کی دفعات میں ترمیم کے بغیر حاصل کیا جا سکتا ہے؟تسلیم شدہ قانون تو یہ ہے کہ آئینی دفعات میں ایک عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی،آئین ایک اعلیٰ قانون ہے ، آئین کوئی عام قانون نہیں بلکہ بنیادی اصولوں،اعلیٰ قانون اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے،آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کاروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے،آئین کی ان دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980 بنائے گئے جن کی توثیق خود آئین نے کی،سپریم کورٹ رولز 1980ء پر سال 1980ء سے عمل درآمد کیا جارہا ہے،جانچ شدہ قواعد میں چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی ،خود مختاری اور آزادی میں مداخلت کے مترادف ہو سکتی ہے۔آرٹیکل 67 کے تحت پارلیمان کو آئین کے تابع رہتے ہوئے اپنے طریقہ کار اور کاروبار کو منظم کرنے کیلئے قواعد بنانے کا اختیار حاصل ہے،آرٹیکل 191 کے تحت آئین اور قانون کے تابع رہتے ہوئے سپریم کورٹ اپنی کارروائی اور طریقہ کار کو ریگولیٹ کرنے کے قواعد بنا سکتی ہے،آرٹیکل 67 اور 191 قواعد بنانے میں دونوں کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہیں۔آرٹیکل 70 وفاقی قانون سازی کی فہرست میں شامل کسی بھی معاملے پر بل پیش کرنے اور منظوری سے متعلق ہے،آرٹیکل 142اے کے تحت پارلیمنٹ وفاقی قانون سازی کی فہرست میں کسی بھی معاملے پر قانون بنا سکتی ہے،فورتھ شیڈول کے تحت پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے علاوہ تمام عدالتوں کے دائرہ اختیار اور اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے،فورتھ شیڈول کے تحت سپریم کورٹ کو خاص طور پر پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار سے خارج کیا گیا ہے،بل بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ، بل کے ان پہلووں پر مناسب غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں