اسلام آباد(وقائع نگار)سپریم کورٹ نے انتخابات ایک ساتھ کرانے سے متعلق کیس کی آج کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کر دیا، 5 صفحات پر مشتمل حکمنامہ چیف جسٹس پاکستان نے تحریر کیا۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق سپریم کورٹ نے اپنے تحریری حکمنامے میں کہا ہے کہ تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما عدالت میں پیش ہوئے،تمام سیاسی جماعتوں نے باہمی مذاکرات پر اتفاق کیا،سیاسی مسائل کا حل سیاست دانوں کو نکالنا چاہئے۔ عدالتی حکمنامے میں مزید کہاگیاہے کہ اٹارنی جنرل اور فاروق نائیک نے حکومتی اتحادی جماعتوں کی مشاورت بارے چیمبر میں آگاہ کیا،تحریک انصاف کی سینئر قیادت سے پی ڈی ایم کے رابطوں بارے بتایا گیا،حکومتی وکلا کے مطابق کئی اہم سیاسی رہنما عید کے باعث شہر سے باہر ہیں۔تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیاہے کہ 26 اپریل کو حکومتی اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کی میٹنگ سے بھی آگاہ کیا گیا،26 اپریل کی میٹنگ کے نتائج سے متعلق عدالت کو 27 اپریل کو آگاہ کیا جائے،کیس کی مزید سماعت 27 اپریل تک ملتوی کی جاتی ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں ملک بھر میں بیک وقت عام انتخابات سے متعلق درخواست کی سماعت دوسرے روز بھی جاری رہی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سماعت کی ۔ اب تک کی سماعت میں ملک کی سیاسی جماعتوں کے نمائندوں نے عدالت میں پیش ہوکر اپنا موقف پیش کیا جبکہ اٹارنی جنرل عثمان انور، درخواست گزار کے وکیل شاہ خاور اور سیاسی جماعتوں کے وکلا بھی پیش ہوئے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا کہ پنجاب میں انتخابات کی تاریخ 14 مئی ہے، عدالتی فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، عدالتی فیصلہ واپس لینا مذاق نہیں ہے، عدالت اپنا 14 مئی کا فیصلہ واپس نہیں لے گی، عدالتی فیصلے ہٹانے کا طریقہ کار ہے وہ 30 دن بھی گزر گئے۔ کسی نے عدالتی فیصلہ چیلنج نہیں کیا،آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا اور اور یقین ہے کوئی رکن اسمبلی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک تجویز ہے کہ عدالت کارروائی آج ختم کر دے، تمام سیاسی قائدین نے آج آئین کی پاسداری کا اعادہ کیا ، آئین پر نہیں چلیں گے تو کئی موڑ آجائیں گے،آئین کے آرٹیکل 254 کی تشریح کبھی نہیں کی گئی،آرٹیکل 254 کے تحت تاریخ نہ بڑھائی جائے اس لیے اسکی تشریح نہیں کی گئی۔ 1970 اور 1971 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کیا جس پر عدالت نے حکم جاری کیا، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے کوشش کی ہے، بعد میں پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، اسمبلی میں ان کیمرہ بریفنگ دی گئی لیکن عدالت فیصلہ دے چکی تھی، حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے، مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہو سکتی، دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں،بلاول بھٹو نے اچھی کوشش کی ہے لیکن گزارش ہو گی پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج بیٹھیں۔ جولائی میں بڑی عید ہوگی اس کے بعد الیکشن ہو سکتے ہیں اور عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
