تحریر:امجد عثمانی
خبر ہے کہ ن لیگ نے عمران خان کی گرفتاری پر مٹھائی بانٹی۔۔۔۔۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ کوئی تاریخ سے عبرت نہیں پکڑتا۔۔۔۔۔۔۔!!!!
رہے نام اللہ کا۔۔۔۔۔۔گردش ایام کب ٹھہری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وقت کا پہیہ اپنے مقررہ” مدار” میں گھوم رہا ہے۔۔۔۔اور “طلوع و غروب”کے بطن سے عروج و زوال کی بے شمار چشم کشا”عبرت آموز داستانیں” جنم لے رہی ہیں۔۔۔”اور ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو بدلتے رہتے ہیں”۔۔۔۔قرآن مجید کی سورہ آل عمران کی آیت نمبر ایک سو چالیس کے یہ الفاظ “عالم گیر” سچائی”اور لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔۔۔۔۔۔۔قانون قدرت یہی ہے کہ یہاں رب کے سوا کسی کو دوام ہے نہ کوئی ناگزیر۔۔۔۔۔۔دنیا جائے عبرت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش کوئی عبرت پکڑے اس سے پہلے کہ نشان عبرت بنے۔۔۔۔۔۔۔شہر اقتدار میں عالمی نشریاتی ادارے بی بی سی کے نامہ نگار جناب شہزاد ملک نے سابق وزیر اعظم عمران خان کیخلاف القادر ٹرسٹ کرپشن کیس کی سماعت کا آنکھوں دیکھا مگر “عبرتناک حال”بیان کیا ہے۔۔۔۔۔وہ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ مقدمے کی سماعت اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی اور یہ وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ایون فیلڈ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔۔۔۔۔۔اس کو حسن اتفاق کہیے کہ اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جج بھی وہی، وکیل بھی وہی رہے لیکن اس مرتبہ صرف” ملزم” تبدیل ہوا۔۔۔۔جج محمد بشیر، نیب کے ڈپٹی پراسیکوٹر مظفر عباسی اور خواجہ حارث بھی وہی لیکن اس مرتبہ ملزم نواز شریف نہیں بلکہ عمران خان ٹھہرے۔۔۔۔۔خواجہ حارث پہلے نواز شریف اور اب عمران خان کی طرف سے عدالت میں پیش ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں دسمبر دو ہزار اٹھارہ میں نواز شریف کو العزیزیہ سٹیل ملز کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس وقت کی حکومت نے نیب اور بالخصوص ڈپٹی پراسیکوٹر جنرل سرار مظفر عباسی کی کارکردگی کو سراہا تھا اور آج وہی افسر کرپشن کے کیس میں عمران خان کے خلاف پیش ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی مدت ملازمت میں بھی تین مرتبہ توسیع کی گئی۔۔۔۔۔۔
عمران خان کے وکیل شیرعالم خان نے دعویٰ کیا کہ حراست کے دوران اگرچہ عمران خان کو جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا تاہم ان کو ذہنی ٹارچر دیا گیا۔۔۔۔۔
شیر عالم خان کے بقول عمران خان نے کمرہ عدالت میں انہیں بتایا کہ ان کو رات سونے نہیں دیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ساری رات سڑکوں پر گھماتے رہے اور صبح چار بجے کے قریب ایک گندے سے کمرے میں بند کر دیا گیا اور زمین پر بچھانے کے لیے کوئی چادر بھی نہیں دی۔۔۔۔۔۔۔۔شیر عالم خان نے کہا کہ عمران خان نے انہیں یہ بھی بتایا کہ انہوں نے گذشتہ چوبیس گھنٹے سے باتھ روم استعمال نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حسن اتفاق دیکھیے کہ اکتوبر دو ہزار چودہ میں نواز شریف کیخلاف کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے تھے کہ قبرستان ایسے لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتے تھے۔۔۔۔۔
عوامی شاعر جناب حبیب جالب
اقتدار کے نشے میں “مدہوش”ہر زمانے کے حکمرانوں کو”یہی بات” سمجھا گئے۔۔۔۔۔۔۔کاش کوئی “عبرت” پکڑے اس سے پہلے کہ نشان عبرت بنے ۔۔۔۔۔۔
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتاؤ
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
آج سوئے ہیں تہ خاک نہ جانے یہاں کتنے
کوئی شعلہ کوئی شبنم کوئی مہتاب جبیں تھا
اب وہ پھرتے ہیں اسی شہر میں تنہا لیے دل کو
اک زمانے میں مزاج ان کا سر عرش بریں تھا
جناب بہادر شاہ ظفر نے بھی دیار غیر میں قید تنہائی کے دوران” یہی نوحہ” کہا تھا کہ انگریز کی درندگی پر ان کا نوحہ بنتا تھا۔۔۔۔۔۔
لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
ان حسرتوں سے کہہ دو کہیں اور جا بسیں
اتنی جگہ کہاں ہے دل داغدار میں
بلبل کو باغباں سے نہ صیاد سے گلہ
قسمت میں قید لکھی تھی فصل بہار میں
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
یہ ہندوستان کے اس آخری مغل بادشاہ کے عبرتناک اشعار ہیں جس کے پرکھوں نے آج کے انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے وسیع علاقوں پر صدیوں تک شان و شوکت سے راج کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش کوئی عبرت پکڑے اس سے پہلے کہ نشان عبرت بنے۔۔۔۔۔۔!!!!