اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں شاہ محمود قریشی کی نظر بندی کے خلاف درخواست پر گزشتہ روز سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے 3 ایم پی او کے تحت شاہ محمود قریشی کی گرفتاری کالعدم قرار دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو بیان حلفی جمع کروانے کا حکم دے دیا۔دورانِ سماعت جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سٹیٹ کونسل سے سوال کیا کہ شاہ محمود قریشی پر کوئی مقدمہ ہے؟ چیک کریں شاید کوئی مقدمہ ہو گیا ہوگا۔ جس پر اسٹیٹ کونسل نے جواب دیا کہ مجھے معلوم کرنا ہوگا کہ شاہ محمود قریشی پر کوئی مقدمہ ہے یا نہیں۔جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ شاہ محمود قریشی وزیر خارجہ رہے ہیں۔ چیک کریں 1993 سے 1998 تک شاہ محمود قریشی کیا رہے ہیں؟اس موقع پر وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملیکہ بخاری کو اس عدالت نے رہا کیا اور پھر اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کر لیا گیا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ میں آٹ آف دی باکس نہیں جاو¾ گا۔بعد ازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے شاہ محمود قریشی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کی طرف سے احکامات جاری کی گئے۔ دوسری طرف اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کی اہلیہ کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ خاتون کو بیان حلفی جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما شہریار آفریدی کی اہلیہ کی گرفتاری کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے پوچھا کہ آئی جی صاحب آپ کی حدود میں کیا ہورہا ہے قانون سے واقف ہیں یا نہیں؟۔ آئی جی اسلام آباد نے جوا دیا کہ ہماری اطلاع کے مطابق یہ خاتون اور ان کا شوہر جی ایچ کیو حملے کی منصوبہ بندی میں شامل تھے۔جسٹس ارباب محمد طاہر نے کہا کہ کون سی سورس انفارمیشن ہے آپ کے پاس دکھائیں؟، ڈی سی صاحب کو فوری بلائیں، 5 منٹ میں پیش نہ ہوئے تو مسئلہ ہوگا، جو کچھ آپ دکھا رہے ہیں اس میں تو خاتون کیخلاف کچھ نہیں ہے۔جسٹس ارباب کا کہنا تھا کہ ایک چیز یاد رکھیں ہماری عدالت سے رہائی کے بعد کسی کو گرفتار کیا گیا تو بہت مسئلہ ہوگا، کیا سورس انفارمیشن کی بنیاد پر سولہ ایم پی او لگایا جا سکتا ہے؟، ہماری عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی تو سخت نتائج ہوں گے، آپ قانونی کارروائی کریں لیکن یہ کیا کہ آپ نے گھریلو خاتون کو ہی گرفتار کرلیا۔
