درآمد ات پر عائد پابندی ختم، حکومت کا بھاری ڈیوٹی لگانے کا اعلان

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کے معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے لگژری اور غیرضروری اشیا کی درآمدات پر عائد پابندی ہٹانے اور درآمد شدہ اشیا پر 400 سے 600 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کردی ہیں، مشکل وقت میں چین نے بھی ہماری مدد کی جوقابل ستائش ہے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ہم نے غیرضروری اشیا کی درآمدات پر پابندی لگا دی تھی اور اب اس کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، آئی ایم ایف بھی یہ چاہتا تھا کہ یہ پابندی ہٹائی جائے لیکن ہم نے اس میں تاخیر کی ہوئی ہے کیونکہ وزیر اعظم شہباز شریف نہیں چاہتے کہ ہم لگژری آئٹمز کو پاکستان میں آنے کی اجازت دیں جو بالکل درست ہے،جب ہمارے پاس محدود ڈالر ہوتے ہیں تو ہمارے لیے انتخاب کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ ہم اس پیسے گاڑی منگوائیں یا آٹا منگوائیں، موبائل فون منگوائیں یا دالیں منگوائیں، اس لیے ہم نے ان اشیا پر پابندی لگائی تھی لیکن اب چونکہ یہ عالمی سطح پر شرط عائد کی گئی ہے کہ یہ پابندی نہیں ہونی چاہیے تو ہم یہ پابندی ہٹا رہے ہیں لیکن ہم اس پر بھاری ٹیکس عائد کر کے 400 سے 600 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگا دیں گے،ہم گندم، کاٹن اوردیگراناج امپورٹ کرتے ہیں، امپورٹ ہمارے کنٹرول میں ہے، درآمدی اشیا سے پابندی ہٹا رہے ہیں،ہم بڑی بڑی مرسڈیز گاڑیوں پر بھاری ڈیوٹی عائد کریں گے کیونکہ اس وقت میرے پاس وہ ڈالر نہیں ہیں کہ میں مرسڈیز میں خرچ کروں، مجھے اپنے وسائل میں رہ کر خرچ کرنا ہے، میرے محدود وسائل ہیں، اس سے میں آئی فون یا گاڑیاں خریدنے کے بجائے پہلے آٹا، گندم، کپاس اور خوردنی تیل خریدنے کو ترجیح دیتا ہوں، ہم اس طرح کا سیلز ٹیکس، ٹیکس، ڈیوٹی عائد کریں گے تاکہ اس کی زیادہ درآمد نہ ہو سکے، مکمل طور پر تیار گاڑیاں، مشینری، موبائل فون، الیکٹرانک اشیا، امپورٹیڈ گوشت، مہنگی مچھلی سمیت تمام لگژری اشیا پر ڈیوٹی عائد کی جائے گی تاکہ زیادہ امپورٹ نہ ہو سکے تاہم اگر کوئی چھ کروڑ کی گاڑی 30 سے 40 کروڑ روپے میں لانا چاہتا ہے تو وہ لے آئے، ہمارا مقصد لگژری آئٹمز کو کھولنا نہیں بلکہ آئی ایم ایف اور بین الاقوامی معاہدوں کی پاسداری کرنا ہے، بین الاقوامی تقاضے پورے کرنے کیلیے امپورٹ سے پابندی ہٹانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمت کے حوالے سے بھی معاہدے کی پاسداری کر لی ہے، جو سبسڈی دیں گے وہ فنڈ کررہے ہیں، نان فنڈڈ سبسڈی نہیں دیں گے تو بجٹ خسارے کے ہدف پر کھڑے رہیں گے، ہم نے جو ریٹیل پر ٹیکس لگایا تھا تو ہمارا تخمینہ تھا کہ ہم اس پر 42ارب روپے ٹیکس حاصل کر سکیں گے لیکن وہ ٹیکس لگانے میں ہم سے غلطی ہو گئی تھی کیونکہ جن دکانوں کا ہزار سے دو ہزار کا بل آتا تھا ہم نے اس پر بھی ٹیکس لگا دیا تھا تو اس کو ہم کو واپس لینا پڑے، اب ہم 42 ارب نہیں لے سکیں گے اور ہمارا نظرثانی شدہ ہدف 27ارب روپے ہے، ہم ایک آرڈینسس لے کر آئیں گے جس کے ذریعے ریٹیل پر فکس ٹیکس ہٹا دیا جائے گا، ابھی پانچ فیصد سیلز ٹیکس اور ساڑھے سات فیصد انکم ٹیکس اگلے تین ماہ تک ہر دکاندار کے لیے برقرار رہے گا جس کے بعد یہ صرف ایک سے 50 یونٹ بجلی والوں پر لاگو ہو گا اور اس سے زائد یونٹ والوں کے لیے یہ بتدریج بڑھتا رہے گا، اگر کوئی ہزار یونٹ بجلی خرچ کرے گا تو اس کا سیلز ٹیکس ساڑھے 12فیصد ہو جائے گا، اس کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولی میں 15 ارب کے اس خلا کو پر کرنے کے لیے میں نے وزیراعظم کو اک فیصد ٹیکس تمباکو کی اشیا پر عائد کرنے کی تجویز دی تھی لیکن وزیراعظم نے اسے دگنا کرنے کی ہدایت کی ہے تو تمباکو اور سگریٹ پر نیا ٹیکس لگایا جا رہا ہے جس کی بدولت ہم 36ارب روپے مزید ٹیکس اکٹھا کر سکیں گے، پچھلے سال کے مقابلے میں برآمدات 7 سے 8 فیصد زیادہ ہیں جبکہ درآمدات 18 سے 19 فیصد کم ہیں جبکہ تجارتی خسارہ بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں 30 فیصد کم ہے جبکہ بینکنگ کے سیکٹر میں ساڑھے 600ملین ڈالر زیادہ وصول ہوئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے امید ظاہر کی کہ ڈالر کی قدر میں کمی کا سلسلہ جاری رہے گا اور اپنے وسائل میں رہ کر خرچ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے رہیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں