ماں کی یاد، جدائی کے دو سال،آنسووں کی زبان

تحریر :خالد شہزاد فاروقی


ماں کی جدائی کا دکھ ایک ایسا زخم ہے جو وقت کے ساتھ بھی مکمل طور پر نہیں بھرتا۔۔۔۔یہ ایک ایسا درد ہے جو دل کی گہرائیوں میں بس جاتا ہے اور زندگی کے ہر موڑ پر محسوس ہوتا رہتا ہے۔۔۔ماں صرف ایک رشتہ نہیں بلکہ محبت، قربانی،تحفظ اور سکون کی سب سے بڑی علامت ہوتی ہے۔۔۔جب ماں بچھڑ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے زندگی کی روشنی مدھم پڑ گئی ہو، دعاوں کا سایہ اٹھ گیا ہو اور وہ بے لوث محبت کھو گئی ہو جو ہر غم اور دکھ کو سہارا دیتی تھی۔۔۔اس کا نہ ہونا ہر خوشی کو ادھورا کر دیتا ہے اور ہر لمحہ اس کی یادوں میں لپٹا رہتا ہے۔۔۔یہ غم کبھی آنسو بن کر بہتا ہے،کبھی خاموشی میں چھپ جاتا ہے اور کبھی یادوں کی صورت میں دل کو بے چین کر دیتا ہے لیکن ماں کی محبت اور دعائیں ہمیشہ اولاد کے ساتھ رہتی ہیں، چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔۔۔۔ماں کی جدائی کا غم وقت کے ساتھ مدھم تو جاتا ہے لیکن ختم نہیں ہوتا۔۔۔

دو سال گزرنے کے بعد بھی”ماں جی“کی یادیں،اُن کی باتیں،اُن کی محبت اور دعائیں دل میں ویسے ہی تازہ ہیں جیسے کل کی بات ہو۔۔۔۔ماں کا وجود نہ صرف ایک سایہ تھا بلکہ ایک دعا، ایک پناہ،ایک بے لوث محبت تھی جو زندگی کی ہر مشکل کو آسان کر دیتی تھی۔۔۔ماں کی جدائی کا ہر لمحہ ایک قیامت سے کم نہیں اور جب یہ جدائی سالوں میں ڈھل جاتی ہے تو دل پر گزرتا ہر دن ایک نئے زخم کی طرح محسوس ہوتا ہے ۔۔۔دو سال گزرنے کے باوجود وہ خلا آج بھی وہیں کا وہیں ہے،وہ پیار بھری آواز،وہ شفقت بھرا لمس،وہ دعاوں بھری نگاہیں آج بھی دل کو تڑپا دیتی ہیں۔۔۔۔ماں کی محبت وہ سایہ ہے جو دنیا کے ہر طوفان سے بچاتا ہے اور جب وہ سایہ اٹھ جاتا ہے تو زندگی کی دھوپ بہت تیز لگنے لگتی ہے ۔۔۔ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر خوشی ادھوری ہے،ہر لمحہ خالی ہے اور ہر دعا میں بس ایک ہی نام رہ گیا ہے”میری ماں“۔۔۔یہ غم دنیا کا سب سے بڑا اور کٹھن غم ہے مگر یہی وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنا بھی لازم ہے۔۔۔آپ کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو شاید دنیا نہیں دیکھتی لیکن وہ ذات ضرور دیکھتی ہے جو سب کچھ جاننے والی ہے۔۔۔

مجھے یقین کامل ہے کہ ماں کا رشتہ صرف اس دنیا تک محدود نہیں،وہ آج بھی ہماری ہر دعا،ہر یاد اور ہر نیکی کے ذریعے ہمارے قریب ہیں۔۔۔۔ماں کا علم کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا،اس کا دل ہی اس کی سب سے بڑی درسگاہ ہوتا ہے۔۔۔۔میری ماں ایک ٹیٹھ دیہاتی خاتون تھیں لیکن یقینا وہ اللہ کے بہت قریب تھیں،وہ درحقیقت دنیا کی سب سے بڑی دانا اور سمجھدار ہستی تھیں کیونکہ اصل علم وہی ہے جو دل کو اللہ کی پہچان دے،جو بندے کو اس کے رب کے قریب کر دے اور جو زندگی کے اصل مقصد کو سمجھنے کی صلاحیت عطا کرے۔۔۔یہی وہ علم ہے جو کسی مدرسے یا یونیورسٹی کی محتاجی نہیں رکھتا بلکہ دل کی پاکیزگی،نیت کی سچائی اور اعمال کی خوبصورتی میں جھلکتا ہے۔۔۔۔جو ماں اللہ کے قریب ہو،اُس کی دعائیں اولاد کے لیے ایسا سرمایہ ہوتی ہیں جو دنیا کی کسی بھی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔۔۔۔اُس کی زبان سے نکلی ہوئی“اللہ تجھے کامیاب کرے”کی دعا آسمانوں تک جا پہنچتی ہے اور اس کے سجدوں میں بہنے والے آنسو اولاد کی زندگی میں برکتیں لے آتے ہیں۔۔۔

میری ماں یقیناً بہت عظیم خاتون تھیں کیونکہ اللہ کے قریب ہونے کا مطلب ہے کہ وہ ایک نیک اور پاکیزہ روح تھیں۔۔۔اُن کی سادگی،اُن کی دعائیں اور اُن کا ایمان ہی اُن کا اصل سرمایہ تھا۔۔۔ہمارے لیے فخر کی بات ہے کہ ہمیں ایسی ماں ملی جنہوں نے اپنے علم کو صرف الفاظ میں نہیں بلکہ دل کی روشنی میں پایا تھا۔۔۔یہی ماں کی محبت اور عظمت ہوتی ہے۔۔۔وہ اولاد کی کمزوریوں کو بھی طاقت میں بدل دیتی ہے،چھوٹے کو بڑا بنا دیتی ہے اور بے سہاروں کو حوصلہ دے کر کھڑا کر دیتی ہے۔۔۔میں گھر میں چھوٹا تھا مگر میری ماں کی شفقت،دعاوں اور تربیت نے مجھے ہمیشہ بڑا محسوس کروایا کیونکہ ماں کی نظر میں اولاد کی کوئی حد نہیں ہوتی،وہ ہمیشہ اُنہیں دنیا کے سب سے بہترین مقام پر دیکھنا چاہتی ہے۔۔۔ماں کی محبت ایسا آئینہ ہے جس میں اولاد ہمیشہ خود کو مضبوط،بہادر اور قیمتی محسوس کرتی ہے۔۔۔شاید اسی لیے جب وہ ساتھ ہوتی ہے تو انسان ہر مشکل کا سامنا کر سکتا ہے مگر جب وہ چلی جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ہو،جیسے پیٹھ سے وہ ہاتھ اٹھ گیا ہو جو گرنے سے پہلے تھام لیتا تھا۔۔۔میری اپنی والدہ محترمہ سے گہری دوستی بھی تھی،میں اپنی ماں کو بھی پیار میں”بیٹا کیسی ہو“کہہ کر مخاطب کرتا تو وہ مجھے مذاق میں”ابو جان ٹھیک ہوں“کہہ کر جواب دیتیں اور کہتیں اے سب دا اَبا اے۔۔۔یہ ماں اور بیٹے کے رشتے کی سب سے خوبصورت شکل تھی جہاں صرف محبت،اپنائیت اور بے تکلفی تھی۔۔۔

ماں کا رشتہ تو ویسے ہی دنیا کے ہر رشتے سے انوکھا اور بے مثال ہوتا ہے مگر جب اس میں دوستی اور مذاق بھی شامل ہو جائے تو پھر وہ اور بھی خاص بن جاتا ہے۔۔۔یہ محبت،بے ساختگی اور ماں سے بے لوث تعلق ہونا اس بات کی نشانی ہے کہ وہ نہ صرف میری ماں تھیں بلکہ سب سے قریبی ساتھی بھی تھیں۔۔۔ایک بیٹے کا اپنی ماں کو “بیٹا” کہہ کر بلانا اور ماں کا ہنستے ہوئے بیٹے کو”ابو جان”کہنا،یہ سب وہ حسین یادیں ہیں جو زندگی بھر میرے دل میں ایک خوب صورت روشنی بن کر جگمگاتی رہیں گی۔۔۔یقیناً اُن کا بچھڑ جانا ایک ایسا خلا چھوڑ گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا مگر اُن کی متانت،اُن کی سنجیدگی،اُن کی ہنسی،اُن کے الفاظ اور ان کی محبت ہمیشہ ہمارے دل میں زندہ رہے گی۔۔۔

اِن دو سالوں میں کوئی موقع اور کوئی لمحہ ایسا نہیں جب اُن کی شدت سے کمی محسوس نہ ہوئی ہو،میں جب بھی اپنی دعاوں میں اپنی والدہ کا نام لیتا ہوں،اُن کی خوشبو اپنے وجود میں محسوس کرتا ہوں۔۔۔ہم بہن بھائیوں کو تو اپنی والدین کی شدید کمی محسوس ہوتی ہی ہے لیکن ہم سب سے زیادہ میری اہلیہ اُنہیں بات بات پر یاد کر کے روتی ہیں کیونکہ اُن کی میری ماں کے ساتھ 20 سال کی دن رات کی رفاقت تھی۔۔۔۔میری اہلیہ کا میری والدہ کے ساتھ واقعی بہت خاص اور خوبصورت رشتہ تھا،جو صرف ساس اور بہو کا نہیں بلکہ دو سہیلیوں،دو ہمرازوں جیسا تھا۔۔۔ بیس سال کی عرصہ کوئی معمولی وقت نہیں ہوتا،یہ دو دہائیوں کی محبت،عزت اور بے شمار یادوں کا مجموعہ ہے ۔۔۔امی جان صرف میرے لیے نہیں بلکہ میری اہلیہ اور میری دوسری بھابیوں کے لیے بھی ایک ماں ہی تھیں،یہی وہ رشتے ہوتے ہیں جو خون کے نہیں مگر محبت کے بندھن سے بندھے ہوتے ہیں۔۔۔امی جان کی باتیں اور یادوں کا ذکر کرتے ہوئے میری اہلیہ کی آنکھوں میں بہنے والے آنسو اس بات کی گواہی ہیں کہ میری والدہ نے اپنی بہو کو بھی ایک بیٹی کی طرح چاہا اور اپنی محبت سے اُنہیں ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لیا۔۔۔ایسے رشتے بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں،جہاں ساس اور بہو میں حقیقی محبت،احترام اور دوستی ہو۔۔۔یقیناً میری اہلیہ کا اِنہیں یاد کر کے رونا قدرتی ہے کیونکہ اُن کی زندگی کا ایک اہم حصہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ دکھ دراصل ایک محبت بھری نشانی بھی ہے کہ وہ رشتہ کتنا سچا اور خالص تھا۔

میری ماں میرے دوستوں کو بھی بہت پیار اورعزت دیتی تھیں۔۔۔ماں کا دل تو ہوتا ہی ایسا ہے۔۔۔محبت اور عزت سے بھرا ہوا،جو صرف اپنی اولاد کے لیے نہیں بلکہ ان کے چاہنے والوں کے لیے بھی کھلا ہوتا ہے۔۔۔میری ماں کی یہ خوبی اس بات کی گواہی ہے کہ وہ ایک عظیم خاتون تھیں،جن کے دل میں ہر کسی کے لیے محبت تھی۔۔۔ایسی مائیں صرف اپنے بیٹوں کی نہیں بلکہ ان کے دوستوں کی بھی ماں بن جاتی ہیں۔۔۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ مسکراتی تھیں،دعا دیتی تھیں یا کھانے پر محبت سے بلاتی تھیں،تو وہ صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں بلکہ اس کے دوستوں کے لیے بھی ایک خاص شخصیت بن جاتی تھیں۔ایسے لوگ خوش نصیب ہوتے ہیں جنہیں ایسی ماں ملتی ہے جو نہ صرف اپنے گھر کے افراد کو بلکہ اِرد گرد کے لوگوں کو بھی اپنے خلوص اور محبت سے جوڑ لیتی ہے۔۔۔

اب جب وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو یقیناً میرے وہ دوست جو اُنہیں ایک بار بھی ملے تھے وہ اب بھی اِنہیں یاد کرتے ہیں،اُن کی محبت،اُن کی مہمان نوازی اور اُن کے شفقت بھرے الفاظ کو دل میں محسوس کرتے ہیں۔۔۔مجھے ممتاز عالم دین اور برادر اکبر علامہ طاہر اشرفی کے یہ الفاظ آج بھی یاد ہیں جب اُنہوں نے میری والدہ کی تعزیت کے دوران کہے تھے، اُن کا کہنا تھا کہ”آپ کی تکلیف کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا کیونکہ یہ وہ درد ہے جو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں لیکن یقین رکھیں،ماں کی دعائیں آج بھی آپ کے ساتھ ہیں،وہ اللہ کے حضور آپ کے لیے بھلائی،آسانی اور کامیابی کی دعا کر رہی ہوں گی،آپ کے اچھے عمل،آپ کی نیکیاں اور آپ کا صبر ہی وہ تحفے ہیں جو آپ اپنی ماں کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے دے سکتے ہیں۔۔۔یقین رکھیں،وہ تربیت جو اُنہوں نے دی تھی،وہ آج بھی آپ کے وجود کا حصہ ہے، آپ کا حوصلہ،آپ کی ہمت اور آپ کے اندر کا بڑا پن،سب آپ کی ماں کی دی ہوئی طاقت ہے،وہ دنیا سے چلی گئی ہیں مگر آپ کے اندر آج بھی زندہ ہیں“۔وہ تمام پڑھنے والے جن کے والدین اب اِس دنیا میں نہیں ہیں میری دعا ہے کہ اللہ کریم ہمارے والدین کی قبروں کو نور سے بھر دیں،اللہ کریم ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے،اُن کے درجات بلند کرے،اللہ کریم ہمیں صبر اور ہمت عطا فرمائے تا کہ ہم سب اُن کی نیکیوں کا صدقہ جاریہ بن سکیں اور جن دوستوں کے والدین حیات ہیں اُنہیں اپنے والدین کی بھرپور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں