(پہلا حصہ)
تحریر:خالد شہزاد فاروقی
اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان نے پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر کے نام یکے بعد دیگرے تین”کھلے خط “لکھے ہیں۔۔۔ان خطوط پر حکمران جماعت کے وزراء جہاں طنز کے تیر برسا رہے ہیں وہیں پر آرمی چیف کا بیان بھی سامنے آیا ہے جس میں اُن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ”اِنہیں عمران خان کا کوئی خط نہیں ملا اور اگر کوئی خط ملا بھی تو بغیر پڑھے وزیر اعظم کو بجھوا دوں گا،پاکستان آگے بڑھ رہا ہے،پاکستان میں ترقی ہو رہی ہے اور پاکستان کو مزید آگے بڑھنا ہے“۔۔۔معروف صحافی اور اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کا کہنا ہے کہ ترک صدر کو دیئے جانے والے ظہرانے پر جب عمران خان کے”کھلے خطوط “کی بابت آرمی چیف سے سوال کیا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ”جو خطوط آ رہے ہیں،وہ مجھے تو نہیں مل رہے،وہ خط اگر ملے بھی تو میں ان کو پڑھوں گا نہیں،یہ خط میڈیا آپٹکس ہیں،ان کا کوئی مقصد نہیں ہوتا،یہ صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں،اگر کوئی خط لکھے گئے ہیں تو میں ان خطوط کو نہیں پڑھتا“۔۔۔دوسری طرف حکومتی وزراء عمران خان کے ان خطوط کو”منت ترلہ کی آخری حد قرار دے رہے ہیں جبکہ سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ”عمران خان کا نام نہاد خط ان کی پرانی افسوسناک سوچ کی ترجمانی کرتا ہے،ان خطوط کا کوئی جواب آنا تو دور کی بات ہے،رسید تک بھی نہیں آئے گی،عمران خان جنہیں خط لکھ رہے ہیں،وہ پڑھنا ہی نہیں چاہ رہے،یہ خط ابھی تک نہ کسی نے دیکھا نہ پڑھا،پتا نہیں کس کبوتر کی چونچ میں ہے اور وہ کب کس منڈیر پر اترے گا“۔۔۔وزیر اعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ”عمران خان خط نہیں بھیجتے بلکہ یہ ایک پروپیگنڈا ٹول ہے جس سے وہ فوج کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،ایسی حرکتوں سے عمران خان عوام اور فوج میں دوریاں پیدا نہیں کر سکیں گے اور ان کے لیے بھی اس چیز کے اچھے اثرات نہیں ہوں گے،عمران خان کا آرمی چیف کو خط قومی سطح کا جرم ہے“۔۔۔ن لیگی سینیٹر طلال چوہدری نے کہا کہ عمران خان کے آرمی چیف کو لکھے گئے خطوط بدنیتی پر مبنی ہیں،خطوط کا مقصد یہ تاثر پیدا کرنا ہے ان کی سزاوں کی وجہ اسٹیبلشمنٹ ہے،خط پبلک پہلے ہوتا ہے اور جسے لکھا جاتا ہے اسے پہنچتا بھی نہیں ہے،اگر کسی کو پیغام پہنچانا ہو تو ایسی باتیں پبلک نہیں ہوتی،عمران خان کی سزاوں کی وجہ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ ان کے اپنے کرتوت اور اعمال ہیں،کسی نے نہیں کہا تھا کہ 190 ملین آپ چوری کر لیں،بتائیں کیا 9 مئی اور 26 نومبر کو آپ کو کسی نے دعوت دی تھی؟۔۔۔عمران خان کے تینوں خطوط کو پڑھا جائے اور حکومتی وزراء کے ردعمل کو دیکھا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا واقعی یہ ان سکہ بند،پرانے اور گھاگ سیاست دانوں کے بیانات ہیں۔۔۔سب کو پتا ہے کہ”کھلا خط “ایک ایسی دستاویز ہوتی ہے جو مخصوص فرد یا ادارے کے نام لکھا جاتا ہے لیکن اسے عوام کے لیے بھی شائع کر دیا جاتا ہے۔۔۔اس کا مقصد عام طور پر کسی اہم مسئلے پر توجہ دلانا،اپنی رائے یا احتجاج کا اظہار کرنا یا کسی پالیسی یا رویے پر تنقید کرنا ہوتا ہے۔یہ اخبارات،سوشل میڈیا یا دیگر عوامی پلیٹ فارمز پر شائع کیا جا سکتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے پیغام سے آگاہ ہو سکیں۔۔۔۔اس کا اصل مقصد عوامی آگاہی اور دباو پیدا کرنا ہوتا ہے۔۔۔اکثر اخبارات،ویب سائٹس یا سوشل میڈیا پر اسے شائع کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اسے پڑھ سکیں۔۔۔کھلا خط رسمی انداز میں بھی لکھا جا سکتا ہے اور غیر رسمی انداز میں بھی،اس کا انحصار اس کے مخاطب اور موضوع پر ہوتا ہے۔۔۔۔کھلا خط کسی حکومتی پالیسی،سیاسی فیصلے یا سماجی مسئلے پر اپنا موقف واضح کرنے کے لیے لکھا جاتا ہے،کھلا خط کسی رہنما،ادارے یا شخصیت کو کسی مسئلے پر رہنمائی یا مشورہ دینے کے لیے لکھا جاتا ہے۔۔۔کھلا خط کسی تحریک،شخصیت یا نظریے کی حمایت یا مخالفت میں لکھا جاتا ہے۔۔کھلا خط کسی ادارے یا حکومت کو ان کی پالیسیوں یا اقدامات میں بہتری کے لیے متوجہ کرنے،کسی اہم سماجی،سیاسی یا معاشی مسئلے پر لوگوں کو آگاہ کرنے،عوامی شخصیات یا حکومت کو کسی خاص مسئلے پر توجہ دلانے،کسی انسانی حقوق کے مسئلے، تعلیم،صحت یا دیگر معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالنے،کسی کمپنی کے غیر اخلاقی رویے،مہنگائی یا صارفین کے مسائل پر بات کرنے کے لئے کھلے خطوط کا سہار ا لیا جاتا ہے۔۔۔مثال کے طور پر اگر کوئی صحافی کسی وزیر اعظم کو خط لکھ کر مہنگائی پر قابو پانے کی اپیل کرے اور وہ خط اخبار میں شائع ہو جائے تو یہ ایک کھلا خط ہو گا۔۔۔۔اگر کوئی مشہور شخصیت کسی ادارے کو خط لکھ کر عوامی مسائل پر آواز بلند کرے اور وہ خط سوشل میڈیا پر وائرل ہو جائے تو یہ بھی کھلا خط کہلائے گا۔۔۔۔کھلے خط کی اہمیت اس کی عوامی رسائی اور اثر و رسوخ میں ہوتی ہے۔۔۔اگر یہ موثر طریقے سے لکھا جائے اور صحیح پلیٹ فارم پر شائع کیا جائے تو یہ مثبت تبدیلی لانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔۔۔کھلا خط دنیا بھر میں ایک موثر ذریعہ رہا ہے،جس کے ذریعے افراد،تنظیمیں اور عوامی شخصیات اہم سماجی،سیاسی اور اخلاقی معاملات پر آواز اٹھاتے ہیں۔۔۔اس کا اثر صرف کسی مخصوص ملک تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر بھی پالیسی سازی،انسانی حقوق اور سفارتی تعلقات پر اثر انداز ہوتا ہے۔۔۔حکومتوں اور رہنماوں کو جوابدہ بنانے کے لئے کھلے خطوط کے ذریعے حکمرانوں کو عوامی مسائل پر توجہ دینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔۔۔بین الاقوامی تنظیمیں اور ممالک ایک دوسرے پر دباو ڈالنے کے لیے کھلے خطوط کا استعمال کرتے ہیں،جیسا کہ کئی بار کھلے خطوط میں جنگ بندی،انسانی حقوق کے تحفظ یا کسی عالمی بحران کے حل پر زور دیا جاتا ہے۔۔۔۔یاد رہے کہ 2022 میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد مختلف عالمی رہنماوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے روسی صدر پیوٹن کو کھلے خطوط لکھے،جن میں جنگ روکنے کی اپیل کی گئی۔۔۔۔فلسطین،کشمیر،میانمار اور دیگر عالمی تنازعات پر انسانی حقوق کی تنظیمیں کھلے خطوط کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ دلاتی رہی ہیں۔۔۔۔عالمی انسانی حقوق کے کارکن اور تنظیمیں حکومتوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنبیہ کرنے کے لیے کھلے خطوط کا سہارا لیتی ہیں۔۔۔کھلے خطوط کا استعمال نسل پرستی،صنفی مساوات،آزادی اظہار اور دیگر سماجی مسائل پر شعور اجاگر کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔۔۔2019 میں گریٹا تھنبرگ اور دیگر ماحولیاتی کارکنوں نے اقوامِ متحدہ اور عالمی رہنماوں کو کھلا خط لکھا جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف عملی اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔۔۔۔2020 میں امریکہ میں جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد،دنیا بھر کے رہنماوں اور مشہور شخصیات نے نسل پرستی کے خلاف کھلے خطوط لکھے۔۔۔کئی صحافی اور میڈیا ادارے اظہارِ رائے کی آزادی پر عائد پابندیوں کے خلاف کھلے خطوط لکھ کر دنیا کی توجہ مبذول کراتے ہیں۔۔۔
(جاری ہے)