تحریر:خالد شہزاد فاروقی
دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جو وقت اور فاصلے کی قید سے ماورا ہوتا ہے۔۔۔کچھ لوگ دنیا میں آتے اور اپنی زندگی کو دوسروں کے لیے وقف کر دیتے ہیں،وہ اپنی تکلیفوں کو چھپا کر دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔بعض لوگ اپنی خلوص بھری شخصیت سے ایسے نقوش چھوڑ جاتے ہیں کہ وہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔۔۔لاہور کی صحافی برادری کے عزیز اَز جان دوست اور بھائی شہزاد خان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔۔۔۔وہ ہمدرد،محبت کرنے والے اور سب سے بڑھ کر ایک ایسے شخص تھے جو زندگی کے ہر کٹھن موڑ پر بھی مسکرانا جانتے تھے ۔۔۔شہزاد خان بھی ایسے ہی ایک شخص تھے،جنہوں نے اپنی مختصر مگر بامقصد زندگی میں بے شمار دل جیتے اور محبتیں بانٹیں۔۔۔شہزاد خان اپنی فیملی اور دوستوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھے۔۔۔وہ دوسروں کی مدد کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔۔۔ان کے نزدیک زندگی کا مقصد صرف اپنی نہیں بلکہ دوسروں کی خوشیوں کے بارے میں سوچنا تھا۔۔۔۔

ہم سب دوستوں میں شہزادخان ہی وہ شخص تھے جو سب کو جوڑ کر رکھتے تھے۔۔۔وہ دوسروں کو ہنسانا اور اُن کا حوصلہ بڑھانا جانتے تھے۔۔۔اگر کوئی پریشان ہوتا تو وہ اپنے مخصوص مزاحیہ انداز میں کہتے”فکر نہ کر،زندگی امتحان لیتی ہے مگر نمبر کبھی نہیں بتاتی“اور پھر غیر محسوس طریقے سے اس مشکل کی تدبیریں کرتے۔۔۔یہ شہزاد خان کی عادت تھی کہ وہ سنجیدہ ترین لمحوں میں بھی کوئی ایسا جملہ کہہ دیتے کہ سب بے ساختہ مسکرا اٹھتے۔۔۔چند سال سے شہزادخان کو گردوں کی بیماری لاحق تھی اور وہ ہر تیسرے دن ڈائیلیسز کے تکلیف دہ مراحل سے گزرتے تھے مگر انہوں نے کبھی اپنی بیماری کو کمزوری نہیں بننے دیا۔۔۔وہ خود تکلیف میں ہوتے مگر دوسروں کو ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کرتے۔۔۔ڈائیلیسز کے دوران جب تکلیف اپنی انتہا پر ہوتی،تب بھی وہ جملہ کسنے سے باز نہیں آتے تھے۔۔۔ ایک باردوران ڈائیلسیزجب اٹینڈنٹ نے ان سے طبیعت دریافت کی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔۔۔”لگتا ہے کہ گردے نے ہڑتال کر دی ہے لیکن میں ابھی ہار ماننے والا نہیں“اس لمحے سب ہنس پڑے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ وہ کس قدر تکلیف میں تھے۔۔۔ یہی اُن کی سب سے بڑی خوبی تھی کہ وہ مشکل وقت میں بھی دوسروں کو حوصلہ دیتے رہے۔

شہزاد احمد خان دو سال قبل ہم سے جدا ہو گئے مگر اُن کی یادیں،اُن کی باتیں اور اُنکی بے لوث محبت آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے۔۔۔وہ نہ صرف ایک بہترین دوست بلکہ ایک ایسے انسان تھے جو ہمیشہ دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہتے۔اُن کا دل ہمدردی اور غمگساری سے لبریز تھا۔وہ سینئر تجزیہ کار اور صحافی نصراللہ ملک کو ہمیشہ اپنا بڑا بھائی کہتے اور انتہائی احترام کرتے،جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات قیصرشریف صاحب سے محفل میں چھیڑ خانی کا آغاز ہوتا توخود بھی اُس میں شامل ہو جاتے،محسن رضا خان اورسرمد سالک جیسے لوگ بھی ان کی فی البدیہہ جگتوں پر مسکرانے پر مجبور ہو جاتے،لاہور کے سکہ بند رپورٹروں ایاز شجاع،میاں اسلم،لیاقت انصاری،اسد صہیب ،فہیم امین،علی وقار،میاں روف،محمد الیاس،عبد المجید ساجد،رضوان رضی اور 365 کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاء عثمان سمیت اُن کے دوستوں کی فہرست طویل تھی کیونکہ وہ ہر ایک سے انتہائی خلوص اور محبت سے پیش آتے۔۔۔ان کی خوش اخلاقی،معاملہ فہمی اور بے لوث تعاون نے انہیں صحافیوں میں عزت و احترام کا مقام دیا۔۔۔

لاہور کے سینئر صحافیوں کے ساتھ ہونے والی اُن کی مجالس علم و دانش سے بھرپور ہوتی،جہاں وہ معاشرتی مسائل، ملکی حالات اور صحافت کے بدلتے رجحانات پر کھل کر گفتگو کرتے۔ان کی موجودگی محفل کو بامقصد بنا دیتی اور ان کی باتوں میں سچائی اور تجربے کی گہرائی جھلکتی تھی۔اسی وجہ سے صحافی برادری انہیں نہ صرف عزت دیتی تھی بلکہ ان سے قریبی تعلق بھی رکھتی تھی۔شہزاد خان کی شخصیت کا سب سے خوبصورت پہلو اُن کی دردمندی تھی۔۔۔ وہ دوستوں کے مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے،اُن کے دکھوں کو بانٹتے اور ہر ممکن طریقے سے مدد کرتے۔۔۔ان کا دروازہ ہر وقت دوستوں اور ضرورت مندوں کے لیے کھلا رہتا۔اُن کی مسکراہٹ،نرم گفتاری اور پیار بھرے انداز نے ہر ایک کو اُن کا گرویدہ بنا رکھا تھا۔شہزاد خان دوستوں کو کھانا کھلانے اور تحفے تحائف دینے کے بہانے ڈھونڈا کرتے،وہ دوسروں کو کھانا کھلا کر خوش ہوتے،دوستوں کی محفلیں سجاتے اور فی البدیہہ جگتیں کرتے۔۔اُن کی محفلوں میں قہقہے بکھرتے اور ہر چہرہ خوشی سے دمک اٹھتا۔۔۔

وہ اپنے دوستوں کی سالگرہ بڑے اہتمام سے مناتے۔۔۔کسی دوست کی سالگرہ آتے ہی وہ خاص انتظامات کرتے اور تقریب کو یادگار بنانے کی کوشش کرتے،اُن کے منعقد کردہ جشن میں خوشی اور محبت کی جھلک واضح ہوتی اور اُن کے دوست ہمیشہ اِن لمحوں کو یاد رکھتے۔۔۔شہزاد خان تیتر،بٹیر،دیسی مرغ کی یخنی اور شکار پارٹی کا بھی بڑے شوق سے اہتمام کرتے۔۔وہ فطرت کے دلدادہ تھے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا ان کے لیے ایک یادگار لمحہ ہوتا۔دوستوں کے ساتھ ہنسی مذاق اور دلچسپ باتوں سے محفل کو کشت و زعفران بنا دیتے۔۔۔۔گذشتہ روز شہزاد خان کی سالگرہ تھی اور دل چاہا کہ ان کی شخصیت کو الفاظ میں سمیٹا جائے مگر حقیقت یہ ہے کہ ان جیسے لوگ لفظوں میں مکمل بیان نہیں کیے جا سکتے۔وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک احساس،ایک روشنی اور ایک خوبصورت یاد بن کر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔

شہزاد خان نہ صرف ایک بہادر انسان بلکہ ایک کامیاب بزنس مین بھی تھے۔۔۔انہوں نے اپنی محنت،لگن اور بصیرت سے کاروباری دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔۔۔اپنی بیماری کے باوجود وہ آخری وقت تک متحرک رہے اور ہر چیلنج کا مردانہ وار سامنا کیا۔۔۔دوران بیماری وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے فکرمند رہتے اور چاہتے تھے کہ ان کے دونوں بیٹے بھی کامیابی کی راہ پر گامزن ہوں اور ان کے راستے میں کوئی مشکلات نہ آئیں۔۔۔انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے دونوں بیٹوں سعد خان اور معیز خان کو اپنے بزنس کے گر سکھانے کے ساتھ محنت،دیانت اور استقامت کی اہمیت سکھائی تاکہ وہ بھی اپنے والد کی طرح ایک کامیاب زندگی گزار سکیں۔۔شہزاد خان صیح معنوں میں ایک دردمند اور فیاض انسان تھے۔وہ اپنی دولت کو صرف ذاتی کامیابی کے لیے استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ان کی سخاوت کا انداز ایسا تھا کہ دائیں ہاتھ سے دیتے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوتی۔۔۔وہ خاموشی سے مستحق لوگوں کی مدد کرتے،کسی پر احسان نہیں جتاتے اور اپنی نیکیوں کو شہرت کی بھینٹ چڑھانے سے گریز کرتے۔۔۔اگر کوئی دوست یا جاننے والا کسی مالی یا ذاتی پریشانی کا شکار ہوتا تو وہ بنا کسی کو بتائے،خاموشی سے مدد فراہم کر دیتے۔۔۔اُن کے لیے دوسروں کی خوشی سب سے زیادہ اہمیت رکھتی اور وہ اپنا سکون دوسروں کی خوشی میں تلاش کرتے۔۔۔ان کی یہ خوبی انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی تھی۔سب ہی دوست ان کی کمی ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔۔۔آج ہم سب دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے،انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے اور ہمیں یہ ہمت دے کہ ہم ان کی محبتوں اور خلوص کو اپنے اعمال میں زندہ رکھ سکیں۔آمین
