تحریر:خالد شہزاد فاروقی
”مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کا اتحاد نظریاتی کے بجائے وقتی اور مفاداتی بنیادوں پر ہوتا ہے، جیسے ہی اقتدار کی تقسیم میں مسئلہ آتا ہے،دونوں جماعتیں عوام کے سامنے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیتی ہیں“اسے الزام کہیں یا حقیقت ؟پاکستانی سیاست میں اس بات سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ پی پی اور ن لیگ کا اتحاد ”غیر فطری“ہی کہلاتا ہے۔۔۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دو بڑی اور روایتی حریف جماعتیں رہی ہیں۔۔۔ایک طویل عرصے تک یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے سخت مخالف رہی ہیں،حتیٰ کہ ان کے رہنما ایک دوسرے کے خلاف شدید تنقید کرتے رہے ہیں،دونوں جماعتوں کی قیادت”ایک دوسرے “کو نہ صرف ملک کے لئے ”سیکیورٹی رسک“ قرار دے چکی ہے بلکہ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے پرکرپشن کے ایسے ایسے شرمناک الزامات عائد اور مقدمات قائم کئے ہیں کہ جن کی”پیشیاں“دونوں جماعتوں کے رہنما آج بھی بھگت رہے ہیں۔۔۔گذشتہ روز ہی سابق وزیر اعظم اور سینیٹ کے موجودہ چیئرمین سید یوسف رضا گیلانی کو مشہور زمانہ”ٹڈاپ سکینڈل‘‘ کے تین مقدمات میں سے بری کردیا گیا۔۔۔”ٹڈاپ سکینڈل میں متعدد کمپنیوں سمیت مختلف افراد پر 70 سے زائد مقدمات 2009 میں درج کئے گئے تھے۔ملزموں پر فریٹ سبسڈی کی مد میں قومی خزانے کو 6 ارب سے زائد نقصان پہنچانے کا الزام تھا۔ٹڈاپ سکینڈل میں پیپلز پارٹی کے مرحوم رہنما مخدوم امین فہیم بھی نامزد تھے۔مقدمات ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان(ٹڈاپ)میں مبینہ کرپشن سے متعلق تھے جن میں کئی اعلیٰ عہدیداران شامل تھے“ن لیگ کے دور حکومت میں قائم ان مقدمات میں بریت کے بعد یوسف رضا گیلانی نے پنجاب حکومت کو جو سخت”وارننگ“ دے کر”دل کی بھڑاس “نکالی ہے اس میں” عقلمندوں“کے لئے بہت سارے ”اشارے“ہیں۔۔۔
اس سے قبل گذشتہ چند ہفتوں سے مختلف ٹی وی چینلز پر پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان سمیت پارٹی کے دیگر رہنما بھی مریم نواز کے طرز حکمرانی پر”شعلہ افشانی“کرتے دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔اس ”شعلہ افشانی“کا صاف مطلب ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان دراڑیں مزید گہری ہو رہی ہیں۔۔۔گورنر پنجاب کی بیان بازی دراصل بلاول بھٹو کی حکمت عملی کا حصہ ہو سکتی ہے تاکہ ن لیگ کو دباو میں لایا جا سکے۔پیپلز پارٹی اگر ن لیگ سے فاصلہ بنا رہی ہے تو یہ اسی کی ایک کڑی ہو سکتی ہے تاکہ آنے والے انتخابات میں وہ خود کو ایک الگ قوت کے طور پر پیش کر سکے۔۔۔چند روز قبل ہی پیپلزپارٹی کی ترجمان شازیہ مری نے حکومت پر آئین شکنی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ حکومت آئینی طور پر 90 روز میں سی سی آئی کا اجلاس بلانے کی پابند ہے لیکن 300 دن گزرنے کے باوجود ایک بھی اجلاس نہیں بلایا گیا۔۔۔اس کے علاوہ،پنجاب حکومت کی جانب سے بجلی میں فی یونٹ 14 روپے ریلیف کے اعلان پر بھی دونوں جماعتوں کے رہنماوں کے درمیان بیان بازی ہوئی۔سندھ حکومت کے وزراء شرجیل انعام میمن،سعید غنی ناصر حسین شاہ سمیت دیگر نے ن لیگ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور دیگر صوبوں میں بھی نرخ کم کرنے کا مطالبہ کیا۔ جواباً وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے پیپلز پارٹی پر کڑی تنقید کی۔۔۔
پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حالیہ بیانات میں ن لیگ پر الزام لگایا کہ وہ پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش کر رہی ہے،لیگی رہنماوں نے’جوابی وار‘کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی خود فیصلہ کرے کہ وہ اپوزیشن میں ہے یا حکومت میں؟پنجاب میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم پر بھی دونوں جماعتوں میں اختلافات چل رہے ہیں۔۔۔دونوں پارٹیوں کے رہنماوں خصوصا پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان اور وزراء کے درمیان”ہلکی پھلکی موسیقی“چلتی رہتی ہے جبکہ بعض اوقات یہ”ہلکی پھلکی موسیقی“تلخی میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔۔۔حالیہ برسوں میں سیاسی حالات کے پیش نظر یہ دونوں جماعتیں کئی مواقع پر ایک دوسرے کے قریب آئی اور ایک”غیر فطری اتحاد“قائم کرنے پر مجبور ہوئی ہیں تاہم ملک کی یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں”نظریاتی اختلافات“کے باعث ہمیشہ ایک دوسرے کی سخت مخالف رہی ہیں۔۔۔۔ماضی میں دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلا”سازشوں“میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔۔۔اس دوران،ایک دوسرے کی حکومتیں ختم کرانے میں بھی یہ پارٹیاں پیش پیش رہیں تاہم،جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران،ان دونوں جماعتوں کو اپنی سیاسی بقا کے لیے ایک دوسرے کے قریب آنا پڑا اور 2006 میں میثاقِ جمہوریت(چارٹر آف ڈیموکریسی)پر دستخط کیے گئے،جس کا مقصد جمہوری اداروں کا استحکام تھا۔
حالیہ برسوں میں خاص طور پر تحریک انصاف کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عمران خان کی سیاست نے ان دونوں جماعتوں کو مزید قریب کر دیا۔تحریک انصاف کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے کئی بار پارلیمنٹ میں اور حکومت سازی کے عمل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا تاہم یہ اتحاد زیادہ دیرپا نہیں رہا کیونکہ دونوں جماعتوں کے اندرونی مفادات اور ان کے نظریاتی اختلافات بار بار ان کے راستے جدا کرتے رہے ہیں۔۔۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ اتحاد”غیر فطری“کیوں ہے یا اسے غیر فطری کیوں کہا جاتا ہے؟؟؟پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے بنیادی نظریات ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہیں۔ایک جماعت سوشلسٹ رجحان رکھتی جبکہ دوسری جماعت سرمایہ دارانہ نظام کو ترجیح دیتی ہے۔۔دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتیں اور جب بھی انہیں موقع ملتا ہے،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتی ہیں۔۔۔عوام کی نظر میں یہ اتحاد صرف اقتدار کے حصول کے لیے کیا گیا ہے،جس کی وجہ سے ان جماعتوں کی ساکھ مزید متاثر ہو رہی ہے۔پاکستانی سیاست کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی یہ بات جانتا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد وقتی ضرورت کے تحت قائم کیا گیا ایک”غیر فطری“اتحاد ہے،جس کی جڑیں کسی مشترکہ نظریے یا عوامی خدمت کے جذبے میں نہیں بلکہ وقتی سیاسی مفادات میں پیوستہ ہیں۔یہ اتحاد شاید وقتی طور پر ان جماعتوں کو فائدہ پہنچا سکے مگر طویل مدت میں یہ نہ تو ملکی سیاست میں استحکام لا سکتا ہے اور نہ ہی عوام کا اعتماد حاصل کر سکتا ہے۔
عوام اب پہلے سے زیادہ باشعور ہو چکے ہیں اور وہ ایسے غیر فطری اتحادوں کی حقیقت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔۔۔پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان حالیہ بیان بازی ایک بار پھر یہ ثابت کرتی ہے کہ دونوں جماعتیں وقتی مفادات کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کرتی ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار یا مفادات میں ٹکراو آتا ہے،ایک دوسرے پر الزامات لگانے لگتی ہیں۔۔۔پہلے ایک دوسرے کی مخالفت نجی مجالس میں ہوتی تھی اور ایک دوسرے کے کاموں میں”کیڑے“بھی”بند کمروں “میں ہی نکالے جاتے تھے تاہم اب یہ مخالفت”بند کمروں“ سے نکل کر میڈیا تک پہنچ چکی ہے اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان”لفظی جنگ“زوروں پر ہے۔پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت کو ”دامے،درمے اور سخنے “ انداز میں کوس رہی جبکہ ن لیگ کا موقف ہے کہ پیپلز پارٹی کبھی پنجاب میں مقبول نہیں رہی اور صرف تنقید برائے تنقید کر رہی ہے تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی مشکل وقت آتا ہے،دونوں جماعتیں ایک دوسرے کو سہارا دینے سے گریز نہیں کرتیں۔۔۔اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ دونوں پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے پر کرپشن اور نااہلی کے الزامات لگاتے ہیں لیکن جب اقتدار میں شراکت کا وقت آتا ہے تو یہ تمام اختلافات پس پشت ڈال دیے جاتے ہیں اور سب پہلے کی طرح شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔۔۔دونوں جماعتیں عوام کے سامنے ایک دوسرے کو اسٹیبلشمنٹ کی پیداوار کہتی ہیں لیکن حقیقت میں دونوں نے اپنے مفادات کے لیے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی راہ نکالی ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کئی مواقع پر دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کی مدد کی ہے،چاہے وہ نیب قوانین میں ترمیم ہو یا کوئی اور حساس قانون سازی۔۔عوام اب ان روایتی سیاسی جماعتوں کی چالاکیوں کو خوب سمجھ چکے ہیں۔اس لئے یہ”نورا کشتی“زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔۔۔پاکستانی عوام خاصے باشعور ہو چکے ہیں اور وہ ان دو جماعتوں کی لفظی”گولہ باری“ کو محض سیاسی ڈرامہ سمجھتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا عوام اس بار ان چالاک سیاستدانوں کے جال میں آئیں گے یا نہیں؟اس کا جواب آنے والے انتخابات میں ملے گا۔۔۔