Refusing to see the roots of insurgencies, using ‘terrorism’ labels, and scapegoating neighbours are not winning strategies.

پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر،اسباب اور تدارک

تحریر:خالد شہزاد فاروقی

پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر شدت اختیار کر چکی ہے،خاص طور پر خیبر پختونخوا،بلوچستان اور پنجاب میں علما کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ پاک فوج اور دیگر سیکیورٹی ادارے بھی دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں۔یہ تشویش ناک صورت حال ایک بار پھر اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ ملک میں دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں اور اس کا مستقل حل کیسے ممکن ہے؟؟؟۔دہشت گردی کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تاریخی،سیاسی،سماجی اور اقتصادی عوامل کا گہرائی سے جائزہ لیں۔۔۔پاکستان میں دہشت گردی ایک پیچیدہ اور گمبھیر مسئلہ ہے جو کئی دہائیوں سے ملکی سلامتی،معیشت اور معاشرتی ڈھانچے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔۔۔اس کے اسباب اور سدباب کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مسئلے کو مختلف زاویوں سے دیکھا جائے۔۔۔۔

پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں افغان جنگ سے جڑی ہوئی ہیں،جب سرد جنگ کے دوران عالمی طاقتوں نے خطے کو پراکسی وار کا میدان بنایا،افغان جہاد کے دوران مسلح گروہوں کو تربیت اور وسائل فراہم کیے گئے لیکن وقت کے ساتھ یہ گروہ مختلف انتہا پسند نظریات کے زیر اثر آ کر ریاست کے خلاف برسر پیکار ہو گئے۔۔۔ملک میں دہشت گردی کے فروغ میں غیر ملکی مداخلت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،دشمن قوتیں پاکستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کرتی ہیں۔۔۔بھارت کی خفیہ ایجنسی”را“اور دیگر غیر ملکی ایجنسیاں پاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے میں ملوث پائی گئی ہیں،جس کا مقصد پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنا ہے۔۔۔۔دہشت گردی کے بنیادی اسباب میں سب سے نمایاں سیاسی عدم استحکام ہے،جب کسی ملک میں سیاسی نظام کمزور ہوتا ہے،حکمرانوں میں نا اتفاقی اور عدلیہ و قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں درست طریقے سے ادا نہیں کرتے تو اس کا فائدہ دہشت گرد عناصر اٹھاتے ہیں۔۔۔جب عوام کو انصاف نہیں ملتا اور ادارے بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں تو دہشت گرد تنظیمیں عوام کے جذبات کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔۔۔پاکستان میں مختلف ادوار میں سیاسی غیر یقینی صورتحال نے دہشت گرد تنظیموں کو پنپنے کے مواقع فراہم کیے۔۔۔داخلی سطح پر کمزور حکمرانی،بدعنوانی اور انصاف کی عدم دستیابی نے بھی انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے۔۔۔معاشی بدحالی اور بے روزگاری بھی دہشت گردی کے پھیلاو میں اہم کردار ادا کرتی ہے،غربت،بے روزگاری اور عدم مساوات نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں کی طرف راغب کرتی ہے،جب ایک فرد کو اپنے مستقبل کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہو تو اسے شدت پسند نظریات کی طرف مائل کرنا آسان ہو جاتا ہے،دہشت گرد تنظیمیں ان افراد کو اپنے ساتھ شامل کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہیں،جب نوجوانوں کے پاس روزگار کے مواقع نہیں ہوتے تو وہ آسانی سے دہشت گرد تنظیموں کے جال میں پھنس جاتے ہیں جو انہیں مالی مراعات اور نظریاتی تسلیاں فراہم کرتی ہیں۔۔۔

مذہبی انتہا پسندی بھی ایک بڑا عنصر ہے جو مختلف شدت پسند گروہوں کو ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتا ہے،جس کی وجہ سے ملک میں فرقہ وارانہ دہشت گردی میں اضافہ ہوتا ہے۔۔۔مدارس میں یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے کئی جگہوں پر انتہا پسندانہ نظریات پروان چڑھتے ہیں اور نئی نسل کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں ۔۔۔تعلیمی پسماندگی بھی دہشت گردی کے اسباب میں سے ایک ہے،انتہا پسند تنظیمیں کم تعلیم یافتہ یا غیر تعلیم یافتہ افراد کو آسانی سے گمراہ کر سکتی ہیں،پاکستان میں ایسے مدارس اور تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں جو غلط نظریات کو فروغ دے کر نوجوان نسل کو شدت پسندی کی طرف دھکیلتے ہیں،تعلیم کی کمی کی وجہ سے بہت سے لوگ دہشت گرد عناصر کے پراپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں حقائق کا درست اندازہ نہیں ہو پاتا،بعض شدت پسند گروہ مذہب کے نام پر اپنی کارروائیاں کرتے اور عوام کو گمراہ کر کے اپنی تنظیموں میں شامل کر لیتے ہیں،اس انتہا پسندی کو کچھ اندرونی اور بیرونی عناصر مزید ہوا دیتے ہیں تاکہ ملک میں انتشار اور بدامنی پھیلے۔۔۔مدارس میں یکساں تعلیمی نصاب نہ ہونے کی وجہ سے کئی جگہوں پر انتہا پسندانہ نظریات پروان چڑھتے اور نئی نسل کو شدت پسندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔

پاکستان کی جغرافیائی صورتحال اور خطے میں جاری تنازعات نے بھی دہشت گردی کے فروغ میں کردار ادا کیا ہے۔ افغانستان میں جاری جنگ اور اس کے پاکستان پر پڑنے والے اثرات،بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت اور دیگر بین الاقوامی عوامل اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔پاکستان میں دہشت گردی کے سدباب کے لیے ایک جامع اور موثر حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔۔سب سے پہلے،قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید مضبوط اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جانا چاہیے تاکہ وہ دہشت گرد عناصر کا بروقت اور موثر طریقے سے قلع قمع کر سکیں۔۔۔ریاستی اداروں کو دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالرینس پالیسی اپنانا ہو گی اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہو گی۔انٹیلی جنس اداروں کو مزید مضبوط اور جدید خطوط پر استوار کرنا ہو گا تاکہ دہشت گردی کے منصوبوں کو بروقت ناکام بنایا جا سکے۔۔۔پاکستان میں تعلیمی نظام میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے تا کہ نوجوانوں کو مثبت اور کارآمد تعلیم فراہم کی جا سکے جو انہیں شدت پسندی کی طرف جانے سے روک سکے۔ایسا نصاب متعارف کروایا جائے جو نوجوانوں میں برداشت،رواداری اور منطقی سوچ کو فروغ دے،مدارس کے نصاب میں جدید علوم کو شامل کیا جائے تاکہ وہاں پڑھنے والے طلبا کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے،مدارس میں اصلاحات لا کر انہیں مرکزی تعلیمی نظام کے ساتھ منسلک کیا جائے تاکہ وہاں سے شدت پسندانہ خیالات کو ختم کیا جا سکے۔۔

معاشی ترقی اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو ایسے منصوبے متعارف کروانے ہوں گے جو نوجوانوں کو روزگار کے مواقع فراہم کریں کیونکہ جب لوگوں کے پاس مستحکم آمدنی کے ذرائع ہوں گے تو وہ انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے بچ سکیں گے،ہمارے مقتدر حلقوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ معاشی ترقی دہشت گردی کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے،جب عوام کو روزگار کے مواقع ملیں گے،ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوں گی اور انہیں ایک روشن مستقبل نظر آئے گا تو وہ شدت پسند تنظیموں کے چنگل میں نہیں پھنسیں گے،اس مقصد کے لیے حکومت کو سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے،چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔۔

سیاسی استحکام بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم ہے۔جب ملک میں ایک مضبوط اور شفاف سیاسی نظام ہو گا تو دہشت گرد عناصر کو پنپنے کے مواقع نہیں ملیں گے۔تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر قومی مفادات کے تحت کام کرنا ہو گا اور اندرونی خلفشار کو ختم کرنا ہو گا تاکہ دہشت گرد تنظیمیں کمزور پڑ سکیں۔میڈیا اور سوشل میڈیا کا موثر استعمال بھی دہشت گردی کے خلاف ایک طاقتور ہتھیار ثابت ہو سکتا ہے۔دہشت گرد تنظیمیں اکثر پراپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو اپنے ساتھ ملاتی ہیں لہذا ریاست کو بھی اسی انداز میں شدت پسند نظریات کے خلاف مثبت بیانیہ تشکیل دینا ہو گا۔۔۔ملک میں عدالتی اور قانونی نظام کو مزید مضبوط بنایا جائے تاکہ دہشت گردوں کو فوری اور موثر انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے،ماضی میں کئی دہشت گرد اپنی سزاوں سے بچ نکلے،جس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچایا،عوامی شعور بیدار کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔۔۔میڈیا،علما اور دانشوروں کو چاہیے کہ وہ انتہا پسندی کے خلاف بیانیہ تشکیل دیں اور عوام کو دہشت گردوں کے اصل چہرے سے روشناس کرائیں۔۔۔سوشل میڈیا پر شدت پسندانہ مواد کے پھیلاو کو روکنے کے لیے موثر قانون سازی اور سخت نگرانی ضروری ہے۔۔۔پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں بھی ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو خطے میں امن کے قیام میں مددگار ثابت ہوں۔۔۔افغانستان میں عدم استحکام براہ راست پاکستان پر اثر انداز ہوتا ہے،لہٰذا وہاں امن کے قیام کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں تیز کرنا ہوں گی تاکہ دہشت گردوں کو وہاں پناہ گاہیں نہ مل سکیں۔۔۔۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف بندوق سے نہیں جیتی جا سکتی بلکہ اس کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے جو دہشت گردی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرے۔جب تک سیاسی استحکام،معاشی خوشحالی،عدالتی نظام کی بہتری اور تعلیم کے شعبے میں اصلاحات نہیں کی جاتیں،تب تک اس مسئلے کا مستقل حل ممکن نہیں ہو گا۔پاکستان کو اس ناسور سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قومی یکجہتی،مضبوط حکمت عملی اور سخت فیصلے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو ایک پرامن اور مستحکم ملک دیا جا سکے۔۔۔دہشت گردی کا خاتمہ کسی ایک اقدام سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ایک جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانا ہو گی جس میں سیاسی،معاشی،تعلیمی،مذہبی اور سفارتی تمام پہلووں کو مدنظر رکھا جائے۔جب تک یہ تمام عوامل ایک ساتھ نہیں چلیں گے،دہشت گردی کے خلاف جنگ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں