حافظ حسین احمد،شگفتہ مزاج عالم دین اور مدبر سیاست دان

تحریر:خالد شہزاد فاروقی


حافظ حسین احمد ایک ممتاز پارلیمنٹرین،مذہبی و سیاسی رہنما تھے۔۔۔ان کا شمار پاکستان کے ان سیاستدانوں میں ہوتا تھا جو اپنی شگفتہ مزاجی،بذلہ سنجی اور جملہ بازی کے حوالے سے منفرد شناخت رکھتے تھے۔۔۔ان کی باتوں میں نہ صرف برجستگی ہوتی بلکہ وہ اکثر ایسے چبھتے ہوئے جملے کہتے جو سننے والوں کو محظوظ بھی کرتے اور سوچنے پر بھی مجبور کر دیتے،ان کا اندازِ گفتگو،لطیف طنز اور سنجیدہ معاملات کو بھی خوش طبعی سے بیان کرنے کا فن انہیں دیگر سیاستدانوں سے منفرد بناتا تھا۔۔۔۔بلوچستان کے ایک دینی و علمی گھرانے میں پیدا ہونے والے حافظ حسین احمد کی شخصیت میں جودتِ طبع اور ظرافت کی جھلک ابتدا ہی سے نمایاں تھی۔۔۔دورانِ تعلیم ہی انہوں نے مقرر کی حیثیت سے اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور بعد میں سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔وہ جمعیت علماء اسلام ف کے ایک اہم رہنما کے طور پر ابھرے اور قومی سیاست میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا۔۔۔۔وہ پارلیمنٹ میں کئی بار منتخب ہوئے اور اپنی شعلہ بیانی اور برجستہ جملوں کی بدولت نمایاں رہے۔۔۔ان کی شخصیت کا خاصہ ان کا برجستہ اور نپا تلا انداز گفتگو تھا جو انہیں دیگر سیاستدانوں سے منفرد بناتا تھا۔پارلیمنٹ کے فلور پر ان کی تقاریر سننے کے لائق ہوتی تھیں،جہاں وہ نہایت مدلل اور طنزیہ انداز میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کو آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔وہ نہ صرف ایک بہترین مقرر تھے بلکہ ان کے بیانات سیاسی و سماجی معاملات پر گہری بصیرت کے حامل ہوتے۔۔۔

مولانا فضل الرحمان نے غالبا 2020 میں میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز پر تنقید کے ”جرم“میں انہیں پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات کے عہدے سے الگ کر دیا تھا اور ان کی پارٹی رکنیت بارے فیصلہ کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے بعد ازاں انہیں پارٹی سے نکال دیا تھا،اس بارے جب میں نے حافظ حسین احمد سے سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ”مولانا فضل الرحمان پارٹی پالیسی کے برعکس نواز شریف کے بیانیے کی حمایت کر رہے ہیں، مولانا فضل الرحمان سے پہلے میں جمعیت علماء اسلام میں شامل ہوا،پارٹی دستور کی خلاف ورزی میں نہیں مولانا فضل الرحمان کر رہے ہیں،جمہوریت کے دعویدار اپنی جماعتوں میں جمہوریت برداشت نہیں کرتے،جہاں کسی لیڈر کی شان کیخلاف بات کی گئی اس کی رکنیت ختم کر دی جاتی ہے،ہم کوئی الگ پارٹی یا گروپ نہیں بنائیں گے،ہم پارٹی دستور کے مطابق ہی پارٹی کو چلانے کی کوشش کریں گے،مولانا فضل الرحمان اسمبلی کو جعلی کہتے تھے،انہوں نے اسی اسمبلی سے نواز شریف کے ایک فون پر صدارتی الیکشن کیوں لڑا؟اسمبلی کو جعلی کہتے ہیں تو ان کے بیٹے وہاں اب تک کیوں موجود ہیں؟“اس ”چومکھی لڑائی“کے بعد کئی سال خاموشی رہی۔۔۔حافظ حسین احمد کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے کی بجائے ”خاموش“ہو گئے اور بعد ازاں جب ان کی بیماری اور ”جماعت کا اندرونی پریشر“زیادہ بڑھا تو مولانا فضل الرحمان ان کے گھر پہنچے اور بگڑے معاملات کو حل کر لیا۔اس موقع پر بھی حافظ حسین احمد نے پرانا موقف ہی دہرایا کہ”جمعیت نے انہیں نکالا تھا وہ جمعیت میں سے کبھی نہیں نکلے“۔۔۔۔میڈیا پر ان کے انٹرویوز ہمیشہ توجہ کا مرکز رہتے،جہاں وہ اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ جملہ بازی سے ماحول کو دلچسپ بنا دیتے۔۔۔۔پارلیمانی بحث ہو،ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا عوامی جلسے،ان کی گفتگو میں ہمیشہ ایک خاص شگفتگی ہوتی تھی۔۔۔وہ انتہائی حساس اور پیچیدہ سیاسی معاملات کو بھی مزاح کے پیرائے میں بیان کر کے نہ صرف ماحول کو ہلکا پھلکا بنا دیتے بلکہ اپنی بات بھی موثر انداز میں پہنچا دیتے۔۔۔

حافظ حسین احمد اپنی ذہانت اور برجستہ جملوں کی بدولت ہمیشہ خبروں میں رہتے۔ان کے الفاظ میں ایسی چاشنی ہوتی تھی کہ سیاسی میدان میں ان کے مخالفین بھی ان کی حس مزاح کے معترف نظر آتے۔ان کی گفتگو میں ایک خاص طرح کی چمک اور شگفتگی ہوتی تھی جو سیاست کی تلخیوں کو کم کر دیتی تھی۔وہ سنجیدہ موضوعات پر بھی اس انداز میں بات کرتے کہ سامعین کو بے ساختہ ہنسی آ جاتی۔ان کے جملے نہ صرف فوری اثر چھوڑتے بلکہ طویل عرصے تک یاد بھی رکھے جاتے۔ان کے اندازِ گفتگو میں بلا کی برجستگی تھی اور وہ حالات و واقعات کو اس طرح جوڑتے کہ جملہ نہ صرف مزاحیہ ہوتا بلکہ اس میں ایک گہری سیاسی بصیرت بھی جھلکتی،ان کی بذلہ سنجی کا ایک بڑا مظہر ان کی صحافیوں کے ساتھ گفتگو تھی۔وہ سوالات کے جواب میں نہ صرف فوری برجستہ ردِعمل دیتے بلکہ بعض اوقات ایسے جملے کہہ جاتے جو محفل کی جان بن جاتے۔۔۔۔حافظ حسین احمد کی جملہ بازی کے کئی واقعات زبان زدِ عام ہیں۔۔۔

سنہ 2002 کے الیکشن ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے کرائے جس میں ”کرشماتی طور“پر ق لیگ جتوا دی گئی،پیپلز پارٹی کے بطن سے”پیٹریاٹ“ نے جنم لیا اور نئی حکومت بن گئی۔۔۔مولانا فضل الرحمن اور ن لیگ اپوزیشن میں تھے۔۔۔جنرل مشرف کا لیگل فریم ورک آرڈر(ایل ایف او)آئین پر حاوی جبکہ”ٹوٹی پھوٹی“اپوزیشن کا ایل ایف او کے خلاف پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج جاری تھا۔۔۔ایک دن پارلیمنٹ ہاوس میں احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن کے ارکان ایل ایف او نامنظور کے نعرے لگاتے ہوئے باہر نکلے،اُن کے سینے پر اسی نعرے کے سٹیکر بھی آویزاں تھے۔ق لیگ کی”خوبرو رکن اسمبلی“کشمالہ طارق اپوزیشن کے احتجاج کے پاس سے گذریں تو ان کا ”ٹاکرا “حافظ حسین احمد سے ہو گیا وہ بولیں”مولانا اب یہ”نا“ہٹا دیں(یعنی ایل ایف او نامنطور کے سٹیکر سے)جس پر حافظ حسین احمد نے برجستہ جواب دیا”کشمالہ!آپ”ہاں“کر دیں،میں”نا“ہٹا دوں گا۔اس جملہ بازی پر ہر طرف قہقہے ابل پڑے۔۔۔۔ان کے ایسے جوابات صحافیوں کے لیے ہمیشہ دلچسپی کا باعث رہتے۔۔ایک بار جب کسی سیاستدان نے اپنے قد کاٹھ کے حوالے سے بڑائی کا دعویٰ کیا تو حافظ حسین احمد نے برجستہ کہا،”قد بڑا ہونے سے عقل بڑی نہیں ہوتی،ورنہ زرافہ جنگل کا بادشاہ ہوتا“ان کا یہ جملہ کافی عرصے تک سیاسی محفلوں میں دہرایا جاتا رہا۔وہ اکثر سیاسی تبدیلیوں پر بھی اپنے مخصوص انداز میں تبصرہ کرتے۔۔ایک سیاسی جماعت نے بار بار بیانیہ بدلا تو انہوں نے کہا،”یہ سیاست نہیں،بگل بجانے والی سرکس ہے، جہاں ہر شو میں نئی چالیں دیکھی جا سکتی ہیں“۔۔۔

حافظ حسین احمد کی گفتگو میں الفاظ کا انتخاب اور جملوں کی ساخت اتنی دلنشین ہوتی کہ ان کی بات محض تفریح نہیں لگتی تھی بلکہ اس میں ایک حکمت بھی پنہاں ہوتی۔وہ مزاح میں سنجیدگی کی آمیزش کا فن بخوبی جانتے تھے،یہی وجہ تھی کہ ان کے کہے گئے جملے نہ صرف قہقہوں کی صورت میں گونجتے بلکہ ان میں چھپا پیغام بھی سننے والوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتا تھا۔ان کی گفتگو میں طنز اور مزاح کا ایسا حسین امتزاج تھا جو پاکستانی سیاست میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کی حس مزاح اور برجستگی کا کمال یہ تھا کہ وہ اختلافِ رائے کو کبھی تلخی میں نہیں بدلنے دیتے تھے۔وہ اختلاف کے باوجود نرم لہجے اور ہلکے پھلکے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔یہی وجہ تھی کہ مخالفین بھی ان کے انداز کی داد دیتے اور انہیں ایک نرالے سیاستدان کے طور پر دیکھتے۔۔۔۔حافظ حسین احمد طنزیہ انداز میں اپنی جماعت کے اندرونی اختلافات پر بھی بات کرتے اور اپنے مخالفین کو بھی لطیف جملوں کے ذریعے نشانہ بناتے۔۔حافظ حسین احمد نے ہمیشہ اپنے نظریات پر مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے سیاست میں اخلاقیات کو مقدم رکھا۔۔۔وہ ایک نظریاتی سیاستدان تھے جو ذاتی مفادات کی بجائے قومی و عوامی مسائل پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔۔۔ان کی وفات سے پاکستان کی سیاسی و مذہبی فضا میں ایک خلا پیدا ہوا جو مدتوں پر نہیں ہو سکے گا۔۔وہ اپنی جملہ بازی،شگفتہ مزاجی اور منفرد حس مزاح کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔۔۔۔ان کی کمی نہ صرف ان کے سیاسی ساتھیوں کو محسوس ہو گی بلکہ وہ عوام بھی جو ان کے برجستہ تبصروں سے محظوظ ہوتے تھے،انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں