ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا چرچہ،آئین کیا کہتا ہے؟وہ معلومات جو آپ جاننا چاہتے ہیں

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)ملک کی معاشی و سیاسی صورتحال انتہائی دگرگوں ہو چکی ہے ،مہنگائی کا طوفان آسمان سے باتیں کر رہا ہے جبکہ پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کی باتیں بھی بڑی شد و مد سے جاری ہیں ،ایسے میں دو سال کی مدت کے لئے ٹیکنو کریٹ سیٹ اَپ کے ”شگوفے “بھی چھوڑے جا رہے ہیں،وفاق میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ،پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف نے گو کہ ممکنہ ٹیکنو کریٹ سیٹ اَپ کو مسترد کردیا ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت کا آئیڈیا بہت سی سیاسی جماعتوں کیلئے فی الوقت فائدہ مند اور قابل قبول ہوسکتا ہے اس لئے یہ آئیڈیا آئندہ کچھ ہفتوں میں زیادہ سنجیدہ حیثیت میں سامنے آ سکتا ہے تاہم ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ ملکی آئین میں ٹیکنو کریٹ سیٹ اَپ کا کوئی ذکر نہیں ہے۔دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لانے کے خدشات کے اظہار کے محض چند روز بعد پی ٹی آئی رہنما اور سابق سپیکر اسد قیصر نے انکشاف کیا ہے کہ تحریک انصاف کو ٹیکنوکریٹ حکومت کی پیشکش کی گئی ہے۔
موجودہ حکومت آئندہ جلد انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کے دباﺅ میں ہے، مہنگائی کی وجہ سے موجودہ حکومت کو غیر مقبولیت کا سامنا ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں معاشی و اقتصادی حالات کی بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں،علاوہ ازیں آئی ایم ایف بجلی، گیس کے نرخوں میں اضافے کی شرائط پر زور دے رہا ہے جس کے باعث موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے آئندہ قسط لینے سے قاصر ہے۔ آئی ایم ایف سے مزید قرض نہ ملنے سے دیگر دوست ممالک بھی قرضہ دینے سے احتراز کر رہے ہیں۔اگر حکومت بجلی گیس کے نرخ بڑھاتی ہے تو عوام کی جانب سے غم و غصے میں مزید اضافہ ہو جائے گا جس کی حکومت متحمل نہیں ہو سکتی۔ اگر معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا گیا تو ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ موجود ہے ڈیفالٹ کی صورت میں موجودہ حکومت مزید بدنام ہوجائے گی اور تحریک انصاف کے ا مہنگائی کے خلاف احتجاج سے دباﺅ اور بڑھ جائے گا۔ اوپر کے حلقوں میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ کوئی سیاسی حکومت اپنی ساکھ کی خرابی کے خوف سے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی مہنگائی کرنے سے بچنے کے لئے وہ ڈیفالٹ کا خطرہ مول لے رہی ہے۔ کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت بے رحمانہ طور پر مہنگائی کرنا برداشت کرسکتی ہے ٹیکنو کریٹ حکومت کے قائم ہونے سے معاشرے میں جو عدم برداشت اور احتجاجی کیفیت بڑھتی جا رہی ہے اس کا بھی خاتمہ ہو سکتاہے تاہم ٹیکنو کریٹ حکومت قائم ہونے کیلئے کون سے قانونی تقاضے پورے کرنے ہوں گے اور یہ کیسے پورے ہونگے؟ یہ سوالیہ نشان ہے۔اگر اس آئیڈیا کو آگے بڑھایا جاتا ہے تو سنجیدہ حلقے آگے آئینگے اس بات کا بھی جائزہ لیاجائے گا کہ کونسی سیاسی جماعتیں اسکے حق اور کونسی خلاف ہونگی؟ تحریک انصاف مقدمات کے حوالے دباو میں آسکتی ہے۔ عمران خان کو آئندہ نااہلی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اس لئے ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ رہنما اس تصور کو قبول کرلیں کیونکہ فی الوقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مخاصمت کی وجہ سے ان کے مستقبل میں حالات خراب ہو سکتے ہیں یہ متعین وقفہ کچھ رہنماﺅں کیلئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔
اگرچہ اسد قیصر کا کہنا تھا کہ آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی گنجائش نہیں تاہم آئین میں قومی اسمبلی کی مدت بڑھانے کی گنجائش ضرور موجود ہے اور اگر آئین کی مذکورہ شق پر عمل کیا گیا تو الیکشن ایک برس کے لے ملتوی ہو سکتے ہیں۔آئین پاکستان کے آرٹیکل 232 میں جنگ یا اندرونی خلقشار کی بنا پر ہنگامی حالت (ایمرجنسی) نافذ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔آرٹیکل 232 کی ذیلی شق 6 میں کہا گیا ہے کہ جب ایمرجنسی نافذ کی جا چکی ہو تو پارلیمنٹ قومی اسمبلی کی مدت زیادہ سے زیادہ ایک برس تک بڑھا سکتی ہے۔ ایمرجنسی اٹھائے جانے کے بعد بھی یہ توسیع چھ ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔اسد قیصر نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں بتایا کہ تحریک انصاف کو ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کی پیشکش ان کے سامنے غیررسمی مذاکرات کے دوران کی گئی، یہ پیشکش حکومت کے ساتھ بیک گراو¿نڈ میں جاری مذاکرات کے دوران کی گئی جس میں حکومت کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لانگ ٹرم عبوری حکومت آئے، آئین میں لانگ ٹرم عبوری حکومت کی گنجائش نہیں ، یہ پروپوزل کسی صورت ہمیں قبول نہیں۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ یہ تجویز نہ تو کابینہ اور نہ ہی پارٹی میں زیر بحث آئی اور اگر آج بھی اس پر کھلے عام تبادلہ خیال ہوا تو ان سمیت کابینہ کے اراکین کہیں گے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں۔اس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ بھی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا امکان مسترد کرچکے ہیںَ۔دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر مندوخیل نے کہا ہے کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی جماعت ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کو قبول نہیں کرے گی، ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا آئین میں ہی کوئی ذکر نہیں ہے، مختلف شعبوں میں ٹیکنوکریٹس کام کررہے ہیں اور اپنی بات بھی منواتے ہیں، عمران خان کے اعلان کے باوجود میں نے کہا تھا یہ اسمبلیاں تحلیل نہیں کرینگے، کیا پرویزالٰہی نے عمران خان کو شٹ اپ کال نہیں دی تھی؟ کیا پرویزالٰہی نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہمارے 99فیصد لوگ چاہتے ہیں کہ اسمبلی تحلیل نہ ہو، ان سب باتوں کے باوجود کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ پرویزالٰہی اسمبلی تحلیل کرینگے، اسپیکر نے شواہد کی بنیاد پر11ارکان کے استعفے منظور کیے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ نگران حکومت کے علاوہ اور کوئی گجائش نہیں، ٹیکنوکریٹ حکومت کسی کی خواہش ہو سکتی ہے لیکن عملاَ ممکن نہیں ،معیشت کے لیے اقدامات آئین کے اندر رہ کر اٹھائے جا سکتے ہیں،آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں،آئین میں واضح ہے کہ وقت سے پہلے اسمبلی تحلیل پر 90 روز میں الیکشن ہوں گے۔وقت کے مطابق اسمبلی کی تحلیل پر 60 روز میں الیکشن ہوں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں