لاہور(خصوصی رپورٹ)موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ کا نام گزشتہ کئی روز سے سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے جس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں لیکن تانے بانے ایک ہی جگہ سے جا ملتے ہیں،سوشل میڈیا صارفین نے قاسم علی شاہ کو رانگ نمبر قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں لانچ کیا،قاسم علی شاہ کے خلاف پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی )کے کارکنوں کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کڑی تنقید کا سلسلہ جاری ہے تاہم دوسری طرف قاسم علی شاہ نے عمران خان سے ٹکٹ لینے کے سوال اور سیاست میں آنے کے پراپیگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں در اصل 12 کروڑ نوجوانوں کو یہ یقین دلانا چاہتا تھا کہ آپ ایک عام استاد ہو کر بھی اپنے لیڈروں سے ٹکٹ ما نگ سکتے ہیں،اس میں کو ئی شرم کی بات نہیں ہے،سیا ست عبادت ہے،سیاست گناہ تب بنتی ہے جب آپ اپنے مفا د کے لیے سیاست کرتے ہیں،سیاستدانوں سے میری ملاقاتیں کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں ہیں،نوجوانوں میں شعور بیدار کرنے کی کوششوں سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
’پاکستان ٹائم ‘ کی خصوصی رپورٹ کے مطابق چند روز قبل معروف ماہر تعلیم اور موٹیویشنل سپیکر قاسم علی شاہ اچانک سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے اور انہوں نے عمران خان کا انٹرویو کردیا،قاسم علی شاہ نے عمران خان سے سوال کیا کہ اگر وہ الیکشن لڑنا چاہیں تو کیا وہ انہیں ٹکٹ دیں گے جس پر عمران خان نے ہاں میں جواب دیا۔اس سے یہ تاثر ابھرا کہ قاسم علی شاہ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کرنیوالے ہیں اور وہ عمران خان کے پاس ٹکٹ کیلئے گئے ہیں،اگلے روز انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل کرتے ہوئے ساتھ ہی بیان داغ دیا کہ شہبازشریف میں لچک،پرویز الٰہی میں متانت اورعمران خان کے رویے میں اکڑ دیکھی،شہباز شریف پاکستان کیلئے بہت فکر مند ہیں“قاسم علی شاہ کا سوشل میڈیا پر یہ بیان وائرل ہونا تھا کہ ہر طرف سے ان پر کڑی تنقید کا سلسلہ شروع ہو گیا اور سوشل میڈیا صارفین نے قاسم علی شاہ کو’ رانگ نمبر ‘قرار دیا اور قاسم علی شاہ سے منسوب’ رانگ نمبر ‘ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔
عمران خان،وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی سے علیحدہ علیحدہ ملاقات اور اس کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمزپر ان سے متعلق اظہار رائے،اس انٹرویو کے دوران کی جانے والی ایک’عجیب‘ حرکت اور پھر اس سے متعلق وضاحتی بیان سمیت عمران خان کیلئے کی گئی باتوں کی بھی وضاحت،ان سب کے بعد بھی تنقید کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔یوٹیوب سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور مختلف فورمز پر دیے جانے والے لیکچرز سے نوجوان نسل میں مقبولیت پانے والے قاسم علی شاہ کو بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کے حامیوں کی جانب سے آڑے ہاتھوں لیا جارہا ہے کیونکہ اس ملاقات کے بعد مختلف یوٹیوبرز اور ٹی وی چینلز قاسم علی شاہ سے انٹرویوز کرنے لگے اور عمران خان سے پوچھے گئے سوالات پران کی رائے سے ایک نئی بحث نے جنم لیا۔دوران انٹرویو عاجزی کا مظاہرہ کرنے والے قاسم علی شاہ بعد ازاں کئی حوالوں سے پی ٹی آئی کے بیانیے کی مخالفت کرتے نظر آئے۔انہوں نے عمران خان کی پالیسیوں سمیت پارٹی کے فوج مخالف نظریے پر بھی خاصی تنقید کی جس کے بعد پی ٹی آئی کے حامی ٹوئٹر صارفین نے مختلف ویڈیو کلپس شیئر کرتے ہوئے شدید تحفظات کااظہار کیا۔عمران خان کے سامنے اپنے لیے انتخابی ٹکٹ کی خواہش کااظہار کرنے والے قاسم علی شاہ ایک یوٹیوبر کو انٹرویو میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی حمایت کرتے ہوئے یہ کہتے بھی نظر آئے کہ جس جماعت کے اپنے اندر انصاف نہیں،وہ کہہ رہی ہے ملک میں انصاف ہو گا۔
دوسری جانب شہباز شریف سے ملاقات کے بعد قاسم علی شاہ نے انہیں معاملہ فہم قرار دیتے ہوئے قوم کے لیے فکر مند قرار دیا۔عمران خان پر تنقید اور شہباز شریف کیلئے نرم گوشہ رکھنے پر پی ٹی آئی حامیوں نے قاسم علی شاہ کو ’نیا رانگ نمبر‘ کے لقب سے بھی نوازا۔ان سیاسی وجوہات کے علاوہ ایک وجہ ’ٹشوپیپر‘ بھی بنا جس کا خمیازہ قاسم علی شاہ کو سوشل میڈیا پراس ویڈیوکلپ کی شیئرنگ کے ساتھ ساتھ جادو ٹونے،طنز و مزاح اور جملے کسے جانے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔دوران ملاقات عمران خان سے بات کرتے ہوئے تقریباً صوفے کے کنارے پر براجمان قاسم علی شاہ نے قریب رکھی تپائی پر دھرے باکس سے ایک ٹشو نکالا اور کئی تہیں لگا کر اپنی ویسٹ کوٹ کی جیب میں ڈال لیا۔یہ حرکت مخالفین سمیت دیگر سوشل میڈیا صارفین کو بھی اچنبھے میں ڈال گئی کہ آخران کا مقصد کیا تھا؟صارفین نے تبصروں میں اس ’مقصد‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہیں انہیں ٹشو چور قرار دیا تو کئی ایک نے اس’چوری‘ کے سرے جادو ٹونے سے جا ملائے۔معاملے کی سنگینی دیکھ کر خود قاسم علی شاہ کو بھی وضاحت کرنا پڑی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا تھا؟۔سیاسی بیانات پر برہم پی ٹی آئی حامیوں نے قاسم علی شاہ کو ’بی فور اینڈ آفٹر‘ کے ترازو پر بھی خوب تولا،عمران خان سے انٹرویو کے دوران قاسم علی شاہ کا انداز نشست بھی اہم موضوع بنارہا اور کہا گیا کہ دوسروں کو اعتماد کے سبق پڑھانے کے باوجود خود ان میں صفر اعتماد ہے۔کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے اس انداز نشست کو ’چالاکی‘ سے جا ملایا۔
سوشل میڈیا پر تنقید کا یہ سلسلہ اتنا دراز ہوا کہ قاسم علی شاہ کو شکوہ کرنا پڑا کہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم تنگ کررہی ہے۔دوسری جانب پی ٹی آئی حامیوں کی ٹویٹس کا بغورجائزہ لیں تو انہیں لگتا ہے کہ قاسم علی شاہ یہ سب کسی کی ’خاص ہدایات‘ پر کر رہے ہیں اور عمران مخالف بیانات سے ان کا بیانیہ سبو تاژ کرنا چاہتے ہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل پلیٹ فارمز پر قاسم علی شاہ کوان سبسکرائب اور ان فالو ان کرنے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔موٹیویشنل سپیکر کو یوٹیوب پر 35 لاکھ اور فیس بک پر34 لاکھ سے زائد افراد فالو کرتے ہیں۔نہ جانے یہ تنقید کا اثر ہے یا کچھ اور کہ تازہ ترین انٹرویو میں قاسم علی شاہ نے خان صاحب کو اپنا لیڈر کہتے ہوئے ملک کی تقدیر بدلنے والا قراردیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا اور پھر انہیں کو دوں گا۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر قاسم علی شاہ کے حق میں بھی آوازیں بلند ہو رہی ہیں،معروف تجزیہ کار،سینئر صحافی اور کالم نگار سلمان عابد کا کہنا تھا کہ ”قاسم علی شاہ سے برادرانہ تعلق ہے۔وہ آج کل میڈیا میں کافی زیربحث ہیں۔عمران خان کے حامی یا ان کے مخالفین ان کی بہت سی باتوں کو بنیاد بنا کر ان کے خلاف مخالفانہ مہم چلارہے ہیں۔قاسم علی شاہ کا ایک نقطہ نظر ہے،ان سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اختلاف کا انداز بہتر ہونا چاہیے۔وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کیسے کرنا چاہتے ہیں؟یہ ان کا حق ہے اور ہمیں مکالمہ کو آگے بڑھانا چاہیے اور اختلاف میں شدت پسندی نہیں ہونی چاہیے۔معروف بلاگر جویریہ ساجد کا کہنا تھا کہ ”قاسم علی شاہ سے بغض کی وجہ سمجھ نہیں آتی،کچھ سالوں پہلے جس طرح ہمارے معاشرے میں سائیکاٹرسٹ کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا،جو لوگ سائیکاٹرسٹ کے پاس علاج کروانے جاتے ہیں،انہیں اب بھی پاگل کہا جاتا ہے۔نتیجتاً پوری قوم نفسیاتی مریض بن گئی ہے،نا نفسیات کو کوئی اہمیت دیتا ھے نا نفسیاتی بیماریوں کو بیماری سمجھا جاتا ھے۔جو چند ایک لوگ علاج کرواتے ہیں وہ چھپ کے سائیکاٹرسٹ کے پاس جاتے ہیں اور لوگوں کو بتانے سے گھبراتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہمارے معاشرے میں ہر شخص کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے،کوئی غصے میں پاگل ہے،کوئی حسد میں،کوئی خوف میں،کوئی اعتماد کی کمی کا شکار ہے،کوئی زیادتی کا،کوئی احساس کمتری میں مبتلا ہے،کوئی برتری میں،کوئی ناکامی کے خوف میں مبتلا ہے،کوئی کامیاب لوگوں کے فوبیا میں،کوئی بھی نارمل نہیں ہے۔بالکل اسی طرح اب باری موٹیویشنل سپیکرز کی ہے۔قاسم علی شاہ سے خاص پرابلم ہے،مجھے اس بغض کی وجہ سمجھ نہیں آتی۔قاسم علی شاہ کروڑوں کما رہا ھے تو کیا کسی کی جیب سے نکال کے بھاگ رہا ہے۔چلیں وہ آپ کو نہیں پسند،آپ نا جائیں اس کے پاس مگر جو جا رہے ہیں انہیں کوئی فائدہ ہے تو جا رہے ہیں،کوئی مثبت پیغام مل رہا ہے تو پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔آپ کا پیسہ تو ضائع نہیں ہو رہا نا،آپ کی دولت تو محفوظ ہے تو مسئلہ کیا ہے؟اب نیا مسئلہ کہ قاسم علی شاہ سیاست میں کیوں جا رہا،ایک اودھم مچا رکھا ہے،کوئی عامر لیاقت سے تشبیہ دے رہا ہے،کوئی کسی سے۔بھئی بالفرض اگر وہ سیاست میں جا بھی رہے ہیں تو آپ کو کیا مسئلہ ہے؟ان کی مرضی جو مرضی پارٹی جوائن کریں؟ان کی مرضی عمران خان سے ملیں یا زرداری سے یا حمزہ سے؟آپ کو حق کس نے دیا ہے کہ آپ خوامخواہ فارغ بیٹھے دوسروں کی ذاتی زندگی پہ تنقید کریں؟ کیا سیاست میں جانے کا حق صرف چوروں کا ہے یا جدی پشتی رئیسوں کا؟یا نسل در نسل چلنے والے سیاستدانوں کا؟اگر قاسم علی شاہ سیاست میں جا بھی رہے ہیں تو آپ کو ڈر کیا ہے؟دراصل آپ کو کامیاب لوگوں کا فوبیا ہے۔کامیاب لوگوں سے چڑ ہے۔آپ کو پتا ہے یہی فرق ہے آپ میں اور ان میں کہ انہوں نے اپنی زندگی کو با مقصد بنایا ہے اور اپنے کام سے کام رکھا ہے دوسروں پہ اعتراضات کا وقت ہی نہیں ان کے پاس اور آپ کے پاس۔۔۔۔۔؟صرف فوبیا ہے۔