تحریر:محمد عاصم حفیظ پاکستان کےلئے عرب ممالک ہمیشہ سے اہم ترین رہے ہیں ۔ چونکہ یہ مسلمان ممالک ہیں ۔ وجوہات بڑی واضح اور سادہ ہیں ۔ پچاس لاکھ کے قریب پاکستانی وہاں رہتے اور کما کر پاکستان بھیجتے ہیں ۔ ہر مشکل وقت میں ان ممالک نے بے لوث مدد کی ۔ قطر ۔ سعودیہ ۔ کویت ۔ بحرین سمیت دیگر ممالک کے دفاع میں پاک فوج عملی کردار ادا کرتی رہی ہے ۔ حکومتی و سرکاری کے علاؤہ پرائیویٹ ۔ فلاحی اداروں اور تنظیموں کی سطح پر بھی ان ممالک سے اربوں کے فنڈز آتے۔ لیکن پاکستان کی بڑی مشکل یہ تھی کہ تمام عرب ممالک مکمل طور پر امریکی بلاک کا حصہ تھے ۔ پاکستان کے لئے چین کی اہمیت عرب ممالک سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ۔ چین جب سے معاشی سپر پاور بنا اور علاقائی اثرورسوخ بڑھایا ہے ۔ پاکستان کا مستقبل اس سے جڑا ہے پنگا یہ تھا کہ جیسے ہی پاکستان چین کے زیادہ قریب ہوتا ۔ سی پیک شروع کیا گیا تو امریکہ عرب ممالک سے پریشر ڈالنے کو کہتا ۔ خود عرب ممالک بھی سی پیک سے خوش نہیں تھے گوادر آباد ہونے کا مطلب دبئی کی تجارت میں کمی ہے ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اسی کشمکش میں پھنس کر رہ جاتی ۔ تعلقات کو بیلنس کرنا مشکل ہوتا ۔ اب صورتحال بدلی ہے ۔عرب ممالک اور چین کے ایک ہی بلاک بنانے سے ۔ یہ پاکستان کے لئے امید کی کرن ہے ۔ دوسرا بڑا پنگا ایران اور سعودیہ کشمکش تھی ۔ دونوں کی کسی نہ کسی ملک میں بلواسطہ لڑائی رہتی ۔ کبھی شام ۔ کبھی یمن حتی کہ پاکستان کے اندر بھی ۔پاکستان میں دونوں بڑے مکتب فکر اثرورسوخ رکھتے ہیں ۔ پاکستان کے لئے ایران سعودیہ تعلقات میں بیلنس رکھنا بھی ایک بڑا مسئلہ تھا ۔ شکر ہے اب دونوں کی چین نے صلح کرائی ہے ۔ پاکستان کے لئے یہ امید کی دوسری کرن ہے۔ آج ہی وزیراعظم شہباز شریف نے ایرانی صدر سے بات کی ہے ۔ سعودیہ کی ترکی ۔ قطر اور ملائیشیا سے کشمکش بھی پاکستان کے لئے بہت بڑا پنگا تھا ۔ گزشتہ سالوں میں تو اخیر ہی ہو گئی ۔ پاکستان کو ملائشیا کانفرنس تک سے عرب ممالک نے روکا ۔ ترکی نے میٹرو اور چند پراجیکٹ مکمل کئے تو عرب ممالک الگ ناراض ۔ تیسری امید کی کرن یہی ہے کہ سعودیہ کے ترکی ۔ قطر اور ملائیشیا سے تعلقات بھی بحال ہو چکے ہیں ۔ ہمارے سر سے یہ مصیبت بھی ٹل چکی ہے ایک بڑا مسئلہ روس کے ساتھ تعلقات کا بھی تھا ۔ پاکستان نے امریکی بلاک کا حصہ بن کر روس سے لڑائی کی ۔ روس بھارت کا اتحادی تھا ۔ پاکستان روس سے سستے تیل و گندم سمیت کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا ۔ یہ معاملہ بھی سیدھا ہو چکا ہے ۔ چین کی مدد سے پاکستان اب روس کے قریب ہو رہا ہے ۔ آج ہی روس کے ساتھ اعلی سطحی ملاقاتیں ہوئی ہیں ۔ سستے تیل پر پیش رفت ہوئی ہے ۔اس حوالے سے امریکی ۔ عرب پریشر اب موجود ہی نہیں ہے ۔ سی پیک کے روٹ اور تعطل کا شکار منصوبے بحال ہو رہے ہیں ۔ اب ذرا تصور کریں کہ چین کا ون بیلٹ منصوبہ کس شکل کا ہو گا ۔ ایک اور بڑا پنگا افغان جنگ اور امریکہ کی موجودگی تھی اب کیا پاکستان امریکہ اور مغربی ممالک سے لڑنے جا رہا ہے ۔ ہرگز ایسا نہیں ۔ کسی بلاک میں شامل ہونے کا مطلب ترجیحات ہوتی ہیں ۔ دشمنی نہیں ۔ سب اپنا اپنا مفاد دیکھتے ہیں ۔ دراصل افغان جنگ کے بعد امریکہ کی پاکستان اور اس خطے میں دلچسپی ویسے ہی انتہائی کم ہو چکی ہے ۔۔اور یہ بھی امید کی ایک اور کرن ہے ۔ ایک ذرا ناگوار لیکن حقیقت پاک بھارت کشیدگی اور اس میں امریکی کردار تھا ۔ امریکہ کو اسلحہ بیچنا ہوتا ہے وہ کبھی امن نہیں ہونے دیتا ۔ چین کی پالیسی دوسری ہے ۔ اسے تجارت کرنی ہوتی ہے سب کے ساتھ ۔ شائد کچھ لوگوں کو اچھا نہ لگے لیکن حقیقت یہی ہے کہ اب یہ والا معاملہ بھی حل کر لیا گیا ہے ۔ کوئی ذمہ داری نہیں لے گا لیکن حقیقت یہی ہے کہ چین اب پاک بھارت جنگ نہیں ہونے دے گا ۔ آزاد کشمیر گلگت اور قریبی پاکستانی علاقوں میں چین کی ایک سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہے ۔ سی پیک کے روٹ ہیں ۔ چین اپنی سرمایہ کاری ڈوبنے نہیں دے گا ۔ بھارت کے ساتھ سینکڑوں ارب کی تجارت ہے۔ اس لئے اب اس حوالے سے بھی مطمئن ہی رہیں بلکہ عنقریب زمینی راستے کی تجارت شروع ہونے کا انتظار کریں ۔ پاکستان ایک زبردست جغرافیائی اہمیت رکھتا ہے ۔ چین کے لئے تجارت کے بہت سے راستے یہاں سے گزریں گے ۔بھارت کی دو ارب کی منڈی ۔ افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے ۔ پاکستان ۔ ایران ۔ عراق سے سعودیہ کا روڈ ۔ پاکستان سے افغانستان کے راستے روس تک رسائی ۔ چین کی یورپ کے لیے تجارت بذریعہ گوادر ۔ کیا آپ کو پتہ ہے چین کے اندر کئی علاقے اس قدر فاصلے پر ہیں کہ بحری راستے سے گوادر کے ذریعے مال پہنچانا آسان اور تیز ترین ہے ۔ سی پیک کا مغربی روٹ یہی ہے ۔ جب سی پیک شروع ہوا تھا تو جاپان تک اس میں دلچسپی لے رہے تھے ۔ . ساری دنیا کو اپنا مال بیچنا ہے ۔ گوادر سے آگے زمینی راستے ۔ وسطی ایشیا ۔ روس تک ۔ جہاں کوئی گرم ساحل نہیں ہے ۔ پاکستان کے لئے امید کی کئی کرنیں روشن ہوئی ہیں ۔ اب ان سے فائدہ اٹھانا حکومت و عوام کا فرض ہے ۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہے کہ یہ قیمتی وقت اور مواقع آپس میں لڑنے جھگڑنے میں ضائع کرنے ہیں یا ان سے مستفید ہونا ہے ۔
