عوام کے دل سے فوج کی محبت اور دشمن کے دل سے پاک فوج کا خوف کوئی ختم نہیں کرسکے گا

تحریر:بیرسٹر امجد ملک
حضرت ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہاں بھی رہو اللہ سے ڈرو،برائی کے بعد بھلائی کرو جو برائی کو مٹا دے، اور لوگوں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آو(جامع ترمذی)
عمران خان آناً فانا گرفتار بھی ہوئے اور رہا بھی لیکن نتیجے میں ایک منظم دراندازی کے زریعے پاکستان اربوں کا نقصان اٹھا رہا ہے۔سنجیدہ لوگ دم بخود ہیں اور سنجیدہ ترین عمران کو الیکشن تک ریسٹ دینے کے حق میں۔عموماً ضمانتوں کا مرحلہ ٹرائل کورٹ کو بھیجا جاتا ہے۔۔۔۔اس میں ہائیکورٹ مداخلت نہیں کرتی۔۔۔۔خصوصا نیب کے کیسز میں کسی کو کسی بھی قسم کی مراعات نہیں ملتی جیسے نواز شریف کو نہیں ملی لیکن اب جو ہورہا۔۔۔اسکو قانونی تناظر میں برداشت کرنا اور تشریح کرنا مشکل ہے لیکن یہ پاکستان ہے،یہاں پانامہ میں اقامہ نکلتے دیکھا ہے۔۔۔۔مانیٹرنگ جج بنتے اور انکے نیچے ٹرائل جج بلیک میل ہوتے دیکھے ہیں۔۔۔ظفرعلی شاہ کیس میں جج آئین میں ترمیم کی اجازت دیتے دیکھے ہیں اور تو اور ماضی قریب میں آرٹیکل 63 اے کیس میں ججز کو آئین کی تشریف کیساتھ ساتھ توسیع کرتے بھی دیکھا ہے۔۔۔پولیس کی حراست میں عمران کو فون کی سہولت دیکھی ہے اور سابق وزیر اعظم نواز شریف نے کئی دفعہ کہا کہ انہیں مرحومہ کلثوم نواز سے بات کرنے دی جائے لیکن آخری وقت میں بھی اجازت نہ ملی۔۔۔اوپر سے حکم تھا۔ماضی قریب میں عمران خان نے بطور وزیر اعظم پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے کی پشت پر سوار ہو کر اپوزیشن کے کسی مضبوط لیڈر کو جیل سے باہر نہیں چھوڑا،پولرائزیشن اور اپوزیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دیا۔آج اسکا وہی گھوڑا واپس دولتی مار رہاہے۔۔۔۔عمران خان انصاف اور منصفانہ سلوک اور منصفانہ ٹرائل کے مستحق ہیں لیکن عمران خان نے کبھی اپنے مخالفین کے ساتھ منصفانہ سلوک نہیں کیا اور انہیں وہ فیئر ٹرائل کی پیشکش نہیں کی جسکے وہ اب امیدوار ہیں۔انکے حسن سلوک کی بدولت اب کوئی ان کے لیے سنجیدگی سے آواز نہیں اٹھا رہا۔تلخ سبق یہی ہے کہ یہ مکافات عمل ہے۔۔جیسی کرنی ویسے بھرنی۔کرسی آنی جانی ہے۔۔۔ بس رہے نام اللہ کا جو اصل اقتدار کا مالک ہے۔۔بس اس سے ڈرنا چاہیے۔
عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل فطری کی بجائے منظم جوابی کارروائی ہے جس کی تیاری مہینوں سے جاری تھی۔۔۔۔ ہم عمران خان کی گرفتاری پر تحریک انصاف کے کارکنوں/حمایتیوں کی جانب سے پر تشدد ردعمل کی مذمت کرتے ہیں اور قومی اثاثوں،ورثے، یادگاروں اور آرمی کی رہائش گاہوں پر حملے میں ملوث سرپرستوں،مجرموں،اکسانے والوں اور سہولت کار بننے والوں کےخلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موثرکاروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔مسلح افوج کے خلاف یہ سیاسی جماعت کی اس منظم کمپئن کی مذمت اور حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔۔۔۔قانون کو حرکت میں آنا چاہئے اور عدالتوں کو موقع کی مناسبت سے ایکشن لینا چاہئیے۔۔۔اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔۔۔۔شر پسند عناصر کو ملکی ملکیت کو تباہ کرنے کی آزادی دینا عالمی سطح پر غلط اشارہ دے گی۔۔۔۔جو کوئی بھی سیاسی مفادات کی خاطر پر تشدد رویہ کے ذریعے لا اینڈ آرڈر کی صورت حال بناتا ہے وہ سرزمین پاکستان کے خلاف آلہ کار ہے،خواہ وہ انفرادی سطح پر ہو۔۔۔سیاسی جماعت کی جانب سے ہو یا کسی ریاستی ادارے یا مسلح جتھے یا گروہ کی جانب سے ہو۔۔۔کیونکہ بہر صورت نقصان ریاست پاکستان کا ہے۔۔۔۔بالآخر سب کو ریاستی قانون کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے ہیں۔۔۔۔اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو مسلم لیگ ن نے بطور اپوزیشن جس طرح بہادری سے عمران انتظامیہ کے ظلم و ستم کا سامنا کیا تھا وہ قابل تعریف ہے۔۔۔۔نیب متاثرین مہینوں تک بغیر ضمانت کے انصاف کی چکی میں پستے رہے۔۔۔عوامی سطح پر ان کا مذاق اڑایا گیا۔۔۔کسی بھی لیڈر نے اپنی سیاسی جماعت سے انحراف نہیں کیا۔۔۔۔یہ لاقانونیت کے خلاف مزاحمت جمہوریت کو مضبوط کرے گی۔۔۔۔پولرائزیشن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔۔۔۔ناتجربہ کار عمران خان اور ان کے ہوس پرست ساتھیوں کی وجہ سے ملک کو اس غیر مستحکم سیاسی صورتحال اور معاشی بدحالی کا سامنا ہے۔۔۔جس میں پاکستان کو ایک نئی شروعات کی ضرورت ہے۔۔۔آئی ایم ایف اب تک ماننے کیلئے تیار نہیں ہے کیونکہ انکا بھروسہ اور یقین توڑا گیا ہے اور عالمی طاقتیں پاکستان کو بغور دیکھ رہی ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟؟؟۔
عمران خان کے پیروکاروں کو سکون کا مظاہرہ کر کے عدالتوں سے ضمانت کے لیئے رجوع کرنا چاہئیے تھا۔۔۔جیسا کہ وہ ماضی میں گرفتار ہونے والے اپوزیشن لیڈرز کو مشورہ دیتے تھے۔۔۔بظاہر عدالتیں آزاد ہیں۔۔۔۔اگر ٹرائل کورٹس نہیں سنتیں تو اعلیٰ عدلیہ موجود ہے۔۔۔۔سینئر ججز پاناما لیکس کے دوران کرپشن کے خلاف متواتر فیصلے دیتے آئے ہیں۔۔۔۔عمران پیش تو ہوئے لیکن آدھا ملک آگ میں لپیٹ کر۔مائی لارڈ چیف جسٹس گویا ہوئے کہ” کوئی پتھر سے نہ مارے،میرے دیوانے کو“۔ بلوائی کو دیکھ کر خوش ہونے والے چیف جسٹس کو ان مدینہ کی ریاست بنانے کے دعوے کرنے والوں کے کارنامے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی کا دور حکومت یاد رکھنا چاہیے۔۔۔۔قاضی کا کیا کام کہ وہ ملزم کو دیکھ کر اپنی بتیسی اندر نہ رکھ سکے ۔۔۔۔تعظیم میں کھڑا ہو یا سہولت کار بنے۔۔۔۔ اس لیئے پاکستان عالمی سطح انصاف میں نیچے ہے۔۔ جب کسی قوم پر اللہ کا عذابِ نازل ہونا ہوتا ہے تو اس معاشرے سے عدل و انصاف اٹھا لیا جاتا ہے۔۔۔۔عام شہری اور خاص شہری کے لئے انصاف کے دوہرے معیار اور منصفوں کا انوکھا برتاو ہوتا ہے مگر اسے ہی منصف اعلی اللہ کریم ان کے چہروں سے نقاب الٹ کر رسوائیاں ان کا مقددر کر دیتا ہے۔۔۔۔انصاف کا عنقا ہونا معاشرے میں عذاب کی نشانی ہے۔۔۔۔ اگر یہ ہماری حکمرانی کے امیدوار یا دعویدار ہیں اور مدینہ کی ریاست کے قیام کے خواہاں ہیں تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔۔۔ہمارے نبی کریم ﷺ نے تو فتح مکہ کے وقت دشمن کے گھر پناہ لینے والے کو بھی معاف فرمایا تھا۔ایک گملا نہیں ٹوٹا تھا اور تدبیر سے اپنے دشمن کو زیر کرلیا تھا۔۔۔۔یہ کون لوگ ہیں جو اپنے ہی گھر کونظر آتش کر رہے ہیں اور کوئی رنج پچھتاوا اور دکھ تک نہیں۔۔۔۔چیزیں بنانے میں وقت لگتا ہے تباہ کرنے میں لمحہ نہیں لگتا۔۔۔اسکا احساس اسی کو ہوتا ہے جس نے ملک بنانے میں کوئی کردار ادا کیا ہو ۔۔۔تباہ کرنے کیلئے ارد گرد گھات لگائے امیدوار بہت ہیں۔۔۔۔
کور کمانڈر لاہور کے گھر گھس کر دراندازی کرنے والے تمام غنڈوں اور پاکستانی تنصیبات اور فخریہ نشان کوجلانے گرانے اور اکھاڑ پچھاڑ کر کے تباہ کرنے والے ظالموں کو انکی اس دہشت گردی پر جیو فینسنگ کے ذریعے پکڑنا چاہیے اور ملٹری کورٹ میں اوپن ٹرائل چلنے چاہیے۔ چھ ماہ میں قرار واقعی سزا دینی چاہیے۔۔۔۔انکے سپانسرز،سہولت کار،ماسٹرز مائنڈز کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔۔۔۔یہ اکیلا کور کمانڈر کے گھر پر حملہ نہیں،یہ فوج اور عوام کے درمیان عدم اعتماد پیدا کرنے کا عمل ہے تاکہ کل کو فوج کو گرانے میں لوگ باہرکی بجائے اندر سے لائے جائیں۔۔۔۔بھارت کو اس اقدام پر خوش کر کے کس کی خدمت کی گئی ہے؟؟؟ریاست اس قسم کے اقدام پر گرینڈ سیاسی جرگے کا بندوبست کرے۔۔۔۔ 9 مئی کا واقعہ 16 دسمبر کی سانحے کی طرز پر سرمایہ کاری ہے۔۔۔۔مشتری ہوشیار باش۔دشمن ملک کے حصے بجزے بانٹ کے بیٹھا ہے۔۔۔۔عوام فوج اور ریاست آنکھیں کھولیں اور گرینڈ سکیم کو سمجھیں۔۔۔۔عوام کے دل سے فوج کی محبت اور دشمن کے دل سے پاک فوج کا خوف کوئی ختم نہیں کرسکے گا انشااللہ۔

جب پارلیمنٹ غیر فعال ہوتی ہے تو تمام غیر آئینی طرز عمل اور ادارے پہلے سے طے شدہ منشور پر متحرک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔اس کا حل صرف پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ سب وہ کرے جو اسکا دائرہ اختیار ہے،چاہے وہ انتخابات کی تاریخ دینا ہو جو کہ خالصتاً ایک سیاسی سوال ہے،کسی بھی تصفیے یا کھیل کی شرائط کے لیے سیاسی مکالمہ کرنا ہو، مستقبل کے لیے قوم کو سمت دینا ہو،قانون سازی کو فعال بنانا ہو یا عدالتی اور آئینی تقرریاں اور احتساب کا معاملہ ہو۔ہر سوال کا جواب پارلیمنٹ کے پاس ہے جسکے پاس حل کی کنجی ہے۔۔۔اب پی ٹی آئی سربراہ کے مطابق سابق آرمی چیف(جنرل باجوہ)تمام برائیوں کی ماں ہیں۔وہ اپنی انتظامیہ میں ماضی کے تمام گناہوں اور برائیوں کا ذمہ دار سابقہ آرمی چیف کو گردانتے ہیں۔بادی النظر میں سابق وزیر اعظم انکے تمام مشورے سن رہا تھا اور محض ایک کٹھ پتلی کی طرح رسی کے کھچاو پر مطلوبہ کرتب دکھاتا تھا،حالانکہ یقین کرنا مشکل تھا اور مشکل ہے۔۔۔۔ان حروں کی فوج کو سلام جواسکی ہر چیز کو آنکھیں بند کرکے قبول اور مقبول کرتے ہیں۔۔۔۔اگرچہ،سکے کا رخ بدل گیا ہے لیکن اب تک پالیسی ایک ہی نظر آتی ہے،عدلیہ وہی کرتی ہے جو ملٹری اسٹیبلشمنٹ 1973 کے آئین کے آغاز کے بعد سے کھلے عام نہیں کر سکتی یا(نظریہ ضرورت) کا اعتراف نہیں کر سکی۔۔۔۔

پی ڈی ایم یا تو بلف زدہ ہے یا وہ خود کو بیوقوف بنا رہے ہیں۔۔۔۔ان کا انتخابی ستارہ ملک سے باہر ہے اور ان کے بغیر انتخابات اپوزیشن لیڈر اور 3 سابق انٹیلی جنس چیفس کے لیے فری کا میلہ ثابت ہوں گے جو پچھلے کچھ سالوں سے بے لگام جوکر کی سرکس چلا رہے ہیں۔۔۔۔چند ریٹائرڈ لاء لارڈز بھی ان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔گڈ پولیس بری پولیس ایکشن میں ہے۔قوم اور سیاسی قائدین کو طویل سفر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔۔۔۔مغربی میڈیا دکھا رہا ہے کہ عمران خان مسیحا سنڈروم کے قہر میں مبتلا ہیں۔حالانکہ وہ اسٹیبلشمنٹ مخالف نعرہ چرا کر مقبولیت کے بلند گھوڑے پر سوار ہے۔۔۔۔انہوں نے افراتفری اور بدحالی چھوڑ دی۔۔۔۔اب عملیت پسندی اور حقیقت پسندی پاکستان کے لیے آخری امید ہے۔۔۔۔نواز شریف کا دیرینہ وژن پاکستان کوجنوب مشرقی ایشیا میں صنعت و تجارت کا مرکز بنا کر وسطی ایشیا اور عالمی معیشت سے جوڑنا ہے،یہی راستہ ہے۔۔۔آگے جنوبی ایشیا مواقع کے لیے ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ ہے اور ذہنوں کی ایک مکمل جنگ کے لیے لکیریں کھینچی جا رہی ہیں۔۔۔۔

اب تمام اور متفرق افراد نقصان پر قابو پانے کی مشق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور سی پیک اور تاپی پاکستان کی معیشت کو آگے بڑھانے کے راستے کے طور پر ایک بار پھر کارڈ پر ہے لیکن اس موٹی بلی کو کون گھنٹی لگائے گا جو اپنی سیاہ سرمایہ کاری کو بچانے کی کوشش میں آنکھوں پرپٹی باندھے ہوئے ہے۔۔۔۔عمران کا ملٹی ملین پاونڈ سوشل میڈیا مغربی ذہنیت، فلسفے اور تجربے سے گونج رہا ہے۔۔۔۔وہ گوئبلز کے وضع کردہ سنہری اصول پر عمل پیرا اتنی ثابت قدمی سےجھوٹ بولتے ہیں کہ سچ لگنے لگتا ہے۔۔۔۔گوئبلز کے. نظریے کی روح پاک سر زمین میں عملی طور پر نظر آ رہی ہے۔۔۔۔۔سیاسی رہنماوں کو اعلیٰ سطح کے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے تین سٹیجز میں تربیت حاصل کرنی چاہیے۔۔۔۔آپ کم وسائل،ناکافی نمائش اور تجربے کے فقدان کے ساتھ دلدل میں جیت نہیں سکتے۔۔۔۔

اگر اس تجربے کی کمی ہے،تو یہ کسی بھی دن،کسی بھی وقت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔بے نظیر بھٹو اور سینئر بھٹو انگلش کالم نگاروں کو بھی انفرادی طور پر وقت دینے کا شعور رکھتے تھے۔۔۔۔میرے نزدیک انٹرویو کرنے والے موضوعات پر سوالات کی فہرست ایک اچھا آغاز ہے اور اس پر تحقیق لازمی ہے۔میڈیا کے معاونین کو اچھی طرح سے مہارت اور کام کے لیے موزوں ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔آج کل لوگ مد مقابل کو شکست دینے کے لیے کلاس کے سب سے ٹاپر کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔۔۔ دنیا تیز رفتاری سے اپنی سمت تبدیل کر رہی ہے۔۔۔۔پاکستان آج بھی جمود کا شکار ہے۔۔۔

پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کسی عنقریب پھٹنے والے بم سے کم نہیں۔۔۔۔پاکستان کی 50 فیصد سے ذیادہ آبادی جو کہ خواتین ہیں کمزور ایجنسی کی وجہ سے اپنے فیصلے کرنے میں خود مختارنہیں۔۔۔۔ یہاں کے قانون، کلچر اور خواتین کے معاملات میں مذہب کی غلط اور من پسند تشریح کی وجہ سے فیملی پلاننگ اور فیملی کنٹرول جیسے اہم معاملات آج تک حل طلب ہیں۔۔۔ جس کا نتیجہ 1.4 ملین ناپسندیدہ پیدائشیں، 2.2 ملین ابارشن اور اس سے بھی کہیں ذیادہ تعداد میں زچگی کے دوران اموات ہیں۔۔۔آج بھی ہم اپنی ریاست کی معیشت کی طرح وسائل کی کمی،پرفارمنس کی کمی اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔۔۔۔ہمیں اس خاموشی سے رینگتے ہوئے ٹیومر کو آپریشن کے ذریعے ختم کرنے کے لئے خدائی مداخلت کی ضرورت ہے۔۔۔اور اللہ انھی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔۔۔۔

سیاست میں مذاکرات کا آپشن ہمیشہ موجود ہوتا ہے،سیاسی تصفیہ کے لیے مذاکرات کے لیے یا الیکشن کرانے کے لیے فوجی لاٹھی یا عدالتی حکم کی ضرورت نہیں ہوتی۔۔۔۔ براہ راست یا بالواسطہ طور پر ریاست کی خاطر بامقصد بات چیت ہونی چاہیے۔۔۔۔ اس مقصد کےلیے پارلیمنٹ/کمیٹیاں موجود ہیں۔۔۔۔۔قومی حکمت عملی اور اپروچ کو ہموار کرنے کے لیے اپوزیشن سے رجوع کرنے کو کبھی نہ نہ کہیں۔یہ مجھے تجربہ کار سیاستدان مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان کی یاد دلاتا ہے جنہوں نے کبھی بھی انا اور سیاسی انتقام کو بامعنی سیاسی مکالمے کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔میں جنرل ضیاء کی طرز کی مداخلت کی سن گن لے رہا ہوں کیونکہ موجودہ سیاسی قیادت پرانی اور غیر موثر ہے اورٹاپ گھوڑا ابھی غیر معلوم اور تازہ دم ہے اور پی ڈی ایم کے پاس پارلیمنٹ اور سڑکوں کے ذریعے عمران خان کی حمایت یافتہ قوتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت، وسائل اور عزم کا فقدان ہے۔۔۔۔

یہ صورت حال نواز شریف کے پاکستان آنے تک جوں کی توں رہتی نظر آتی ہے۔۔۔۔پاکستان کو شہباز شریف جیسے ذہین چیف ایگزیکٹیوکی سربراہی میں جمہوری نظام کی طویل مدت کی ضرورت ہے۔۔۔جہاں نوجوان لیڈرشپ کو دوران ملازمت تربیت دی جاتی ہے۔۔۔جیسا کہ یہ اس وقت جاری ہے۔بے نظیر بھٹو کی افسوسناک رخصتی سے طویل مدتی سیاسی تقسیم اور ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ جیسے معاہدے پر کام رک گیا تھا۔۔۔اس میں سبق ہے۔کیا عمران خان ان لیڈران کی پیش رفت کو روک سکتے ہیں؟یہ سوال نہیں ہے،کیا “اصل طاقتور” سٹیک ہولڈرز” سیاست دان کو گلی دے سکتے ہیں جب کہ ڈنڈا انکے ہاتھ میں ہو؟یہ صحیح سوال ہے جو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔۔۔اگلے چند ہفتے اور مہینے دلچسپ ہوں گے کیونکہ ہم ہر دس سال بعد اسی پرانی کہانی کو دہراتے ہیں۔۔۔۔وہی پرانی بیان بازی،وہی پرانی قومی سلامتی کے تقاضے،خالی پیٹ اور خزانہ،جنوبی ایشیا ایک بڑی سرگرمی کے لئے تیار ہورہا ہے اور جمہوریت کی وہی پرانی خواہش۔ احتیاط سے آگے بڑھیں،خریدار ہوشیار رہیں،کیوں کہ کھیل جاری ہے۔پاکستان مسلم لیگ ن ایک ذمہ دار پارٹی ہے،مسلم لیگ ن کو جب بھی اقتدار ملا بد سے بد تر حالات میں ملا الحمد اللہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ ڈیلیور کیا ہے۔ پچھلے چند دنوں کے واقعات سے لیگی بھائیوں میں بہت غم وغصہ پایا جاتا ہے۔میرے خیال میں مستقبل کی پیش بینی اور اقدامات کی اب ضرورت ہے۔اگلا الیکشن پارلیمان کی بالادستی،رول آف لاء دو نہیں سب کے لئے ایک انصاف کا معیار پر ہونا چاہیے، 175a 184 اور 209 میں نیوکلیائی تبدیلیاں لیکر آئیں وگر نہ متوازی حکومت کا یہ نظام کسی بھی حکومت کو چلنے نہیں دے گا پاکستانی حوصلہ رکھیں سیاسی قیادت انشا اللہ ہم سب کو مایوس نہیں کرے گی۔ناامیدی ویسے بھی گناہ ہے۔ بے شک ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔ پاکستان ایک جمہوری مسلمان طاقت کے طور پر آگے بڑھتا جائے گا۔
(امجد ملک ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز (برطانیہ) کے چیئر مین ہیں جو سال 2000 کے انسانی حقوق کے نوجوان وکیل ایوارڑ کے وصول کنندہ ہیں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعزازی رکن ہیں)
نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز مضمون نگار کی نگارشات سے متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں