آزادی صحافت کے واویلے کی حقیقت

ڈاکٹر تنویر قاسم
اس پر فتن دور میں دیگر فتنوں کی طرح شتر بے مہار صحافت نے ایک المیے کو جنم دیا ہے۔ صحافتی اقدار سے آگاہی کے بغیر بس انٹرنیٹ آن کرکے براہِ راست نشریات شروع کر دینے کے نتائج قوم کے سامنے ہیں۔پہلے ذو معنی گفتگو تھیٹر پر ہوتی تھی ۔اب اس کا دائرہ کار سیاستدان اوربعض مذہبی انٹر ٹینر سے ہوتا ہوا یو ٹیوبرز تک پھیل گیا ہے۔جس کے نتیجے میں ملک میں منفی اور نفرت انگیز رجحانات مسلسل بڑھتے جار رہے ہیں۔
ایسے میں اگر ریاست اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے اس طرح کی نقصان دہ چیزوں کو محدود رکھنے کی کوشش کرتی ہے، تو ”آزادیَ صحافت“ کا واویلا شروع کر دیا جاتا ہے۔ پھر اپوزیشن جماعتیں بھی اس طرح کے اہم فیصلوں کو محض سیاسی فوائد کی خاطر مسترد کر دیتی ہیں۔ نتیجتاً ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے والے بے لگام گھوڑے کی طرح نکل پڑتے ہیں۔
اب آپ خود ہی بتائیں کسی ایڈیٹر اِن چیف کے بغیر کسی ایڈیٹر یا سب ایڈیٹر کے بغیر کسی نیوز ایڈیٹر کے کسی یو ٹیوب چینل یا سوشل میڈیائی صفحہ پر اپنے من مرضی کا مواد نشر کرنا اور ذاتی عناد کی خاطر کسی کی پگڑی اچھالنا کہاں کی آزادیِ اظہار رائے ہے؟
کیا یہ صحافتی اصولوں کی پامالی اور ریاست کے چوتھے ستون کی مسماری خود اپنے ہاتھوں کے مترادف نہیں ہے؟کیا صحافتی تنظیموں اور میڈیا ہاؤسز کو ساتھ بٹھا کر سوشل میڈیا کا کوئی ایسا ایکٹ لانا ناگزیر نہیں جو صحافت اور آزادیِ رائے کو مزید نقصان سے بچائے اور مملکتِ خداداد کا بھرم بھی رہے؟
جمیل فاروقی سے میری ایک ملاقات ہوئی جب وہ چند سال قبل یوای ٹی میں ایک سیمینار میں دیگر صحافیوں کے ساتھ بطور اینکر مدعو تھے۔اور یوای ٹی میڈیا سوساٸٹی میزبان تھی۔تب وہ سوشل میڈیا پر اتنے پاپولر نہیں تھے۔
عام پاکستانی شہری کے طور پر میرا احساس ہے کہ قوانین کی پابندی قومی اداروں کا احترام ہر ایک پر واجب ہے۔وہ انفرادی حیثیت سے ہو یا ادارہ جاتی سطح پر۔ جمیل فاروقی باصلاحیت اینکر ہیں۔ان سمیت کوئی بھی صحافی قواعد وضوابط سے بالاتر نہیں تاہم ان سمیت جب بھی کسی صحافی کی شامت آتی ہے تو ان کے ساتھ اداروں کا سلوک قانونی اوراخلاقی حدود پار کرتا نظر آتا ہے۔یہ قابل مذمت ہے۔وہ مطیع اللہ جان ہو حامد میر ہو ۔طلعت حسین ہو ۔عمران ریاض ہو یا جمیل فاروقی ۔سزا کی بھی اپنی اخلاقیات ہوتی ہیں۔اس کی پاسداری اداروں پرفرض ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں