علامہ اقبال کا خواب ایسا تو نہ تھا

تحریر:نعیم الرحمن مرزا مانچسٹر


چند یوم قبل حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی عوام کے سامنے رکھی۔۔۔۔کاش اس کارکردگی میں او پی ایف اور او پی سی کی کارکردگی بھی شامل کر لی جاتی تو دیار غیر میں بسنے والے تارکین وطن مطمئن ہو جاتے۔۔۔ایک کروڑ سے زائد تارکین وطن کو جنہیں پاکستان کا سفیر کہا جاتا ہے،خوشی سے پھولے نہ سماتے مگر اب عوام دل فریب نعروں سے بہلنے والے نہیں۔۔۔ملک بھر جب بھی مشکل وقت اتا ہے تو تارکین وطن کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے علاوہ زیادہ سے زیادہ زر مبادلہ بجوانے کی اپیل کی جاتی ہے۔۔۔او پی سی کے وائس چیئرمین بریسٹر امجد ملک نے چارج سنبھالنے کے بعد تارکین وطن کو اس قدر خوشخبریاں سنائی۔۔۔ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے چند دنوں میں ہی تارکین وطن کے نصیب جاگ جائیں گے۔۔۔جن میں اوورسیز بینک اور سید جم خانہ ماضی کی روایات کے مطابق مسائل کا حل ان کی دہلیز پر،قومی اسمبلی میں اوورسیز کے لیے مخصوص نشستیں۔۔۔او پی سی کے چیئرمین نے چارج سنبھالے کے بعد ایسے ایسے وعدے کیے کہ تارکین وطن خوشی سے جھوم اٹھے۔۔دو سال تک غیر فعال رہنے والے او پی سی کا دفتر بلا شبہ مختلف ممالک کے رنگ برنگی جھنڈوں سے سجا دیا گیا جہاں اکثر مختلف ممالک سے آنے والے کاروباری حضرات اور ان کے دوست روزانہ کے حساب سے پھولوں کی پتیاں اور ہار کے علاوہ بھاری بھرکم گلدستے دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔۔یہ منظر دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کسی کے دوست یا عزیز کا عمرہ یا حج سے واپسی پر سعادت حاصل کرنے پر استقبال کرتے ہیں۔۔۔بلا شبہ بریسٹر امجد ملک بے شمار خدا دا صلاحیتوں کے مالک ہیں۔۔۔بطور او پی ایف کے بورڈ آف گورنر کے چیئرمین کی حیثیت سے انہوں نے دنیا کے مختلف ممالک کے پاکستانی سفارت خانوں میں کھلی کچہریاں لگائیں۔۔۔او پی ایف کی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی۔۔۔سرینا ہوٹل میں محفل سجائی مگر حکومت کا کوئی نمائندہ شریک نہ ہوا۔۔۔او پی ایف میں مبینہ طور پر بے شمار کرپشن پر ہاتھ ڈالا تو بیورو کریسی آڑے آ گئی اور وہ واپس چلے گئے۔۔۔۔اب دوبارہ تعیناتی ہوئی تو حسب سابق وعدے اور دعوے،پھولوں کے گلدستے اور گلاب کی پتیاں روزانہ نچھاور ہو رہی ہیں مگر تا حال وہ او پی سی کی ایڈوائزری کمیٹی کے علاوہ ضلع سطح پر او پی سی کے نمائندے بھی مقرر نہیں کر سکے۔۔معلوم ہوا ہے کہ ان کی ترتیب کردہ فائل وزیر اعلی پنجاب کی ٹیبل پر ہے۔۔۔وزیراعلی پنجاب مریم نواز صاحبہ 18 گھنٹے کام کرتی ہیں اور وہ کوئی کام ادھورا نہیں چھوڑتیں لیکن یہ فائل نجانے کیوں ابھی تک ان کی میز پر پڑی ہے۔۔۔او پی سی کی ماضی کی کارکردگی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔اب بریسٹر امجد ملک کے وعدوں اور دعووں کو دیکھ کر دیدہ نمناک میں وہ لہراتے رہتے ہیں۔۔۔عام تاثر یہی ہے کہ تارکین وطن سے بڑھ کر کوئی اور دکھی نہیں۔۔ایک کروڑ تارکین وطن کے کروڑوں اہل خانہ بھی اچھے دنوں کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔ایئرپورٹ پر خصوصی پروٹوکول،اوورسیز بینک،اوورسیز جم خانہ۔۔۔۔ ملک صاحب،اس طرح ہمارے دل کے ساتھ نہ کھیلیں۔۔۔اتنے وعدے کریں،جتنے آپ پورے کر سکتے ہیں۔۔۔۔دل نادان آپ کے دل فریب نعروں سے اب مچلنے لگا ہے۔۔۔او پی سی کی باڈی فوری طور پر مکمل کریں اور بے نوا بے آسر تارکین وطن کے ساتھ ماضی کی حکومتوں کی طرح وعدوں سے بہلانے کی کوشش نہ کریں۔۔۔وقت تھوڑا ہے،مقابلہ سخت۔۔۔اپنے خوبصورت ویژن سے پورے معاشرے کو روشن کر دیں،وگرنہ قوم آپ سے بھی سوال کر سکتی ہے کہ 90 یوم کی کارکردگی بیان کریں؟؟؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں