تحریر:خالد شہزادفاروقی
ڈیجیٹلائزیشن دنیا بھر میں اداروں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت بن چکی ہے اور لاہور پریس کلب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔۔۔۔صحافت تیزی سے ڈیجیٹل دنیا میں منتقل ہو رہی ہے،جہاں خبریں،تحقیق اور نیٹ ورکنگ اب زیادہ تر آن لائن ہو رہی ہے۔۔۔۔اگر لاہور پریس کلب خود کو ڈیجیٹل نہیں کرے گا تو وہ جدید صحافت کے تقاضوں سے پیچھے رہ جائے گا۔صدر لاہور پریس کلب ارشد انصاری نے اسی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے پریس کلب کو”ڈیجیٹل کلب“میں بدلنے کے لئے سینئر صحافی برادرم امجد عثمانی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔۔۔امجد عثمانی اور کمیٹی کے اراکین کی کوشش ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے وہ کلب کو مکمل ڈیجیٹلائز کر دیں۔۔۔۔اس سلسلہ میں ورکنگ جاری ہے۔۔۔پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کے ڈائریکٹر حسنین صاحب اور پی آر او برادرم عمار چوہدری اس سلسلہ میں کافی متحرک ہیں جبکہ Best Tellکمپنی کے سی ای او وسیم ارشد رانا صاحب کلب کو ڈیجیٹل کرنے کے معاملات میں ہمیں تکنیکی معاونت فراہم کر رہے ہیں۔۔۔۔
سب دوستوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ لاہور پریس کلب کی ایک جدید اور موثر ایپ پاکستان میں صحافیوں کے حقوق،تحفظ اور صحافت کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔۔۔۔اس ایپ کے ذریعے صحافیوں کو درپیش چیلنجز کا حل نکالا جا سکتا ہے،انہیں زیادہ محفوظ اور با اختیار بنایا جا سکتا ہے اور ملک میں آزاد صحافت کی بنیاد کو مزید مضبوط کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔لاہور پریس کلب کی ایپلی کیشن نہ صرف ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم ہو سکتی ہے بلکہ یہ پاکستان میں صحافت کے فروغ اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے ایک مضبوط ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔۔۔۔اس ایپ کے ذریعے صحافیوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے،ان کے حقوق کے تحفظ اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔۔۔۔جدید دور میں صحافت کو درپیش چیلنجز میں معلومات تک رسائی،فیک نیوز کا سدباب اور تحقیقاتی صحافت کے وسائل کی کمی شامل ہیں۔۔۔۔لاہور پریس کلب کی ایپ میں تحقیقاتی صحافت کے لیے ایک ڈیجیٹل لائبریری شامل کی جائے گی،جہاں رپورٹرز مستند مواد،رپورٹس اور تجزیے حاصل کر سکیں گے۔۔۔میڈیا سے متعلق قوانین،صحافت کے ضابطہ اخلاق اور فریڈم آف پریس سے متعلق مواد دستیاب ہو گا۔۔۔ایپ کے ذریعے لاہور پریس کلب کے زیر اہتمام ہونے والی ورکشاپس،سیمینارز اور تربیتی سیشنز کی معلومات دی جائیں گی۔۔۔نامور صحافیوں کے لیکچرز،آن لائن کورسز اور میڈیا ٹریننگ کے لنکس فراہم کیے جائیں گے۔۔۔۔صحافیوں کے لیے ایک خصوصی نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ہو گا جہاں وہ خبروں کے تبادلے،پروفیشنل مواقع اور جرنلزم سے متعلق اپ ڈیٹس حاصل کر سکیں گے۔۔۔فری لانس جرنلسٹس کے لیے جاب لسٹنگ،گرانٹس اور ریسرچ فنڈنگ کے مواقع مہیا کیے جائیں گے۔۔۔پاکستان میں صحافیوں کو متعدد خطرات لاحق ہیں،جن میں ہراسانی،دباو،سنسر شپ اور جان کا خطرہ شامل ہیں۔۔۔۔اس ایپ کے ذریعے صحافیوں کے تحفظ کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔۔۔
ایپ میں ایک “ایمرجنسی الرٹ” فیچر ہو گا جس کے ذریعے صحافی کسی خطرے کی صورت میں فوری طور پر لاہور پریس کلب اور متعلقہ حکام کو مطلع کر سکیں گے۔۔۔۔ایک “24/7 ہیلپ لائن”فراہم کی جائے گی جہاں صحافی قانونی، سیکیورٹی اور دیگر مسائل پر رہنمائی حاصل کر سکیں گے۔ایپ کے اندر محفوظ کمیونیکیشن سسٹم ہو گا،جہاں صحافی خفیہ طور پر معلومات شیئر کر سکیں گے۔۔۔۔اینکرز اور رپورٹرز کے ڈیجیٹل سیکیورٹی ٹولز اور سائیبر سیکیورٹی گائیڈز شامل ہوں گے۔۔۔صحافیوں کو گرفتار کیے جانے یا دباو کا سامنا کرنے پر فوری قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے وکلا کا نیٹ ورک شامل کیا جائے گا۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے ذریعے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے درخواستیں دائر کرنے کی سہولت دی جائے گی۔۔لاہور پریس کلب کے ممبران اپنی ممبر شپ کی تفصیلات دیکھ اور آن لائن فیس جمع کروا سکیں گے۔۔۔۔نئے ممبرز کے لیے آن لائن رجسٹریشن کی سہولت متعارف کروائی جائے گی۔لاہور پریس کلب کی تمام تقریبات، پریس کانفرنسز اور ورکشاپس کی معلومات فراہم کی جائیں گی۔۔۔۔صحافیوں کے لیے اہم خبریں اور اپ ڈیٹس براہ راست ایپ پر دی جائیں گی۔۔۔۔رپورٹرز اور اینکرز اپنی رپورٹس،ویڈیوز اور تحقیقاتی مضامین اَپ لوڈ کر سکیں گے۔۔۔ایک محفوظ ڈیٹا بیس جہاں پرانے اخبارات،رپورٹس اور اہم آرٹیکلز محفوظ کیے جا سکیں گے۔۔۔۔اردو اور انگریزی زبانوں میں ایپ فراہم کی جائے گی تاکہ زیادہ سے زیادہ صحافی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔لاہور پریس کلب کی مجوزہ ایپ کے لئے یہ وہ تجاویز یا خاکہ ہے جو میرے ذہن میں تھا،اس بارے میری برادرم امجد عثمانی صاحب سے متعدد بار کئی ایک نشستیں ہو چکی ہیں،کمیٹی کے اراکین اور آئی ٹی ایکسپرٹ دوست اس میں مزید رہنمائی اور تجاویز دے سکتے ہیں۔میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ لاہور پریس کلب کو ڈیجیٹل بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔۔۔اس سے نہ صرف صحافیوں کو سہولت ملے گی بلکہ ادارے کی کارکردگی بھی بہتر ہو گی۔۔۔ڈیجیٹل پریس کلب صحافیوں کے تحفظ،معلومات کی فراہمی اور صحافت کے فروغ کے لیے ایک انقلابی قدم ثابت ہو سکتا ہے۔