8اکتوبر 2005 ،قیامت خیز زلزلہ


تحریر۔۔سردار محمد پرویز خان
ڈسٹرکٹ انفارمیشن آفیسر ضلع باغ

آج وہ دن پھر آن پہنچا جب چند سکینڈوں میں لاکھوں مائیں اپنے بیٹوں،باپ اپنی اولادوں،بہنیں اپنے بھائیوں سے سے جدا ہو گئے،ہر طرف چیخ و پکار اور اپنوں کو بچانے کے لیے بھاگم بھاگ تھی کوئی منوں مٹی تلے دبا ہوا تھا تو کسی کے اعضاءکٹ کر رہ گئے تھے،آج سے 17 سال قبل ماہ رمضان میں 8 اکتوبر 2005بروز ہفتہ پاکستانی وقت کے مطابق 8.52منٹ پر 7.8کی شد ت کا انتہائی خوفناک قیامت خیز زلزلہ آزاد جموں و کشمیر اورخبیرپختون خواہ کے وسیع علاقوں میں آیا جو پاکستان کی تاریخ کابدترین زلزلہ تھا۔اس زلزلہ میں آزادکشمیرکے ضلع باغ،مظفرآباد،جہلم ویلی، نیلم،راولاکوٹ،سدھنوتی،اورحویلی،کے اضلاع اورخبیرپختوان خواہ میں مانسہرہ ابیٹ آباد،بالاکوٹ میں ہزاروں افرادجن میں سکولوں کالجوں میں زیرتعلیم بچے ،بچیاں،گھروں اور دفتروں میں لوگ شہید ہوئے ۔

اس تباہ کن زلزلہ میں رہائشی مکانات ،دوکانات سرکاری دفاتر ،سکول کالجزمیں کی عمارتوں ہسپتالوں سمیت ہزاروں عمارتیں ،38سکینڈمیں ملیا میٹ ہوکر زمین بوس ہوئیں۔اس میں صرف آزاد کشمیر میں سرکاری اور نجی املاک کے نقصان کاتخمنیہ 125ارب روپے لگایاگیا تھا ۔8اکتوبر 2005رمضان المبارک کا تیسرا روزہ تھا بچے اپنے گھروں سے تیار ہو کر اپنے اپنے سکولوں میں پہنچے تھے اورصبح ہی سویرے ان کی ماوًں نے ان کوتیار کرکے سنوار کر کے اس سفرکے لیے روانہ کیا تھا انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے لخت جگر اپنے آخری سفر کے لیے روانہ ہو رہے ہیں ۔

میں اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا اورمعمول کے امور کی انجام دہی میں مگن تھا کہ اچانک زور دار آواز آئی میں نے سمجھا ہمارے پچھلے جانب والے مکان سے کوئی چیز گرئی ہے اورساتھ ایک خوفناک آواز گونج اٹھی میں نے دیکھا کہ دیواریں ہلنی شروع ہوگئی اوردروازے بھی بجنے شروع ہوگے میں یہ خوفناک منظر دیکھ کر یکدم دروازے سے باہر کی جانب دوڑا برآمدے تک پہنچتے پہنچتے لنٹر کے کنارے پردہ وال چھت گرچکی تھی ۔جس سے معمولی زخمی ہوا اور بھاگ کر عمارت کے گرنے سے پہلے ہی باہر آیا اوردیکھتا ہوا کہ پہاڑدرخت عمارتیں لرز رہی ہیں اوراچانک سب کچھ زمین بوس ہوجاتاہے اور گردغبار اٹھتا ہے اور فوری طورپر ساتھ ہی پائلٹ ہائی سکول باغ تھا جہاں میٹرک میں میرابیٹا زیرتعلیم تھا دوسرے ہی لمحے بھاگتا ہوا سکول کے گروانڈ میں پہنچ گیا وہاں پر ایک استادمحترم شبیر صاحب کہ رہے تھے کہ ایم ڈی ایس سے فوجیوں کو بلائیں بچے سارے مر گئے ہیں ۔

میں وہاں سے نیچے ایم ڈی ایس کے گیٹ جوسکول گیٹ کے سامنے تھا وہاں جاتا ہوں تو ایک آرمی کا جوان مٹی کے ملبے سے نکلتا ہے جو اس کے اوپر پڑی ہوئی تھی میں اس سے سکول کے بچو ں کی مدد کے لیے پکارتاہوں تو وہ کہتا ہے کہ یہاں بھی ایسی ہی بری حالت ہے ۔میں وہاں سے واپس سکول کی طرف دوڑتا ہوں توارد گرد سے عورتیں مرد روتے ہوئے سکول میں اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے کے لیے آرہے تھے میں بھی وہاں پائلٹ ہائی سکول کی پرائمری ونگ کی عمارت جس کی دیواریں پتھروں اورٹین کی چادوں کی تھی اس طرف پہنچتا ہوں تواندر دھبے ہوئے بچوں کی آہو فریاد آرہی تھی اورجن بچوں کی نظر مجھ پر پڑی وہ اندرسے رور رور کر فریاد کررہے تھے کہ انکل ہمیں بچاو بچاو اس ملبے سے نکالیں ۔

مجھے پتا تھا کہ میرے بیٹے کی کلاس روم اوپر والی جانب مسجد کےساتھ والی عمارت تھی مگر میں اس ملبے کے نیچے دھبے ہوئے بچوں کو دیکھ کر ان کو نکالنا شروع کردیتا ہوں اوربھی جو لوگ آتے ہیں ۔وہ بھی اسی طرح انکے اوپر سے ملبا ہٹا کر انہیں نکال رہے ہیں اورمیں نے تین چار بچے جن کی گرد ن کے اوپر کھڑکی کے اوپر جو سمیٹ کی دیوار پر سلیب لگی ہوئی تھی شاہد میں وہ کبھی نہ ہٹا سکتا میںنے اکیلے اٹھا کر دوسری طرف پھنک دی اس طرح دیگرلوگ بھی اس کام میں لگے ہوئے تھے ۔میں بھی وہاں پر اپنے بچے کو نکالنے کے لیے آیا تھا لیکن اس کی تلاش چھوڑ دی کہ یہ بھی میرے ہی بچے ہیں ۔تقربیا ایک دوگھنٹے کے بعد گراونڈمیں زخمی بچے لٹائے گئے تھے وہاں پر میرابچہ بھی زخمی لٹایا گیا تھا جس کو دیکھ کر میں نے اس کو اپنے گلے سے لگایا اور اسکو اپنے کزن کے حوالہ کیا کہ اسکو گھر پہنچائیں ۔میں اپنی بھانجی جو گرلز پوسٹ گریجویٹ کالج باغ میں بی اے کی طلبہ تھی اس کو تلاش کرنے کے لیے چلا گیا راستے میں جدھر دیکھا دوکانیں عمارتیں سب کچھ زمین بوس ہوا تھا اور اندر جو لوگ زندہ تھے وہ چیخ چیخ کر پکار رہے تھے کہ کوئی ہو تو ہمیں نکالے ۔

میں گزلز کالج پہنچتا ہوں تو وہاں کا منظر بھی انتہائی خوفناک تھا ۔گرلز کالج کی عمارت دومنزلہ تھی اورکچھ طالبات جو بھاگ کر سیڑیو ں پر آئی ہوئی تھی ان کے اوپر لنٹر گرا ہوا تھا اوران کے سروں کے پرخچے اڑے ہوئے تھے ۔باغ میں تمام سرکاری سکول کالج اورپرائیویٹ سکول جن میں سپرنگ فیلڈ اکیڈمی اورکشمیری ماڈل سکول سب کی عمارتیں گری ہوئی تھی اوراندر بچے جو زندہ تھے وہ رو رہے تھے چلارہے تھے لیکن ان کے اوپر اتنی بھاری بھر عمارتیں گری ہوئی تھی جن کونکالنا انتہائی مشکل تھا ۔

زلزلہ کے فوری بعد جولوگ زندہ بچے تھے وہ خوف کے مارے بھاگنا شروع ہو گئے او رکچھ بالکل ڈرکر سہم گئے تھے ۔جیسے ان کو چپ کاروزہ ہے اوروہ کسی کی کوئی مدد بھی نہیں کرسکتے تھے ہرکوئی اپنوںکے تلاش میں ادھر ادھر بھاگ رہاتھا ۔ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ زلزلہ ہوا ہے چونکہ جس وقت زلزلہ ہوا میں بھی یہی سمجھا کہ قیامت آگئی ہے اور زمین ہلنا شروع ہوگئی ہے۔ میرا بھائی جوہاڑی گہل سے پیدل چل کرہماری تلاش کے لیے باغ آیا تھا باغ شہر مکمل صفحہ ہستی سے مٹ گیا تھا ۔

کوئی بھی عمارت ایسی نہیں تھی جوزلزلہ کی شدت سے بچی ہو تقریبا تین گھنٹوں کے بعد آرمی کا ایک ہیلی کاپڑ باغ کی فضاوں میں داخل ہو ا ۔جو باغ اور گرد نواح کاجائز ہ لینے کے بعد بریگیڈ میں اترا اورجلد واپس راولپنڈی کی جانب چلاگیا ۔چونکہ باغ اورگردنواح میں زلزلہ سے بہت تباہی اورنقصان ہوچکاتھا زلزلہ کے فوری بعد حکومت پاکستان اورآرمی حکام فوری ریلیف سرگرمیاں شروع کردی باغ میں سب سے پہلے کوٹلی اورمیرپور کے لوگوں نے اسی رات فوری طور پر باغ پہنچ گئے تھے اورانہوں نے سب سے پہلے ریلیف اورامدادی کاموں میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔جوگھر مکان گر گئے تھے ان کے اندر سب کچھ مٹی کے ملبہ کے نیچے چلا گیاتھا ۔لوگوں کوامدادی کاروائیوں کے لیے ان کے پاس کچھ نہ تھا ۔

صدرپاکستان اسی شام مظفرآباد پہنچ گئے تھے اورزخمیوں کے لیے اپنا خون بھی دیا اورپوری دنیا کے سے اپیل کی کے پاکستان کے ان علاقوں میں اس قدرخوفناک زلزلہ ہوا کہ جس کامقابلہ پاکستان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا اوردنیا بھر کے ممالک سے امدادی کاموںمیں مد د کی اپیل کی ۔

حکومت پاکستان کے لیے ایک بہت بڑاچیلنج تھا کہ جس میں اتنی بڑی وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوچکا تھا ۔8اکتوبر 2005کے زلزلہ میں صرف آزاد کشمیر میں شہدا کی تعداد 46570ہوئی ہے اس میں مکانات ،314474مکمل تباہ ہوئے سرکاری املاک کی تعداد 7965اورمجموعی طورپر نجی املاک کاتخمنیہ 125ارب روپے لگایا گیا تھا ۔ سال 2006میں تعمیر نو کے لیے حکومت نے آزاد کشمیر میں سیرا کے نام سے ایک ادارے کے قیام عمل میں لایا جس نے زلزلہ کے باعث ہونے والے نقصانات اوربحالی نو کے عمل کے لیے کام شروع کیا۔

زلزلہ میں مکمل تباہ ہونےوالے مکانات کو دو کمروں پر مشتمل 175000روپے فراہم کیے گئے اس طرح بحالی اور تعمیر نو پروگرام کے تحت تما م سکیٹر میں کام کیاگیا اورمتاثرہ لوگوں کو واپس اس قابل بنایا گیا کہ وہ اپنی زندگی گزارنے کے لیے خود اپنے پاوں پر کھڑے ہوں ۔زلزلہ 2005میں 38سکینڈکا زلزلہ ہوا تھا اس دوران لوگوں کی کروڑں روپے کے اثاثہ جات مکمل تبا ہ ہوئے تھے اورکچھ لوگوں کے جن کے پاس معمولی مکانات تھے انہوںنے بھی دوبارہ عالی شان مکانات کی تعمیر کردی ہے اورآج تمام مکانا ت اور سرکاری عمارتیں جوزلزلہ کی 8شدت بھی برداشت کرسکنے کی طاقت رکھتے ہیں یہ سب کچھ لوگوں کو دوبارہ اس سے اچھا اوربہتر میسر ہوچکا ہے لیکن کمی ایک چیز کی رہ گئی ہے کہ وہ جو ان کے اپنے پیارے جو اس زلزلہ میں شہید ہوئے جو ان سے جد ا ہوگئے یہ کمی انکی زندگیوں میں کبھی پوری ہو نہیں سکتی اور نہ ہی 8اکتوبر 2005کا دن بھولا جاسکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں