اسلام کو خطرہ مگر کس سے۔۔۔۔؟

اسلام کو خطرہ مگر کس سے۔۔۔۔؟

ملک محمد سلمان(حاشیہ)

سرگودھا میں مبینہ طور پر توہین مذہب کے واقعے میں مشتعل افراد نے مشکوک شخص پر بیہمانہ تشدد کیا۔ سرگودھا پولیس کی بروقت کاروائی سے مذکورا شخص مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے سے بچ گیا۔ شاباش سرگودھا پولیس
اب تک درجنوں خواتین سمیت 500 نامعلوم افراد کے خلاف قانونی کاروائی کا اغاز کر دیا گیا ہے ۔ ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ، اشتعال انگیزی کے ساتھ دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں جبکہ 28 افراد گرفتار ہیں۔
جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی کے واقعے پر مشتعل مظاہرین نے مسیحی آبادی پر دھاوا بول کر متعدد گرجا گھروں اور مسیحی خاندانوں کی درجنوں ذاتی رہائش گاہوں کو نذرِ آتش کر دیا۔
اسی طرح چند ماہ قبل اگر اچھرہ پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او بروقت کاروائی نہ کرتے تو اچھرہ بازار میں عربی الفاظ تحریر شدہ لباس پہننے پر خاتون توہین اسلام کے نام پر شدید بے حرمتی کے بعد موت کی آغوش میں ہوتی ۔
ایسا لگتا ہے کہ”توہین مذہب“ اسلام کے ٹھیکیداروں کی اجارہ داری ہے۔ کوئی معاملہ خدا اور اس کی مخلوق کے درمیان چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ توہین مذہب ایک ایسا الزام ہے جس کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ ایک بار کسی کے منہ سے ایسی کوئی بات نکلی تو پھر گلی محلوں کی مساجد سے ”اسلام کی حفاظت“ کے نعروں کا شور برپا ہوتا ہے اور مشتعل لوگوں کا ہجوم سامنے آنے والے کسی بھی شخص کو ہلاک یا تشدد کرنا بنیادی اسلامی فریضہ سمجھتا ہے۔
کچھ عرصہ قبل میرے ایک دوست کی کال آئی کہ فلاں جگہ محفل ہے آؤ چلیں،میں نے معذرت کی کہ تھوڑا مصروف ہوں پھر کبھی سہی،بس پھر کیا تھاموصوف نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً سے پہلے فتویٰ جاری کر دیا کہ کافر ہو گئے ہو کہ تمھیں دینی اجتماع سے اپنا کام زیادہ ضروری ہے،کتنے بد قسمت ہو کہ دین کی محفل میں نہیں جانا چاہتے۔کال بند ہوتے ہی میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ کافر قرار دینا کتنا آسان ہے،کیا ایمان کا معیار صرف محفل اور اجتماعات ہی ہیں، صرف محفل میں آؤ اور مسلمان کا سرٹیفیکیٹ لے لو۔ اس بیچارے کا کوئی قصور نہیں ہے،یہاں بے عمل اور زورآور”اسلام کے ٹھیکداروں“کی کمی نہیں ہے، نہ اخلاق نہ کردار بس سالانہ اور ماہانہ محافل میں شرکت کرواور قضائے عمری ادا۔ اسلام کے نام پر ہونے والی محافل اور اجتماعات سے کون نہیں واقف کہ ان مسلکی اجتماعات میں مخصوص تقریر کا لب لباب اور خلاصہ یہی ہوتا ہے کہ ہم حق پر ہیں اور باقی سب کفر اور گمراہی کے رستے پر ہیں۔ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے کیلئے منعقد ہونے والی محافل قطعی اسلام کی خدمت اور اشاعت نہیں کر رہیں،بلکہ رحمٰن کے نام پر شیطان کے پیغام”انتشار“ کی تبلیغ کا مؤثر زریعہ ثابت ہورہی ہیں۔مسلکی منافرت کا سلسلہ انتہا پسندی کے عروج پر پہنچ چکا ہے،ہر کسی کا اپنا مسلک اور عقیدے کی بناپر جس کے جو دل میں آتا ہے اُسے دین بنا کر پیش کر رہا ہے اور یوں مذہب کے نام پر دکانداری زوروں پر ہے۔
گھروں اور دکانوں میں قرآنی آیات والے سٹیکر لٹکانا باعث برکت و لازم سمجھا جاتا ہے، پرانا ہونے پرانہیں اوراق کو ہم خود قرآنی آیات کی بے حرمتی کے خدشے سے جلا دیں تو ٹھیک، لیکن اگر کوئی نیم پاگل یا ان پڑھ غیر مسلم جس کو یہ بھی پتہ نہ ہو کہ یہ جو کتاب اس کے ہاتھ میں ہے وہ قرآن پاک ہے یا کچھ اور، تو اس کے ہاتھ سے اگر وہ کتاب گر جائے یا انجانے میں اس کا کچھ حصہ جل جائے، توہین قرآن کو بنیاد بنا کر اس انسان کو زندہ جلا دیا جاتاہے۔ عقل و شعور سے عاری مذہبی جنونی قتل کے بعد لاش پر بھی تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتے اور اس جنونیت کو عشق رسول کا نام دیتے ہیں۔اپنے ہی ہم وطنوں کی گردنیں کاٹیں،انکو زندہ جلادیں، ہم بخشی ہوئی قوم ہیں اس لیے جو چاہیں کریں کہ جنت تو ہمارے نام الاٹ ہو چکی۔
چند برس قبل حجرہ شاہ مقیم میں انتہائی افسوسناک واقع پیش آیا،جہاں محفل نعت کی تقریب میں قاری بشیر نے حاضرین سے رسالت کے نعرے لگواتے ہوئے اچانک یہ پوچھ لیا کہ کہ کون کون نبی ﷺ کو نہیں مانتا ہاتھ کھڑا کرے،ایک پندرہ سالہ معصوم بچے انور جس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ مولوی نے یہ پوچھا ہے کہ کون کون نبیﷺ کو مانتا ہے ہاتھ بلند کر دیا۔ مولوی صاحب نے جھٹ سے بچے پر گستاخ رسول کا فتویٰ جڑ دیا،بچے نے وضاحت بھی کہ غلط فہمی میں ہاتھ کھڑا ہوا،لیکن مولوی نے ایک نہ سنی اور اسے گستاخ رسول اورناقابل معافی جرم کہتے ہوئے دربارِ رسالت ﷺکا گنہگار قرار دے دیا۔ معصوم بچہ مولوی کی سخت وعید کو سُن کر اس قدر حواس باختہ ہوا کہ گھر جاکر اپنا ہاتھ کاٹ کر مولوی کو پیش کر دیا کہ گستاخ ہاتھ کاٹ دیا، مولوی نے اللہ کے قہر سے ڈرنے اور شرمسار ہونے کی بجائے مرحبا مرحبا سچا عاشقِ رسول کے نعرے لگوادئیے۔ معصوم انور ہمیشہ کیلئے معذور ہو گیا مگر کسی کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اس جاہل مولوی سے پوچھا جائے کہ انتہائی بے عمل اور گیا گزرامسلمان بھی یہ سوچ نہیں سکتا کہ معاذاللہ وہ رسولﷺ کو نہیں مانتا۔
انتہائی بے تکا اور جاہلانہ سوال کرنے والے مولوی کی علمی استطاعت کا اندازہ آپ خود کر لیں، ایسے کم علم اور جاہل دین کے نام پر کھلواڑ کر رہے ہیں،انتقامی اور ظالمانہ ذہنیت کے مالک مولوی حضرات کی برین واشنگ کا نتیجہ ہے کہ کسی بے گناہ کو حرمت قرآن و رسول کا مجرم ٹھہرا کر بلا تحقیق قتل کر دیا جاتا ہے اور قاتل کو عاشق رسول ﷺ اور ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے،اگر مان بھی لیا جائے کہ واقعی گستاخی ِ رسول یا بیحرمتی قرآن کا مجرم بھی ہو تو پھر بھی کسی فرد یا ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود سے کسی کا ناحق قتل کردے،اس کا اختیارصرف اور صرف ریاست کے پاس ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے سزا کا تعین کرے۔ گستاخی رسول اور بیحرمتی قرآن کے نام پر لوگوں کو زندہ جلا کر اسلام کی کونسی خدمت کی جارہی ہے، بیحرمتی کے نام پر ہونے والے مقدمات کی تفتیش کی بعد اکثر کیسز میں یہ نتیجہ سامنے آیاہے کہ ذاتی عناد پر بے بنیاد الزام لگا کر پھنسانے کی کوشش کی گئی، شرمناک پہلو تو یہ ہے مسلکی بنیاد پر بھی مسلمان ایک دوسرے کو گستاخ رسولﷺ ثابت کرنے کیلئے
295-C
کے قانون کا سہارا لیتے ہیں۔ توہین رسالت اور توہین قرآن کے الزام میں ہزاروں مقدمات درج ہوئے۔ اپنے طریق کے علاوہ سب کو خلاف ِ شرعیت اور کفرقرار دینے والے متعصب مولویوں کے پھیلائے ہوئے علم کی بدولت آج اسلام سخت تنقید کے زد میں ہے، دہشت گردی کے ہرواقعے کو اسلام سے جوڑا جاتاہے۔ لمحہ فقریہ ہے کہ اس حالات کی ذمہ داری کو قبول کرنے اور اپنی اصلاح کی بجائے مولوی حضرات اسلام خطرے میں ہے کہ راگ الاپ رہے ہیں۔لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اسلام کو اصل خطرہ کسی اور سے نہیں بلکہ انہی منافرت پسند مولویوں سے ہے، جو اپنی جاہلیت سے لوگوں کو تشدد اور عدم برداشت کا درس دے کر نہ صرف افراتفری پھیلارہے ہیں بلکہ اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات کے مطابق سب سے زیادہ اہل ِ علم اور صاحب اقتدار شخص ہی امامت کی اہلیت رکھتاہے، میں بہت وثوق اور دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہماری مساجد کے امام مسجد سے قرآن کی فہم وفراست کی امید رکھنا تو دور کی بات آپ صرف نماز کا ترجمہ ہی پوچھ کر دیکھ لیں، نصف سے زائد کا جواب اوں آں ہی ہوگا اور رہی صاحب ِ اقتدار کی بات تو اسکا احوال آپ روزانہ ہی دیکھتے ہیں کہ مسجد کی بااختیار انتظامیہ امام سے مسجد کے لوٹوں کے غائب ہونے اور صفائی نہ ہونے کے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ ہم اللہ کے ساتھ کیسی تجارت کرتے ہیں؟گھرمیں جو بچہ سب سے نالائق ہوتا ہے،سکول نہیں جاتا،اگر سکول جائے بھی تو کوئی امتحان پاس نہ کرے تو آپ اس کی بار بارکی ناکامی سے تنگ آکر اس کو مدرسے کی راہ پر لگا دیتے ہیں،پھر وہی بچہ مدرسے کی مخصوص ماحول میں تربیت پا کر ایک دن پیش امام بن جاتا ہے۔ایسے میں ہم ان سے اسلام کی صحیح تعلیم اور تبلیغ و اشاعت کی امید کیونکر رکھ سکتے ہیں۔اسلام ایک مکمل نظام حیات اور آسان دین ہے لیکن اسلام کے ٹھیکداروں کی عنایات کی بدولت ہر روز نت نئی رسومات کو اسلام کا نام دیکر مشکل سے مشکل ترکیا جارہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علاقائی رسومات کی بجائے نبوی تعلیمات کو اپنائیں اور نفرت کی بجائے محبت بانٹنا سیکھیں،انتقام کی بجائے درگزر کا نبویﷺ رستہ اختیار کریں،کامیابی اور عزت کیلئے پیارے نبیﷺ کا بتایا ہوامحبت،رواداری اور اخوت ہی واحد رستہ ہے جس سے دنیا کا امن اور مسلمانوں کا وقار بحال ہوگا۔
آخر پر پولیس کے اس کردار کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ایسے واقعات میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو نامزد کر دیا جاتا ہے اور پھر ان کا نام خارج کرنے کے منہ مانگے ریٹ ہوتے ہیں۔ دہشت گردی کی دفعات کی وجہ سےخاندان اجڑ جاتے ہیں اور پھر جیل کی سلاخوں میں جبکہ لواحقین کو سڑکوں پر دربدر دھکے کھاتے ہوئے اس چیز کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کاش ہم وقتی بہکاوے میں آ کر پرتشدد مہم کا حصہ نہ بنتے ۔ کل کو پچھتانے سے بہتر ہے کہ آج ہی طے کر لیں کہ آئندہ ہم کسی بھی ایسی سرگرمی کا حصہ نہیں بنیں گے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں