5اگست یوم استحصال۔۔جذبہ حریت کو کچلنے کی ناکام کوشش

5اگست یوم استحصال۔۔جذبہ حریت کو کچلنے کی ناکام کوشش

تحریر:انعام الحسن

بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے 2014میں انتخابی منشور میں مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی معاملات شامل کیے تھے جن میں اس مسئلے کی بنیادی نوعیت کا خاتمہ اور اسے مستقل طور پر بھارت کا حصہ بنانے کااعلان کیا گیا تھا۔ اگرچہ پہلی مدت کے دوران بی جے پی کو اس پر بھرپور انداز میں عمل درآمد کا موقع نہیں مل سکا تاہم اس دوران اس مقصد کے حصول کے لیے فضاسازگار کی جاتی رہی چنانچہ جب مودی نے دوسری بار 2019ء میں انتخابات جیتے اور وزارت عظمیٰ کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے، تو اس کے بعد انھوں نے سب سے پہلے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی اقدامات کا آغاز کیا۔ 5اگست 2019کو بھارتی پارلیمان میں ایک بل پیش کیا گیا تاکہ آئین کی دفعات جومقبوضہ کشمیر کو الگ سے ایک خصوصی اہمیت و حیثیت دیتی تھیں، ان میں ترامیم کی جاسکے۔ یہ تجویز فوری منظور کرلی گئی جس سے آئین کی دفعات 370اور 35اے کی منسوخی عمل میں آئی۔ اس کے باعث مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت جو اسے ایک الگ ریاست کے طور پر حاصل تھی، ختم ہوگئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر کو دوحصوں میں منقسم کرتے ہوئے لداخ کوسرینگر سے الگ کرتے ہوئے براہ راست مرکز کے زیرانتظام کردیا گیا جبکہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی ریاستی اسمبلی کے درجے میں تنزلی کرتے ہوئے کئی معاملات میں قانون سازی کا اختیار ختم کردیا گیا۔ گورنر کی جگہ لیفٹینٹ گورنر کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔
بھارتی آئین میں واضح طور پر درج تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی دفعات میں ترامیم صرف ریاستی اسمبلی کی منظوری ہی سے عمل میں لائی جاسکتی ہے۔ یہ ایک اہم ترین رکاوٹ تھی جسے دور کرنا ممکن نہ تھا۔ چنانچہ بھارتی حکومت نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بی جے پی نے جون 2018ء میں ریاست میں پیپلز ڈیمورکریٹک پارٹی کی حکومت کی حمایت واپس لے لی جس کے باعث وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کے پاس اکثریت نہ رہی اور یوں ریاستی حکومت ختم ہوگئی۔ اس کے بعد اگرچہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گورنر کسی دوسری پارٹی کو حکومت بنانے کی دعوت دیتا لیکن ریاست میں سیاسی افراتفری کا پراپیگنڈہ کرتے ہوئے گورنر راج نافذ کردیا گیا۔ نومبر2018میں ریاستی اسمبلی ہی سرے سے تحلیل کردی گئی اور یوں بھارت کے لیے عملی طور پر یہ راہ ہموار کردی گئی کہ اب وہ جوچاہے، اپنے آئین کے ساتھ مقبوضہ جموں وکشمیر کے معاملات کے حوالے سے کھلواڑ کرلے۔
آئین میں جو ترمیم کی گئی، اسے جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ کے نام سے لوک سبھا اور راجیہ سبھا سے منظور کروایاگیا۔ جس کے بعد مقبوضہ جموں وکشمیر جسے پہلے ریاست کا درجہ حاصل تھا، اب یونین ٹیریٹری کا درجہ دے دیاگیا چنانچہ بھارت میں اب اسے ریاست جموں وکشمیر کے بجائے یونین ٹیریٹری آف جموں وکشمیر کے نام سے پکارا، لکھاجاتاہے۔ بھارت کے اس اقدام کے خلاف مقبوضہ جموں وکشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون سمیت سابق فوجی افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے بھارتی سپریم کورٹ میں 2درجن کے قریب درخواستیں دائر کی گئیں جنھیں بعدازاں یکجاکردیاگیا۔ ان درخواستوں میں سوال اُٹھایا گیاکہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟اور خاص طور پر یہ کہ کیا بھارتی حکومت کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسمبلی کی غیر موجودگی میں آئین کی ان دفعات کو ختم کرے جن کا تعلق براہ راست ریاست کے ساتھ ہے؟ 2020کے ابتدائی ایام سے لے کر 2023کے اختتام تک ان درخواستوں پر تقریبا روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوتی رہی۔ اس دوران متعدد بار عدالت کے بیانات سے صارف مترشح ہوتا تھا کہ انصاف کا بہرحال خون نہ ہوگا لیکن 11دسمبر 2023کو بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں 5اگست کے بھارتی اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات 30ستمبر2024سے قبل کروائے جائیں۔ یہ بھارتی سپریم کورٹ کا اندھا فیصلہ تھا جو اس نے بالکل سامنے کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کیا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ جب آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ان دفعات میں چھیڑخانی، ریاستی اسمبلی کی منظوری کے بغیرممکن نہیں تو پھر بھارت کو چاہیے تھا کہ وہ پہلے ریاستی اسمبلی کے الیکشن کرواتا اور پھر اس میں متعلقہ معاملے کو پیش کرتا۔ بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے اپنی حکومت کے اقدام کو قانونی قراردینے کے لیے جس بھونڈے انداز میں ساری پیش رفت کی، اس نے انصاف کا خوب خوب قتل کیا ہے۔ عدالت کو یہ بھی دکھائی نہ دیا کہ جب ریاستی اسمبلی ہی موجود نہیں تو پھر مرکز کو بھلا یہ اختیار کیسے حاصل ہوگیا کہ وہ ریاست کے بارے میں ازخود فیصلہ کرے۔ اگراسے یہ اختیارحاصل تھا تو پھر عدالت کو یہ کیوں نہ نظرآیاکہ مقبوضہ کشمیر میں تو گورنرراج نافذ ہے جسے ہٹانا اور اسمبلی کے الیکشن کروانا ضروری ہے۔ لیکن بات وہی ہے کہ جب انصاف کا قتل ہی کرنا ہے، تو پھر کوئی بھی انداز اور طریقہ ہی سہی، دنیا چاہیے کچھ کہتی رہے لیکن بھارتی بنیاؤں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اب یہ بھی دیکھ لیا کہ ان کی عدالتیں بھی اپنے حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے اور ان کے ہر غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیرآئینی اقدام کو درست اور جائز قراردینے کے لیے اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا لگانے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتیں۔
مودی نے 19جون کو مقبوضہ کشمیر کے دورہ کے دوران کہا کہ ریاستی اسمبلی کے انتخابات جلد ہی ہوں گے، نیز ریاست کو دوبارہ اس کا درجہ دلانے پر پیش رفت ہورہی ہے اور یہ کہ کشمیر اب ترقی کررہاہے کیونکہ تقسیم کرنے والی دیوار یعنی 370کو ہٹادیاگیا ہے اور اب کشمیر کو بھی برابرکا درجہ مل گیا ہے۔ مودی کی اس طرح کی باتیں دراصل کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔ کشمیر کی ترقی دنیا کو نظر کیوں نہیں آرہی؟ ہر روزماورائے عدالت نوجوانوں کو قتل کرنے کے واقعات پہلے کی بانسبت کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں۔تقریبا تمام ہی حریت رہنماؤں کو گرفتار اور نظر بند کردیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ پر بدستور پابندیاں عائد ہیں اور مواصلاتی رابطوں میں بھی رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں۔ اس طرح کے اقدامات سے دراصل بھارت مخالف لوگوں اور آزادی پسندوں کی سرگرمیوں اور قابض فوج کے ہتھکنڈوں، ظلم اور تشدد کے واقعات کو دنیا کے سامنے آنے سے روکنا ہے۔ بھارت کے یہ تمام حربے ازخود ہی ناکام ثابت ہورہے ہیں۔ وہ جس جذبہ حریت کو کچلنے کی کوشش کررہاہے، یہ جذبے چناروں میں آگ ہیں جو ہمالیہ کی چوٹیوں سے بھی بلند ہورہے ہیں۔ اس کی لپیٹیں کسی نہ کسی طرح سے دنیا کے سامنے عیاں ہورہی ہیں۔ بھارت اپنے اقدامات سے دراصل چناروں کی اس آگ میں خود کو بھسم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ ٭٭

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں