دین سکولنگ سسٹم جیسا نظام تعلیم معاشرے کی ضرورت کیوں؟

تحریر:خالد شہزاد فاروقی


کیا ہم اپنے تعلیمی نظام میں بچوں کی تربیت اسلامی اصولوں کے مطابق کر رہے ہیں یا نہیں؟تعلیم کا مقصد صرف معلومات دینا نہیں بلکہ ایک مضبوط اور متوازن شخصیت کی تعمیر بھی ہے۔۔۔اگر ہم اپنے سکولوں میں نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر ادارے جدید نصاب کی دوڑ میں تو شامل ہیں مگر اخلاقی اور اسلامی تربیت کے پہلو کو یا تو مکمل نظر انداز کر رہے ہیں یا پھر اسے ثانوی حیثیت دے رہے ہیں۔۔۔بدقسمتی سے،ہمارے تعلیمی ادارے زیادہ تر مغربی طرز کے نصاب کو اپنانے میں مصروف ہیں،جہاں اسلامی اقدار کو محدود یا رسمی انداز میں سکھایا جاتا ہے۔۔۔ دینی تعلیم کو اکثر ایک الگ مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے مگر اس کا عملی زندگی میں اطلاق کروانے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔نتیجتاً بچے صرف اسلامی تاریخ یا فقہی مسائل سے تو واقف ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کی اصل روح،یعنی اس کے اخلاقی اصول،کردار سازی اور روز مرہ زندگی میں اس کے عملی پہلووں سے ناواقف رہتے ہیں۔۔۔

سکول وہ جگہ ہے جہاں ایک بچے کی شخصیت،سوچ اور اخلاقیات کی بنیاد رکھی جاتی ہے،جو کچھ وہ سکول میں سیکھتا ہے،وہی اس کے مستقبل کے رویے اور فیصلوں پر اثر انداز ہوتا ہے،اگر سکول میں صرف مادی ترقی اور دنیاوی کامیابی کو ہی اصل مقصد بنا کر پیش کیا جائے اور اسلامی اقدار کو محض رسمی حیثیت دی جائے تو اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل پروان چڑھے گی جو دین سے زیادہ دنیا کی طرف مائل ہو گی۔۔عصر حاضر میں تعلیم کو ایک دوڑ بنا دیا گیا ہے جس میں اچھے نمبر لینا،اعلیٰ ملازمت حاصل کرنا اور مادی ترقی کو کامیابی کا معیار سمجھا جاتا ہے جبکہ اخلاقی اور روحانی ترقی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔آج اس بات سے کون واقف نہیں ہے کہ تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی کا بنیادی ستون ہوتی ہے۔۔۔ایک موثر تعلیمی نظام نہ صرف طلبہ کو جدید علوم سے روشناس کراتا ہے بلکہ ان کی اخلاقی و دینی تربیت بھی کرتا ہے۔۔۔آج کل زیادہ تر تعلیمی ادارے محض عصری تعلیم پر زور دیتے ہیں لیکن شخصیت سازی،اخلاقیات اور مقصد حیات کی تفہیم جیسے اہم پہلو نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔۔۔تعلیم کا اصل مقصد صرف نوکری حاصل کرنا نہیں بلکہ ایک متوازن،باکردار اور باشعور انسان بنانا ہونا چاہیے۔بدقسمتی سے ہم نے تعلیم کو صرف ایک معاشی ضرورت بنا دیا ہے،حالانکہ اس کا اصل مقصد ایک بہترین انسان اور ایک اچھا مسلمان بنانا ہونا چاہیے۔۔۔

لاہور کے پوش ترین ایریا گلبرگ میں واقع’دین سکولنگ سسٹم‘اسی نظریے پر قائم ہے کہ بچوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں دینی اقدار سکھائی جائیں تاکہ وہ نہ صرف دنیاوی علم حاصل کریں بلکہ اچھے مسلمان اور نیک انسان بھی بن سکیں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم ایک اسلامی تعلیمی ادارہ ہے جو معروف ماہر تعلیم مصطفی قیوم کی زیرِ نگرانی چل رہا ہے۔۔۔یہ سکول ایک منفرد تعلیمی ماڈل پر کام کر رہا ہے،جس میں دینی اور دنیاوی تعلیم کو یکجا کیا گیا ہے۔۔۔اس ادارے کا بنیادی مقصد طلبہ کو اسلامی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں بھی مہارت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ ایک باعمل مسلمان اور کامیاب شہری بن سکیں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم کی سب سے نمایاں خوبی یہ ہے کہ یہاں دینی تعلیم کو محض ایک مضمون کے طور پر نہیں بلکہ عملی زندگی کا لازمی جزو سمجھا جاتا ہے۔۔اس نظام میں بچوں کو قرآن و حدیث کی بنیادی تعلیم،اسلامی اخلاقیات اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔۔۔عام روایتی تعلیمی نظام میں طلبہ کو کتابی علم رٹانے پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جس سے ان کی تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم میں اس رجحان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور بچوں کو غور و فکر،استدلال اور عملی تجربات کے ذریعے سیکھنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔۔اساتذہ بچوں کی ذہنی نشو و نما پر خاص توجہ دیتے ہیں اور انہیں سوالات کرنے،تحقیق کرنے اور مسائل کے حل نکالنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔۔۔۔اس طریقہ کار سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور وہ صرف نصاب کے پابند نہیں رہتے بلکہ علم کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے قابل بنتے ہیں ۔۔۔

دین سکولنگ سسٹم میں طلبہ کو قرآن مجید حفظ کرنے کی سہولت دی جاتی ہے،حفظ کے ساتھ ساتھ طلبہ کو تجوید اور قرآنی علوم کی بھی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ نہ صرف قرآن کو حفظ کریں بلکہ اس کی تلاوت بھی قواعد کے مطابق کر سکیں۔۔۔یہ سکول عربی اور انگریزی زبانوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ دیتا ہے،یہاں زیر تعلیم بچے بڑی روانی کے ساتھ عربی اور انگریزی بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔عربی زبان کی مہارت بچوں کو قرآن و حدیث کو براہِ راست سمجھنے میں مدد دیتی ہے جبکہ انگریزی زبان کی مہارت انہیں جدید دنیا کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔دین سکولنگ سسٹم میں جدید سائنسی اور فنی تعلیم کو بھی برابر کی اہمیت دی جاتی ہے،یہاں او لیول تک تعلیم دی جاتی ہے،اس نظام میں کمپیوٹر سائنس،ریاضی،طبیعات اور دیگر سائنسی مضامین کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ہم آہنگ کرکے پیش کیا جاتا ہے تاکہ بچے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں،یہ امتزاج انہیں ایک کامیاب پیشہ ورانہ زندگی کے لیے بھی تیار کرتا ہے اور دینی اقدار سے جڑے رہنے میں بھی مدد فراہم کرنا اور بچوں کو اسلامی ماحول میں جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق تعلیم دینا ہے تاکہ وہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکیں۔۔۔

یہ نظام بچوں میں صرف تعلیمی قابلیت ہی نہیں بلکہ مضبوط اخلاقی بنیادیں بھی فراہم کرتا ہے،اس جدید اور منفرد طریقہ تعلیم کے ذریعے بچے اسلامی اصولوں اور روایات سے آشنا ہوتے ہیں،انہیں سچائی،ایمانداری،صبر اور احسان جیسے اوصاف سیکھنے کا موقع ملتا ہے،ان میں تحقیق اور تنقیدی سوچ کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،وہ ایک متوازن شخصیت کے حامل بنتے ہیں جو دین اور دنیا کے درمیان اعتدال رکھتے ہیں۔۔۔یہ سکول جدید تدریسی طریقوں کو اپناتے ہوئے سمارٹ کلاسز،پراجیکٹ بیسڈ لرننگ اور ڈیجیٹل ٹولز کا بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ان تمام جدید سہولیات کا مقصد طلبہ کو وہ تعلیمی ماحول فراہم کرنا ہے جو انہیں دورِ حاضر کے چیلنجز سے نمٹنے کے قابل بنائے۔۔۔دین اور دنیا کے امتزاج پر مبنی یہ ماڈل اس لحاظ سے منفرد ہے کہ یہاں نہ صرف اسلامی تعلیمات کو جدید اسلوب میں پیش کیا جا رہا ہے بلکہ بچوں کو تخلیقی صلاحیتوں،تنقیدی سوچ اور تحقیق پر بھی خاص توجہ دی جا رہی ہے۔۔۔سکول میں بچوں کی ہم نصابی سرگرمیوں پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے،تقریری مقابلے،مضمون نویسی،قرآنی مسابقے اور دیگر تعلیمی و تفریحی سرگرمیاں طلبہ کی ذہنی نشوونما میں مدد دیتی ہیں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم روایتی طریقہ سے ہٹ کر بچوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت کو بھی خصوصی اہمیت دیتا ہے۔یہاں بچوں کو نہ صرف ایک باعمل مسلمان بنانے پر توجہ دی جاتی ہے بلکہ ان کی جسمانی صحت اور فٹنس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔اس مقصد کے تحت سکول میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیوں کو شامل کیا گیا ہے۔بچوں کو کراٹے،فٹ بال اور تیر اندازی(آرچری)کی تربیت دی جاتی ہے، جو ان کی جسمانی مضبوطی،توازن اور فوکس کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔یہ تمام کھیل کھلے میدان میں کروائے جاتے ہیں جو سکول کے اندر ہی واقع ہے،اس کا مقصد بچوں میں خود اعتمادی،برداشت اور ٹیم ورک کا جذبہ پیدا کرنا ہے۔۔۔

ایک اور قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ”دین سکولنگ سسٹم“تعلیم کو صرف کاروبار نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک خدمت کے طور پر انجام دے رہا ہے۔۔۔یہی وجہ ہے کہ یہاں یتیم بچوں کے لیے سو فیصد سکالر شپ فراہم کی جاتی ہے تاکہ وہ بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں اور ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن ہوں،اس کے علاوہ کم وسائل رکھنے والے طلبہ کے لیے رعایتی فیس کا نظام بھی موجود ہے تاکہ تعلیمی رکاوٹیں ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہ ہوں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم ایک ایسا ادارہ ہے جو بچوں کو دینی اور دنیاوی تعلیم کے حسین امتزاج کے ساتھ پروان چڑھا رہا ہے۔یہ سکول ایک ماڈل اسلامی سکول کے طور پر ابھر رہا ہے جہاں جدید اور اسلامی تعلیم کے درمیان ایک خوبصورت توازن قائم کیا گیا ہے۔مصطفی قیوم کی سرپرستی میں،یہ ادارہ معاشرے کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہو رہا اور مستقبل کے معماروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہا ہے۔۔دین سکولنگ سسٹم ایک ایسا تعلیمی ماڈل ہے جو اسلامی اقدار کو جدید تعلیم کے ساتھ جوڑ کر بچوں کی ہمہ جہت تربیت کرتا ہے۔۔۔

اگر اس نظام کو مزید ترقی دی جائے اور معیاری تعلیمی اصولوں کے ساتھ نافذ کیا جائے تو یہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اور تعلیمی ماہرین اس ماڈل کو اپنانے اور فروغ دینے کے لیے سنجیدہ کوششیں کریں تاکہ آنے والی نسلیں ایک مضبوط دینی اور تعلیمی بنیاد کے ساتھ پروان چڑھ سکیں۔۔۔دین سکولنگ سسٹم کے تعلیمی نظام کی کامیابی اس بات کی دلیل ہے کہ اگر خلوصِ نیت کے ساتھ تعلیم کو خدمت سمجھ کر فروغ دیا جائے تو یہ نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔اگر ہمارے تعلیمی ادارے حقیقی معنوں میں بچوں کی شخصیت سازی پر توجہ دیں تو ہم ایک ایسی نسل تیار کر سکتے ہیں جو نہ صرف دنیاوی علوم میں ماہر ہو بلکہ دین کی روشنی سے بھی منور ہو اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دے سکے۔۔۔مصطفی قیوم کا یہ اقدام پاکستانی تعلیمی نظام کے لیے ایک امید کی کرن ہے،جو تعلیم کو محض منافع بخش کاروبار بنانے کے بجائے اسے حقیقی معنوں میں ایک مثبت تبدیلی کے ذریعے کے طور پر متعارف کروا رہے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں