عمران خان کی عدم موجودگی میں پارٹی سربراہ کون ہو گا ؟چیئرمین تحریک انصاف نے خود ہی بتا دیا


لاہور(سٹاف رپورٹر)پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی)کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ حملے کے بعد خود کو محفوظ نہیں سمجھتا مگر اندر نہیں بیٹھوں گا، بلٹ پروف سکرین کا استعمال کروں گا مگر میں خوف سے بیٹھنا مناسب نہیں سمجھتا، میں باہر جاوں گا اور مہم میں حصہ لوں گا، میری غیر موجودگی میں پارٹی کا سربراہ کون ہو گا ؟اس پر وقت آنے پر سوچا جائے گا،سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی انہی کے پاس ہی ہونا چاہیے، ذمہ داری جمہوری حکومت کی ہو اور اختیارفوج کے پاس رہے تو کوئی سسٹم نہیں چل سکتا۔
برطانوی خبر رساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف کوئی ایسا کیس نہیں جس میں مجھے نااہل کیا جا سکے لیکن پھر بھی مجھے نااہل کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، اگر مجھے نااہل کر بھی دیا گیا تو الیکشن تو ہونے ہیں، میرے خلاف بہت سے کورٹ کیسز ہیں، آئے روز نیا کیس بنا دیتے ہیں، میری غیر موجودگی میں پارٹی کا سربراہ کون ہو گا ؟اس پر وقت آنے پر سوچا جائے گا۔
عمران خان نے کہا کہ مطالبات نہیں مانے جاتے یا نااہل کیا گیا تو ہم مظاہروں کا انعقاد کریں گے، ہم الیکشن کے سال میں ہیں، عوامی مظاہرے کریں گے جو سیاسی جماعتیں کرتی ہیں، ہماری تاریخ ہے کہ ہم ماضی میں بھی احتجاج کرتے رہے ہیں اور ہمارے مظاہرے کبھی پرتشدد نہیں ہوئے،پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ معاشی عدم استحکام ہے لیکن میری وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام نہیں، ہم تو پہلے اسمبلیاں تحلیل کرچکے ہیں،سیاسی عدم استحکام کا آغاز اس وقت ہوا جب معاشی طور پر بہترین کارکردگی دکھانے والی حکومت (تحریک انصاف) سازش کے ذریعے گرائی گئی جس (سازش) کی قیادت ایک آرمی جنرل کررہے تھے،سب سے پہلے سیاسی استحکام لایا جائے جو جلد ازجلد انتخابات ہی سے ممکن ہے، دوسرے نمبر پرسخت فیصلے کیے جائیں جیسا کہ قانون کی مکمل حکمرانی، سرمایہ کار گڈ گورننس کی وجہ سے آتے ہیں جو قانون کی حکمرانی سے ممکن ہو سکتی ہے، اس وقت طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں، ایسی صورتحال میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آسکتی، پاکستان کی معاشی بحالی کے لیے سرمایہ کاری لانا ضروری ہے۔
سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس وقت پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہیں، ورنہ ملک ڈیفالٹ کر سکتا ہے، ڈیفالٹ کی صورت میں ملک کو بہت نقصان ہو گا، سوال یہ ہے کہ کیا اس حکومت میں اتنی صلاحیت ہے؟ میرا خیال ہے کہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیشہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا ساتھ دینے کی پالیسی پر تنقید کی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی پر تنقید کا یہ مطلب نہیں کہ امریکا مخالف ہوں،میراماننا ہے کہ پاکستان کے تمام مغربی ممالک خصوصاً امریکا سے اچھے تعلقات ہونا ضروری ہیں، میں نے کبھی مغرب پر الزام عائد نہیں کیا کہ انہوں نے مجھے مارنے کی کوشش کی۔ عمران خان نے الزام لگایا کہ سندھ بلدیاتی انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے، پیپلز پارٹی صرف دھاندلی کے نتیجے ہی میں جیت سکتی ہے،یہ لوکل الیکشن تھا،بلدیاتی انتخابات میں مقامی سطح پر اچھی تنظیم سازی کی ضرورت ہوتی ہے اور اس میں بہت ہی بنیادی معاملات ہوتے ہیں، قومی سطح کا ایجنڈا نہیں ہوتا، کراچی میں ہمارے پاس مضبوط تنظیم نہیں تھی۔ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے حوالے میرا سے مو¿قف زیادہ تبدیل نہیں ہوا،پاکستان کی تاریخ میں آدھا وقت فوج نے براہ راست حکومت کی جبکہ آدھا وقت بھٹو اورشریف خاندانوں کا اقتداررہا، پاکستان کی سیاسی تاریخ کی وجہ سے فوج کا سیاسی کردار راتوں رات ختم کرنا ممکن نہیں لیکن شروعات ایسے ہو سکتی ہے کہ سویلین حکومت کے پاس اگر ذمہ داری ہے تو اختیار بھی ان کے پاس ہی ہونا چاہیے۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں سوال پر عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت آئی 40ہزار کے قریب جنگجو اور ان کے خاندانوں کو پاکستان واپس جانے کا کہا گیا،ان جنگجوو¿ں اور ان کے اہلخانہ کے ساتھ کیا کرنا ہے اس معاملے پر تمام سٹیک ہولڈرز بشمول سویلین گورنمنٹ اور آرمی متفق تھی،پلان یہ تھا کہ ان کو پاکستان میں ری ہیبیلیٹیٹ کریں گے مگر بدقسمتی سے اس وقت کے آرمی چیف پولیٹیکل انجینیئرنگ میں مصروف ہو گئے اور کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مجوزہ ری ہیبلیٹیشن اب تک نہیں ہو سکی اور اس کی وجہ سے شدت پسندی کا خطرہ بڑھا، یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں شدت پسندوں کی کارروائیاں 50 فیصد سے زیادہ بڑھی ہیں،اگر ہم حکومت میں ہوتے تو ایسے حالات نہ ہوتے جو آج ہیں، ٹی ٹی پی میں مختلف دھڑے ہیں، حکومت کو چاہیے ان میں تفریق کرے کہ کون سے دھڑے تشدد ترک کرسکتے ہیں اورری ہیبیلیٹ ہو سکتے ہیں؟کچھ کی بحالی ممکن ہے اور باقی رہ جانے والوں کے خلاف ریاست طاقت کا استعمال کر سکتی ہے لیکن طاقت کا استعمال آخری راستہ ہونا چاہیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں