اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)وزیر دفاع اور پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ہم نے اپنا پورا ملک گروی رکھ دیا،اگر امریکا کے حواری نہ بنتے تو آج یہ حال نہ ہوتا،آج سے ڈیڑھ دو سال پہلے جو
فیصلہ کیا گیا تھا،اس کی ایوان سے منظوری نہیں لی گئی اور وہ تباہ کن ثابت ہوا،پشاور پولیس لائنز دھماکہ سانحہ آرمی پبلک سکول( اے پی ایس) سے کم نہیں،اس وقت بھی تمام سیاستدان اکھٹے ہوئے تھے،اس وقت بھی قوم کو تمام تر اختلافات کے باوجود اتفاق رائے کی ضرورت ہے،امید ہے وزیر اعظم’ ’آپریشن ضرب عضب“جیسا فیصلہ کریں گے۔
پاکستان ٹائم “ کے مطابق قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ حالیہ تاریخ میں خیبرپختونخوا میں اس سے پہلے 2016 میں آرمی پبلک سکول میں حملہ ہوا اور ایسے کئی واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ہوئے جہاں قیمتی جانیں دہشت گردی کی نذر ہوگئیں، 2010 سے لے کر 2017 تک اس دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی گئی،پیپلزپارٹی کے دور میں یہ جنگ سوات سے شروع ہوئی اور مسلم لیگ ن کے پچھلے دور میں اس کا خاتمہ بالخیر ہوا اور ملک میں کراچی سے لے کر سوات تک امن قائم ہوا،آج سے ڈیڑھ دو سال قبل یا اس سے بھی پہلے اسی ایوان میں دو تین دفعہ بریفنگ دی گئی اور واضح طور پر بیان کیا گیا کہ ان لوگوں سے بات چیت ہوسکتی ہے،یہ امن کے راستے پر آسکتے ہیں،اس پر مختلف آرا سامنے آنے کے باوجود کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آسکا،آج سے ڈیڑھ دو سال قبل اجلاس میں جو بھی فیصلے کیے گئے وہ اس ایوان سے منظور نہیں ہوئے تھے،یہاں پر کوئی بات نہیں ہوئی تھی،ہمیں ایک بریفنگ میں بتایا گیا تھا کہ یہ یہ سلسلہ ہو رہا ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ اس دوران افغانستان میں جنگ کے خاتمے کے بعد ہزاروں کی تعداد میں بے روزگار ہونے والوں کو بلا کر پاکستان میں بسایا گیا،اس کا سب سے پہلے ثبوت سوات سے آیا،جب وہاں شہریوں نے احتجاج کیا،پھر حال ہی میں وانا میں عوام نے اپنے جذبات کا بڑی شدت سے اظہار کیا،جو سانحہ کل ہوا ہے،مسجد میں نماز کے وقت اگلی صف میں دہشت گرد کھڑا تھا اور خود کو اڑا دیا،یہ ایک ایسا سانحہ کہ ہمیں یک جہتی کے ساتھ اسی طرح کے قومی عزم کی ضرورت ہے جو 7 یا 10 سال قبل ہوا تھا،یہ دہشت گردی کے بیج شروع میں ہم نے خود بوئے،افغانستان میں روس کی مداخلت ہوئی تو ہم نے اپنی خدمات امریکا کو کرائے پر دی،اس وقت جنرل ضیاالحق حکمران تھے،امریکا فتح کے شادیانے بجاتا ہوا واپس چلا گیا اور ہم 10 سال اس سے نمٹتے رہے،اسی دوران نائن الیون ہوا اور اس پر ایک دھمکی ملی،وہ اصلی تھی یا نقلی لیکن ہم ڈھیر ہوگئے اور ہم ایک نئی جنگ میں شامل ہوگئے،افغانستان کی جنگ ہماری دہلیز پر آگئی، ہمارے گھروں،بازاروں، مسجدوں،سکولوں اور عوامی مقامات پر آئی اور ایک عرصے تک خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی،ان لوگوں کو آج سے دو یا ڈیڑھ سال پہلے لا کر بسایا گیا جو غلط فیصلہ تھا اور ایک ایسی پالیسی کا شاخسانہ تھا جو تباہ کن ثابت ہوا،ان لوگوں نے امن دیکھا بھی نہیں،ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امن کے گہوارے کے معاشرے میں آکر رہ سکیں گے تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسجدوں میں نمازیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہوتا ہے،ہم بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں ہم سب سے بڑی اسلامی مملکت ہیں اور کلمے پر ہماری بنیاد ہے لیکن کیا ہمارے اعمال اس بنیاد کلمے کے مطابق ہے؟مسجد کے اندر نماز کے دوران قتل عام نہ بھارت میں ہوتا ہے نہ اسرائیل میں ہوتا ہے جو ہمارے دشمن ہیں لیکن پاکستان میں ہوتا ہے جہاں اتنے فرقے ہیں،اتنی دینی جماعتیں اور وہ سیاست میں حصہ لیتی ہیں،کل جو خون پشاور میں بہایا گیا اس کا حساب کون دے گا؟کون ان سپاہیوں کے لواحقین کو بتائے گا کہ ان کے پیارے کس طرح شہید ہوئے؟یہ مرحلہ ایسا ہے یہاں پر ہمیں اپنے گریبان پر جھانکنا پڑے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور یہ لوگ کیوں لائے گئے؟آج بھی اس واقعے کی جس طرح مذمت کی جانی چاہیے،اس طرح کی آواز نہیں آرہی اور اس پر بھی مصلحت سے کام لیا جا رہا ہے،ساری قوم کو متحد ہونا چاہیے،پھر دہشت گردی کا مقابلہ ہوگا،یہ کسی ایک فرقے یا طبقے کی جنگ نہیں بلکہ پاکستانی قوم کی جنگ ہے،یہ کسی ایک مذہب کی بھی جنگ نہیں،ہماری اقلیتیں بھی اس جنگ کا شکار ہوئی ہیں، ہماری حالیہ تاریخ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ اس جنگ میں کوئی تفریق نہیں،ہر چیز کنفیوژن کا شکار ہوگئی ہے،یہ ایوان حکومت کو رہنمائی فرمائے کہ اس دہشت گردی کا کس طرح مقابلہ کرنا ہے؟ہماری افواج نے پہلے بھی امن دیا ہے قوم کو، 83 ہزار شہادتیں ہیں،عوام، فوج،پولیس اور پیرا ملٹری کی شہادتیں ہیں اور 126 ارب ڈالر اس دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیا ہے،کیا دنیا میں کہیں ہماری اس وجہ سے عزت ہوتی ہے یا دنیا اس کو تسلیم کرتی ہے؟ ہم آپس میں بھی دہشت گردی کرتے ہیں،اب تو سیاست میں بھی دہشت گردی آگئی ہے،الفاظ کی دہشت گردی آگئی ہے،طرز زندگی اور گفتگو میں دہشت گردی آگئی ہے،پچھلے 6 سال کے اندر جس طرح قوم کا مزاج بدلا ہے اس کی گواہی سوشل میڈیا میں مل جائے گی،ہم نے 126 ارب ڈالر گنوایا اور ہم 400 اور 500 ملین ڈالر کے لیے ساری دنیا میں بھیک مانگتے ہیں،ہم نے اپنا ملک گروی رکھا ہوا ہے،بنگلہ دیش ہم سے الگ ہوا اور آج ہماری اور ان کی معیشت کا کوئی مقابلہ نہیں،ہمیں سپرپاورز کا آلہ کار بننے کا شوق بڑا پرانا ہے، 60 اور 50 کی دہائی سے شروع ہوا،کیا وہ طاقتیں آپ کے ساتھ کھڑی ہیں؟کوئی نہیں،اس جنگ میں پاکستان اکیلا ہے،ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت ہے،بجائے یہ کہ ہم دہشت گردی کا شاخسانہ کہیں اور ڈھونڈیں،اگر انہوں نے بیسز بنائی ہیں یا افغانستان کی سرزمین استعمال ہوتی ہے تو اس میں بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ وہ بھی ہماری لائبلیٹی بن جاتی ہے،ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں،افغانستان ہمارا برادر ملک ہے،وہاں امن ہوگا تو ہمارے ہاں بھی امن ہوگا لیکن پچھلے 25 یا 30 سال کی تاریخ دیکھیں تو ہم نے وہاں کیا کچھ کیا ہے؟ساڑھے 4 لاکھ افغان شہری مصدقہ دستاویزات پر پاکستان آئے اور واپس نہیں گئے،ان میں کون دہشت گرد ہے اور کون دہشت گرد نہیں؟اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ تعداد سرکاری ہے،ہمارے یہاں ڈالر کا بحران ہوا تو بوریاں بھر بھر کر ڈالر افغانستان گیا اور ڈالر آسمان پر پہنچ گیا،ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ افغان شہری ہیں اور اس کے علاوہ 30 یا 35 لاکھ افغان شہری یہاں ہیں اور افغانستان کی تقریباً 50 لاکھ آبادی کا روزگار پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ہم نے ٹرانزٹ ٹریڈ کی اجازت دی ہے،یہ سارا ایک بھائی دوسرے بھائی کے لیے مدد کے لیے کر رہا ہے،دوحہ معاہدے پر انہوں نے دستخط کیے ہوئے ہیں کہ ان کی سرزمین کسی ملک یا کسی ہمسائے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی،یہ لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف ان کے ساتھ جنگ لڑ چکے ہیں اور وہ ان کا قرض اتار رہے ہیں،پاکستان میں جو کچھ بھی کر رہے ہیں،سرحد پار سے جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں،ہمارا اندرونی خلفشار وہ ہمیں لے بیٹھ گیا،کیا ہم اس ایوان میں ایک مقتدرہ ایوان کے اراکین ہیں لیکن کیا ہم اس بات کو دعوے سے سینے پر ہاتھ مار کر کہہ سکتے کہ ہم مقتدرہ ہیں؟ہم تو ایک رہن اور گروی رکھی ہوئی قوم ہیں، جس کے اپنے ہاتھ میں اپنا مستقبل نہیں ہے،ماضی اس بات کی شہادت دیتا ہے کہ تباہی کا یہ سلسلہ اور سفر ہم نے خود طے کیا،ہم نے خود اس منزل کا تعین کیا۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر آج سے 25، 30 یا 40 سال پہلے ہم امریکا کے حواری نہ بنے ہوتے،میں ان کے ساتھ اچھے تعلقات کا حامی ہوں لیکن ان کے کہنے پر ہمیں جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی،ان کے دوام یا اقتدار اور ان کے بین الاقوامی اثر و رسوخ کے لیے جنگیں نہیں لڑنی چاہیے تھی،ہمیں سپر پاورز کا آلہ کار بننے کا شوق بڑا پرانا ہے،ہمیں خود احتسابی کی ضرورت ہے،ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنا پڑے گا،یہاں اقتدار کے غم میں ایک شخص باولا ہوگیا اور ملک کی تباہی کے لیے ہر وقت تیار رہتا ہے لیکن ہم اس ایوان میں منتخب اور قوم کے رہنما ہیں، ہمیں وہ کردار ادا کرنا چاہیے،جس کا آج کے حالات تقاضا کر رہے ہیں،ہم نے اپنا پورا کا پورا ملک گروی رکھ دیا ہے۔