”اپنے استقبال سے لگا جیسے آٹا مفت اور ٹماٹر 2 روپے کلو مل رہے ہیں“

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)پاکستان مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے کہا ہے کہ مجھے جھوٹ بولنا نہیں آتا، سچا الزام بھی لگاتے ہوئے بھی کئی بار سوچتی ہوں، مسائل گھمبیر ہیں نوازشریف کی غیر موجودگی میں متحرک کردار ادا نہیں کیا جا سکا،” ووٹ کو عزت دو“ مہم میں بہت موثر سوشل میڈیا چلایا، جس پر پاپا جونز کو ہمارے خلاف کریک ڈاون کرنا پڑا، لندن میں نواز شریف اور شہباز شریف نے مجھے پارٹی کی ذمہ داری دی، اور مجھے ہدایت کی گئی کہ سرجری کے فوری بعد پاکستان واپس جائیں، نوازشریف نے مجھے خود کنونشنر کا شیڈول تیار کرکے دیا اور کہا کہ جلسے الیکشن کے قریب جا کر کریں گے، اندازہ نہیں تھا کہ ایسا عوامی ردعمل ملے گا، کارکنوں کا جذبہ دیکھ کر سے دل خوش ہوگیا، مہنگائی سے آنکھیں بند تو نہیں کی جا سکتیں لیکن استقبال سے لگا جیسا آٹا مفت اور ٹماٹر 2 روپے کلو مل رہے ہیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر توجہ کم رہی، اپوزیشن میں آپ کے پاس بیانیہ ہوتا ہے، بیانیے کی جنگ نے کارکردگی کی جگہ لے لی، ہم نے ووٹ کو عزت دو مہم میں بہت مو¿ثر سوشل میڈیا چلایا، جس کے باعث پاپا جونز کو ہمارے خلاف کریک ڈاو¿ن کرنا پڑا، ہم میدان میں کام کرنے پر یقین رکھتے ہیں، یکطرفہ میدان کھلا چھوڑا جو ہماری لاپروہی ہے، ذاتی یا پارٹی تشہیر کیلئے سرکاری خزانے سے سوشل میڈیا نہیں چلا سکتے، اس لئے مسلم لیگ کا آئی ٹی ونگ بنا رہے ہیں جس کے سربراہ افنان اللہ ہوں گے،چار سال سوشل میڈیا، ترجمانوں اور یو ٹیوبرز پر توجہ رہی، مجھے تکلیف ہے کہ نوازشریف کا کیس صحیح طرح نہیں لڑا گیا، اس کیلئے جو قانون سازی کرنی چاہئے تھی وہ یہ حکومت نہیں کرسکی، اب نواز شریف کی بے گناہی پر سب بولیں گے، لوگوں کو بتانا چاہئے کہ نواز شریف کے ساتھ ظلم کیا گیا، وہ جلد نہ صرف ہمارے درمیان بلکہ کیسز بھی ختم ہوں گے، چند ہفتوں کی بات ہے، اس کے لئے کوششیں ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کسی سے ملنے یا ناراضی دور کرنے میں میری کوئی اَنا نہیں، سب سینئر میرے والد اور چچا کے ساتھی ہیں، خود بھی نہیں چاہوں گی کہ سینئر شخصیات میرے پیچھے کھڑی ہوں، شاہد خاقان سے رابطہ ہوا وہ لاہور تھے اور انہوں نے کہا ہے کہ ملاقات کروں گا، کیپٹن صفدر انفرادی شخصیت ہیں،بات کا خود جواب دے سکتے ہیں، وزیراعظم یا وزیراعلی کے عہدے پر نظر ہے نہ ہی کوئی ٹارگٹ ہے، عہدے کو سامنے رکھا تو پارٹی کے لئے کام نہیں کرسکتی، ہم نے پری الیکشن مہم شروع کردی ہے، انتخاب میں اپنا الیکشن لڑیں گے، پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں، اسے ابھی انتخابی اتحاد نہیں کہا جاسکتا، یہی مشن ہے کہ ہر صوبے میں جماعت کی تنظیم مضبوط کروں، جہاں کمزوریاں ہیں دور کرنا ہے، تنظیمی دوروں کو پری الیکشن کمپین سمجھ لیں، ان دوروں کا ایک مقصد بہترین انتخابی نمائندوں کی تلاش بھی ہے۔مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ ن لیگ کے رہنماﺅں پر بچوں والے کیسز بنائے گئے، ہمارا دامن صاف لیکن ہفتے میں چھ دن عدالت میں پیش ہوتے تھے، عمران خان کے تو ثبوت ہیں، گھڑیاں بیچ کر اربوں روپے کمائے، سڑک بھی نواز شریف سے بنوائی، وہ عدالت نہیں جاتے پلاسٹر چڑھا دیتے ہیں، یہ عدلیہ کے لئے اچھا تاثر نہیں، ہمارے گلے کا پھندا سخت ہوتا تھا، ہمیں تو کوئی ریلیف نہیں، ان کے بہانوں پر تاریخ پڑ جاتی ہے، عدلیہ پر سوال اٹھ رہے ہیں کہ اب انصاف نہیں ہو رہا، انصاف کے معاملے میں امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے، ہمارے کیسز میں ثاقب نثار اور جنرل فیض بھی دباو¿ ڈالتے تھے، جنرل باجوہ کی توسیع پر آج بھی پرانا موقف ہے جس کی سزا بھی بھگتی، ن لیگ کو توڑنے کی کوشش کی گئی، الیکشن میں دھاندلی کرائی گئی، فوج اور آئی ایس آئی ہمارا ادارہ ہے، نظر بھی رکھنی چاہیئے، لڑائی برائے لڑائی اور مخالفت برائے مخالفت نہیں ہونی چاہئے، مخالفت بھی ایشوز پر ہونی چاہئے، یہ نہیں کہ ہاتھ نہ پکڑا تو میرجعفر،میر صادق بنا دو، پھر چھپ کر ملاقاتیں بھی ہو رہی تھی اور وہ جانور بھی ہوگئے، عمران خان پاکستان کا واحد وزیراعظم ہے جسے ووٹ کے ذریعے باہر نکالا گیا، اپنے ووٹ پورے کرانے کے لئے بھی فیض کی خدمات لی جاتی تھیں، 20 میں سے 15 الیکشن پی ٹی آئی جیتے تو ہماری کون سی سہولت کاری ہے، عمران خان کی حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا، ملک کو ہتھوڑے مار مار کر 4 سال میں توڑ دیا، آئی ایم ایف سے ہم نے کوئی معاہدہ نہیں کیا بلکہ جو گزشتہ حکومت نے شرائط طے کی تھیں وہ اب ہمیں پوری کرنی پڑرہی ہے، پی ٹی آئی کے لوگ چاہتے ہیں کہ ملک ڈیفالٹ کرجائے، سول بالادستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں