صوبائی انتخابات پرازخود نوٹس، جسٹس جمال مندوخیل نے سوالات اٹھا دیئے

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)پنجاب اورخیبرپختونخواانتخابات پرازخود نوٹس کیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوموٹو پرسوالات اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب اورخیبرپختونخوا کے انتخابات پرازخود نوٹس کیس بنتاہی نہیں ہے۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختون خوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس پر سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔سماعت کے آغاز میں بیرسٹرعلی ظفر روسٹرم پر آئے اور دلائل دیے کہ ہم نے کچھ دستاویزات جمع کرائی ہیں جس پرچیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمارے سامنے تمام ریکارڈ موجود ہے۔بیرسٹرعلی ظفر نے مو¿قف پیش کیا کہ ہم نے صدر کی جانب سے جاری شیڈول سے متعلق درخواست دی ہے جس پرعدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے صدر کی جانب سے شیڈول دینے کا معاملہ بھی ہے۔ عدالت نے انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر ازخود نوٹس لیا،وقت گزر رہا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر سے متعلق درخواستیں بھی آئی ہیں۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 کی تشریح کی ضرورت ہے، اسمبلیاں تحلیل ہوچکی لیکن شیڈول جاری نہیں ہوا۔ عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 57 تشریح طلب ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا 10 فروری کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ لاہورہائی کورٹ حکم دی چکی ہے کہیں وقت اور شیڈول جاری نہیں ہوا۔بیرسٹرعلی ظفر نے دلائل دیے کہ الیکشن کمیشن نے لاہورہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل سے انکار کیا جس پرعدالت نے کہا کہ ہمارا کسی کے نقطہ نظرسے کوئی تعلق نہیں۔ یہ آئینی معاملہ ہے، ہمیں کسی کے نکتے نظر سے دلچسپی نہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے اہم ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ آئین کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرے گی، ہم نے صرف آئین کو دیکھنا ہے،ہم آج نوٹس جاری کرتے ہیں۔ اٹارنی جنرل صاحب! آپ کا شکریہ کہ آپ یہاں موجود ہیں، یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست ہمارے سامنے ہے،ہم دو صوبائی اسمبلیوں کے لیے محافظ ہیں، ہم نوٹس جاری کرتے ہیں آئندہ ہفتے جلدی سماعت کے لیے مقرر کرینگے، 90 روز میں الیکشن کرانا آئینی معاملہ ہے، معاملہ لٹکانے کی اجازت نہیں دے سکتے، دو صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز نے بھی انتخابات میں تاخیرسے متعلق درخواستیں دی ہیں، اس معاملے میں مزید تاخیر نہیں چاہتے، یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ اورعوامی نوعیت کا ہے تبھی ازخود نوٹس لیا، ہم اس معاملے کے سماعت کو زیادہ توسیع نہیں دینگے لیکن سب کو سنیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کو بھی نوٹسز جاری کیے جائیں۔ پاکستان بار کونسل کو بھی نوٹس جاری کیا جائے جس پرعدالت نے کہا کہ ہم کل سب کو اکٹھا کرینگے اور کہیں گے کہ یہ معاملہ ہے اس پر تیاری کریں، پیر کو ہم اس معاملے پر پھر سے سماعت کرینگے۔سپریم کورٹ میں استدعا کی گئی کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے میں براہ راست شراکت دار ہیں، ان کو سنا جائے۔ جس چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ضروران کو سنیں گے۔پاکستان بار کونسل نے کہا کہ سیکریٹری جنرل اسلام آباد ہائی کورٹ بار نے شعیب شاہین کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کرتے ہیں جس پر صدراسلام آباد شعیب شاہین نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری نہ کریں یہ تو انتخابات کی تاخیر کا معاملہ ہے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ یہ آئینی اور سیدھا معاملہ ہے اس میں نوٹسز کی ضرورت نہیں عدالت خود طے کرے۔ سیاسی جماعتوں کا انتخابات کی تاخیر سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ معاملہ سیاسی جماعتوں سے جڑا ہوا ہے، انہیں سن لینے میں کوئی حرج نہیں، انتخابات سیاسی جماعتوں نے لڑنے ہیں وہ اس معاملے میں شراکت دار ہیں۔اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ لاہورہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا حکم بھی دیکھ لے تو سب واضح ہوجائے گا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم نے ان معاملات میں نہیں پڑنا ہمارے سامنے 3 سوالات ہیں صرف انکو دیکھنا ہے،پنجاب اسمبلی اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکرز نے سپریم کورٹ سے انتخابات کی تاخیر پر رجوع کیا، گورنرز نے شیڈول جاری کرنا تھا جو نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ انتخابات کے شیڈول سے متعلق لاہور ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے،لاہورہائی کورٹ تو فیصلہ بھی دی چکی ہے تاہم گورنر نے اس فیصلے کو چیلنج کررکھا ہے، لاہور ہائی کورٹ 27 فروری کے لیے نوٹسز جاری کر چکی ہے،پشاور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ زیر سماعت ہے۔ اسمبلیوں کی تحلیل کو 6 ہفتے گزر چکے لیکن ابھی تک شیڈول جاری نہیں کیاگیا، آئین 90 روز میں انتخابات کا پابند بناتا ہے تاہم اس پر عمل نہیں کیا جارہا ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کا اختیار استعمال کیا،تین سوالات نے جنم لیا اور اس کے جوابات کے لیے ازخود نوٹس کارروائی شروع کی، اٹارنی جنرل، الیکشن کمیشن اور ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹسز جاری کرتے ہیں،صدرمملکت اور گورنر پنجاب اور خیبرپختونخوا اور دیگر ذمہ داران کو نوٹسز جاری کرتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ چیف سیکریٹری پنجاب اور خیبرپختونخوا کو بھی نوٹس جاری کرتے ہیں۔سپریم کورٹ نے پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی، وائس چیرمین پاکستان بار کونسل، صدرسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ جس کا جو بھی مو¿قف ہے وہ عدالت کو آگاہ کرے۔
جسٹس جمال جان مندوخیل نے کہا کہ کچھ آڈیو سامنے آئی ہیں، جس میں عابد زبیری کچھ ججز کے حوالے سے بات کر رہے ہیں،ان حالات میں میری رائے میں یہ کیس 184(3) کا نہیں بنتا۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے اس کیس میں آئنی شق پر بات کر رہے ہیں، پہلا سوال یہ ہوگا کہ اسمبلی آئین کے تحت تحلیل ہوئی یا نہیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اسمبلی کو بھی 184(3) میں دیکھنا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے سماعت سوموار تک ملتوی کرنے کی استدعا کی جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہوگی جس کے بعد سپریم کورٹ نے سماعت کل 11 بجے تک ملتوی کردی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں