فوج نے کس سے پوچھ کر دہشت گردوں سے مذاکرات کیے؟خواجہ آصف کی قومی اسمبلی میں گھن گرج

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں دھواں دار خطاب کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ فوجیوں، ججوں اور شاہ محمود قریشی نے تسلیم کیا کہ پانامہ کیس میں نواز شریف سے زیادتی کی گئی، غیر آئینی طریقے سے اقتدار سے نکالا گیا ، آج تک اس ملک میں کس طبقے کا احتساب ہوا ہے ؟ کیا جنرل باجوہ اور دیگر اس بات کا جواب دینگے کہ دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے؟کیا چند اشخاص جنہوں نے طالبان کو واپس لاکر بسایا، ان کا احتساب ہوگا؟ایسے ایسے ادارے موجود ہیں جو ملک کی قیمتی زمینوں پر قابض ہیں،ان کا آڈٹ نہیں کرا سکے،جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے،سپریم کورٹ میں پنجاب، خیبر پختونخوا کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس 9 ججز کے بینچ کا نہیں بلکہ فل کورٹ کا متقاضی ہے،جیل بھرو تحریک فلاپ ہو گئی اب ڈوب مرو تحریک چلاو۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ اس ملک میں سب سے پہلی آئینی واردات عدلیہ نے کی،پہلا آئینی حادثہ ایک جج نے کیا تھا،جس نے نظریہ ضرورت کو درست قرار دیا،اس ملک میں سب سے
اس ملک میں سب سے پہلی سیاسی شہادت کی ذمہ دار عدلیہ ہے،جب ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی پھر آئینی شہادت عدلیہ نے ہی کی جب نواز شریف کو عدلیہ نے نکال دیا،عدلیہ کیسی مثالیں سیٹ کر رہی ہے کہ نواز شریف نے تو 200 پیشیاں بھگتیں،وہ فجر کے وقت پیشی بھگتنے گھر سے نکلتے تھے لیکن ایک یہ ہے،وہ پیشی کیلئے گھر سے ہی نہیں نکلتا اور اسے سہولتیں دی جاتی ہیں،کیا اس شخص کا کوئی میڈیکل ہوا یہ جو ٹانگ کو لیکر کئی مہینوں سے بیٹھا ہوا ہے؟ایک ماہ میں چھتوں کے لینٹر کھل جاتے ہیں لیکن 6 ماہ میں اسکی ٹانگ کا پلاسٹر نہیں کھلا،ہمیں بتایا جاتا ہے حاکمیت کس طرح کرنی ہے؟اس ملک کی بنیادوں میں سیاسی ورکر کا خون ہے،یہ ملک سیاسی جہدوجہد کی صورت میں قائم ہوا،پاکستان بنانے والے عمران خان کی طرح سپانسرڈ لوگ نہیں تھے،پوچھنا چاہتا ہوں کہ ایک شکایت رہتی ہے کہ پارلیمنٹیرینز ججز کا نام لےکر تنقید کرتے رہتے ہیں،کچھ ججز پر تنقید کی جاتی ہے تو کچھ پر کیوں نہیں ہوتی؟جسٹس ثاقب اورجسٹس کھوسہ پرتنقید ہوتی ہے تو جسٹس ناصر الملک پرکیوں نہیں ہوتی؟یہ سوال عدلیہ کے لیے ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے؟جب ججز ہماری حدود میں داخل ہونگے تو ہم بھی سوال اٹھائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ بیٹھ کر اس مسئلے کا حل تلاش کرے اور ایسا حل نکالے کہ جو نہ صرف ہمارے لیے تریاق ہو بلکہ جو مرض ہمیں دہائیوں سے لاحق ہیں ان کا بھی بندوبست کرلیا جائے،اس وقت سپریم کورٹ میں از خود نوٹس کی سماعت ہورہی ہے،کچھ سوالات مرتب کیے گئے ہیں جن کے جوابات سپریم کورٹ میں ڈھونڈے اور دیے جائیں گے جس میں سیاسی جماعتوں،بار کونسلز سمیت متعدد فریقین شامل ہیں،کل شروع ہونے والا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے جس کے مثبت و منفی اثرات موجودہ نہیں بلکہ مستقبل میں بھی ملک کے سیاسی اور عمومی حالات پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ خوش آئند بات ہے کہ 9 ججز کا بینچ تشکیل دیا گیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ فل کورٹ کا متقاضی ہے،اس وقت ملک کو جس آئینی بحران کا سامنا ہے یہ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے آئین کی دفعہ 63-اے کو ری رائٹ کرنے کا اثر ہے،سپریم کورٹ کے انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت میں ایک بات کی گئی کہ کیوں نہ اسمبلیوں کی تحلیل پر بات کرلی جائے کہ کیا وہ ٹھیک تھی یا غلط؟اس سے پہلے چلے جائیں کہ جب اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اختیار سے تجاوز کرتے ہوئے آئین کی دفعہ 63-اے کو ری رائٹ کیا،یہ ان کا کام نہیں تھا اور جس آئینی بحران کا ہم اس وقت سامنا کر رہے ہیں یہ اس کا براہِ راست اثر ہے،پورا ملک سیاسی،معاشی اعتبار سے رک جانے کے قریب پہنچا ہوا ہے،یہ سارا سلسلہ اگر جانا ہے تو اس وقت جو لوگ ملوث تھے ان سب کی براہِ راست اور بالواسطہ اعترافات بھی آچکے ہیں کہ پاناما کیس میں نواز شریف کے ساتھ کیا ہوا تھا،نواز شریف کے ساتھ جس طرح زیادتی ہوئی،انہیں تاحیات نااہل کیا گیا،کون سا ایسا ادارہ ہے جس کے کسی فرد کو کوئی اور ادارہ نااہل کردے؟یہ کہاں کی مثال،کہاں کا قانون ہے؟۔وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض سے کوئی پوچھنے والا ہے؟دونوں جرنیلوں نے افغانستان سے ہزاروں جنگجووں کو واپس پاکستان لا کر بسایا اور ہمیں بتایا گیا وہ پر امن رہیں گے،پھر پشاور مسجد میں سو سے زیادہ لوگ مار دیے گئے،کیا جنرل باجوہ اور دیگر اس بات کا جواب دینگے کہ دہشت گردوں سے کس کے کہنے پر مذاکرات کیے گئے؟کیا چند اشخاص جنہوں نے طالبان کو واپس لاکر بسایا،ان کا احتساب ہوگا؟۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں