ازخود نوٹس کیس ،سپریم کورٹ فیصلہ کب سنائے گی؟اہم خبر آ گئی

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ نے صوبائی انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا جو کل صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ پر سپریم کورٹ از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں 90 روز میں الیکشن ضروری ہیں، کیس کا فیصلہ آج ہی کریں گے۔کیس کی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر وکلا نے قائدین سے مشاورت کی،پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے پارٹی موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کی تاریخ مقرر کرنا سیاسی جماعتوں کا کام نہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے وکیل منصور اعوان نے کہا کہ پارٹی قیادت سے بات چیت کر لی ہے،مزید مشاورت کے لیے وقت درکار ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 2 ہفتے نوٹس دینے میں لگائے،لاہور ہائی کورٹ میں بھی معاملہ التواءمیں ہے،سپریم کورٹ میں آج مسلسل دوسرا دن ہے اور کیس تقریباً مکمل ہو چکا ہے،عدالت کسی فریق کی نہیں بلکہ آئین کی حمایت کر رہی ہے۔دوران سماعت فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ عدالت ہائی کورٹس کو جلدی فیصلے کرنے کا حکم دے سکتی ہے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت معاملہ آگے بڑھانے کیلئے محنت کر رہی ہے، ججز کی تعداد کم ہے پھر بھی عدالت نے ایک سال میں 24 بڑے کیسز نمٹائے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ دینا صدر کی صوابدید ہے،اسمبلی مدت پوری ہو تو صدر کو فوری متحرک ہونا ہوتا ہے،فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں بینچ تشکیل کا طریقہ کار موجود ہے،سپریم کورٹ رولز کے مطابق یہ آگاہ کرنا ضروری ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے یا نہیں؟جس پرجسٹس منیب اختر نے کہا کہ درخواست گزار نے ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہوا ہو تو بتانا ضروری ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ سماعت اصل سوال الیکشن کی تاریخ دینے کا ہے کہ کون دے گا، 14 جنوری سے کسی کو فکر نہیں کہ تاریخ کون دے گا،پارلیمنٹ چاہتی تو کچھ کر سکتی تھی،جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میں سینیٹر ہوں ابھی سینیٹ اجلاس نہیں ہو رہا۔چیف جسٹس نے کہا کہ 3 ہفتے سے ہائیکورٹ میں صرف نوٹس ہی چل رہے ہیں،اعلیٰ عدلیہ کو سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے،صرف مخصوص حالات میں عدالت از خود نوٹس لیتی ہے،گزشتہ سال 2،اس سال صرف ایک از خود نوٹس لیا،سب متفق ہیں کہ آرٹیکل 224 کے تحت 90 روز میں الیکشن لازم ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت تلاش میں ہے کہ الیکشن کی تاریخ کہاں سے آنی ہے؟مستقبل میں الیکشن کی تاریخ کون دے گا اس کا تعین کرنا ہے،صرف قانون کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں، عدالت کسی سے کچھ لے رہی ہے نا دے رہی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ جوڈیشل ایکٹوازم میں تحمل پر عدالت کا مشکور ہوں، فاروق ایچ نائیک کے دلائل مکمل ہونے پر ن لیگ کے منصور اعوان نے دلائل شروع کیے۔وکیل مسلم لیگ ن منصور اعوان نے کہا کہ 1975 میں آرٹیکل 184/3 کی پہلی درخواست آئی تھی،عدالت نے تمام اعتراضات مسترد کرتے ہوئے مقدمہ سنا تھا،ہائی کورٹ کا فیصلہ آ چکا جو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہے،اگر عدالت کہتی ہے کہ گورنر تاریخ دے گا تو کوئی مسئلہ نہیں،عدالت کسی اور نتیجے پر گئی تو ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم ہو جائے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ موجودہ حالات میں مقدمات 2 مختلف ہائی کورٹس میں ہیں،ایسا بھی ممکن ہے دونوں عدالتیں متضاد فیصلے دیں،وقت کی کمی کے باعث معاملہ اٹک سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بھی ممکن ہے ہائی کورٹس کا فیصلہ ایک جیسا ہو اور کوئی چیلنج نہ کرے،اس پر وکیل ن لیگ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے دو آئینی اداروں کو مشاورت کا کہا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اصل معاملہ وقت کا ہے جو کافی ضائع ہو چکا، 90 دن کا وقت گزر گیا تو ذمہ دار کون ہو گا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں کیس زیادہ تاخیر کا شکار نہیں ہو رہا،وکیل ن لیگ نے کہا کہ امکان ہے ہائی کورٹس کے فیصلے مختلف ہی آئینگے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہا ہے کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی،عابد زبیری نے موقف اپنایا کہ تاریخ دینے کی بات کا زکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3)میں ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں،عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے اعلان نہیں کیا گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کہ رہے ہیں حکومت آئینی ذمہ داری پوری نہیں کررہی؟نوے روز میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے،اٹارنی جنرل سے کہیں گے آئینی نکات پر معاونت کریں،عابد زبیری نے استدلال کیاکہ وقت کے دباو میں اگر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر مملکت تاریخ دے گا،میرے موقف ہے کہ انتخاب کی تاریخ دینا صدر مملکت کا اختیار ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مشاورت میں وسائل اور حالات کا جائزہ لیا جائے گا،اگر الیکشن کمیشن انتحابات کرانے سے معذوری ظاہر کرے کیا پھر بھی گورنر تاریخ دینے کا پابند ہے،عابد زبیری نے کہا کہ گورنر ہر صورت تاریخ دینے کا پابند ہے،جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر کے پاس تاریح نہ دینے کا کوئی اختیار نہیں،گورنر الیکشن کمیشن کے انتطامات مدنظر رکھ کر تاریخ دے گا،کیا صدر کابینہ کی ایڈوائس کے بغیر کوئی فیصلہ کرسکتا ہے؟۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ صدر کے اختیارات آئین میں واضح ہیں،صدر ہر کام کے لیے ایڈوائس کا پابند ہے،عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت ہر کام کے لیے ایڈوائس کے پابند نہیں،صدر ہر وہ اختیار استعمال کرسکتے ہیں جو قانون میں دیا ہوا ہو،انتحابات کی تاریخ پر صدر اور گورنر صرف الیکشن کمیشن سے مشاورت کے پابند ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر بطور سربراہ مملکت ایڈوائس پر ہی فیصلے کرسکتے ہیں,جسٹس محمد علی مظہر نے کہا گورنر جب بھی تاریخ دے گا 52 دنوں کا مارجن رکھا جائےگا،جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ صدر کے اختیارات برارہ راست آئین نے نہیں بتائے،آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہوگا،قانون بھی تو آئین کے تحت ہی ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے؟صدر مملکت کس قانون کے تحت چھٹیاں لکھ رہے ہیں؟عابد زبیری نے کہا کہ صدر مملکت نے مشاورت کے لئے خط لکھے ہیں،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگر مان لیا قانون صدر مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کا پابند ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے،صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں؟۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ انتخابات 90 روز سے آگئے کون لیکر جا سکتا ہے یہ الگ بات ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن گورنر کی تاریخ کو آگے بڑھا سکتا ہے؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اگر 85 ویں دن الیکشن کا کہے تو الیکشن کمیشن 89 دن کا کہہ سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ گورنر کو اسی وجہ سے الیکشن کمیشن سے مشاورت کا پابند کیا گیا ہے،صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں،اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں،دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دے تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا،جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدنظر رکھنا ہے،اٹارنی جنرل نے کہا کہ الیکشن 90 روز میں ہی ہونے چاہیں،الیکشنز کو 90 روز سے آگے نہیں لیکر جانا چاہیے۔اٹارنی جنرل کے دلائل جاری تھے کہ اس دوران عدالت عظمیٰ نے سماعت میں ساڑھے گیارہ بجے تک وقفہ کردیا۔

بعد ازاں وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل شہزاد الہی نے اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے موقف اپنایا کہ الیکشن کمیشن آزاد ادارہ ہے جس کی ذمے داری انتخابات کرانا ہے،گورنر پنجاب کا موقف ہے الیکشن کمیشن خود تاریخ دے،گورنر نے انٹرا کورٹ اپیل میں کہا ہے کہ ان سے مشاورت کی ضرورت نہیں،الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ وہ ازخود تاریخ کیسے دے؟۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سمجھ نہیں آتا ہائیکورٹ میں 14 دن کا وقت کیوں مانگا گیا؟بطور اٹارنی جنرل آپ کیس شروع ہوتے ہی مکمل تیار تھے،ایسے کونسے نکات تھے جس کی تیاری کے لئے وکلاء کو 14 دن درکار تھے؟ہائیکورٹ میں تو مقدمہ روزانہ کی بنیاد پر چلنا چاہیے تھا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سامنے صدر مملکت کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے جہاں انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کے تحت صدر کو اختیار آئین کے مطابق دیا گیا ہے،الیکشن کی تاریخ دینے کے لیے صدر اور گورنر کو ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہے،صدر کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی اختیار ہے،جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیار پر آپ کا موقف آ گیا،کیا آپ سپیکرز کی درخواستوں کو قابل سماعت سمجھتے ہیں؟درخواستیں 90 روز میں انتخابات کے لیے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف کیسے تاریخ دے دی؟جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر ہائی کورٹ میں فریق نہیں تھے۔لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں سیکشن 57 کا حوالہ نہیں تھا،صدر کو قانونی مشورہ دیا گیا کہ اپنا آئینی اختیار استعمال کریں،گورنر کے پی کے تاریخ دینے کا اختیار استعمال نہیں کر رہے تھے،صدرمملکت تسلیم کرتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں الیکشن کے لیے انہیں تاریخ نہیں دینی چاہیے تھی،صدر کو خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں تھا،صدر مملکت اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں گے،گورنر خیبرپختونخوا کا موقف معاملے کو پیچیدہ بناتا ہے،پنجاب میں صدر کو اختیار تھا لیکن خیبرپختونخوا میں نہیں تھا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ صدر کو رائے آپ نے کس بنیاد پر دی یہ بتایں؟ وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر مملکت نے فیصلہ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیں،صدر مملکت کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں گورنر نے اسمبلی تحلیل کی اور انتخابات کی تاریخ دینا بھی گورنر ہی کا اختیار ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اب تک صدر مملکت نے خیبرپختونخوا کی حد تک ایڈوائس واپس کیوں نہیں لی؟ جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ صدر مملکت جلد ایڈوائس واپس لیں گے،صدر نے الیکشن کمیشن کو مشاورت کے بلوایا تھا لیکن الیکشن کمیشن نے مشاورت سے انکار کر دیا اور صدر مملکت نے آئین اور قانون کے مطابق تاریح دی کیونکہ 90 روز میں ہر صورت انتحابات ہونے چاہئیں،عدالت ازخود نوٹس لینے اور درخواستیں سننے کے لیے با اختیار ہے، صدر کو آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی دھمکیاں مل رہی ہیں،کابینہ نے صدر کو کہا ہے کہ آپ کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جہاں آرٹیکل 6 لگتا ہے وہاں لگاتے نہیں ہیں۔صدرمملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے لیا گیا از خود نوٹس کیس کی سماعت مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا۔سپریم کورٹ کی جانب سے از خود نوٹس کا فیصلہ کل(بدھ) صبح 11 بجے سنایا جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں