تحریر :ندیم احمد اعوان
ایک عقلمند انسان جب کوئی کام کرتا ہے تو اس کے کچھ مقاصد اور اغراض ہوتے ہیں، جن کی تکمیل کے لیے وہ شب و روز جد و جہد کرتا ہے، جانی ومالی قوت صرف کرتا ہے اور ان کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرتا ہے، اگر کچھ مسائل و مصائب درپیش ہوں تو انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا ہے لیکن اپنے مقصد اور مشن سے قدم پیچھے نہیں ہٹاتا اور نہ ہی لا یعنی اوربیکار چیزوں میں اپنا وقت ضائع کرتا ہے۔۔۔ ایک انسان جب بلا مقصد کوئی کام نہیں کرتا تو کیا آپ نے اس وسیع و عریض کائنات میں کبھی غور کیا کہ یہ چمکتا ہوا چاند، روشن سورج، اونچے نیل گوں آسمان، چوڑی چکلی زمین، یہ ہرے بھرے درخت، پھیلے ہوئے پہاڑ، چرند و پرند، تالاب اور سمندر اوربھی ان گنت چیزیں جن سے خدا نے کائنات کو سجایا اور بسایا ہے، اس کا کیا مقصد اور غرض ہے؟ کیا آپ نے کبھی اپنے وجود میں غور کیا کہ یہ حیرت انگیز جسمانی ساخت، دماغ اور معدہ کا پیچیدہ نظام، آنکھ، کان، ناک، ہونٹ، زبان اور دیگر اعضاءکی مناسب تخلیق کس نے اور کیوں کی؟ ؟؟کیا یہ سارا نظام یوں ہی وجود میں آگیا یا اس کا کچھ مقصد اور غرض ہے؟ ؟؟یہ اور اس طرح کے مختلف سوالات کے جواب کے لیے قرآن اور احادیث کی تصریحات پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوگا کہ ساری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے انسان کے نفع کے لیے بنایا، اگر کسی میں ظاہری طور پر ضرر کا پہلو نظر آئے تو بھی یقین کرنا چاہئے کہ اس میں بھی انسان کا نفع پوشیدہ ہے۔۔۔ ہماری عقل اس کے ادراک سے قاصر ہے، بہر حال دنیا کی تمام چیزیں انسانی خدمت اور ان کی نفع رسانی کے لیے ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، یعنی انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا اور اس کے مشمولات سے نفع اٹھائے اور اپنے رب کی بندگی و اطاعت کرے، اپنی مرضی کو اسی کی مرضی کے تابع کرے اور اسی کو حاجت روا اورمشکل کشا سمجھے، خدانے تخلیق انسانی کے اس مقصد کو اس طرح بیان کیا ہے”میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں، میں ان سے کوئی رزق نہیں چاہتا اور نہ یہ چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں، اللہ تو خود ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست“ مذکورہ آیات میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے جو چیز مطلوب ہے وہ عبادت ہے، عام انسانوں کی طرح کوئی ذاتی نفع یا خدمت مقصود نہیں، جیساکہ دنیامیں دستور ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا آدمی اگر کوئی غلام خریدتا ہے تو اس کا مقصد اس کے ذریعے رزق حاصل کرنا، اسے کسی کام میں مصروف رکھ کر اس کا عوض لینا یا اپنے کاموں میں مدد لینا ہوتاہے، مگر اللہ تعالیٰ ان تخیلات سے پاک اور برتر ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں، وہ رزق کا محتاج نہیں کہ وہ بندوں سے رزق کا مطالبہ کرے، وہ اتنی زبردست قوت کا مالک ہے کہ وہ خود ساری مخلوقات کو رزق دیتا ہے، ان کے مسائل کو حل کرتا ہے اور ان کی مرادیں پوری کرتا ہے، ایسے زور آور اور قادر و توانا کو بندوں کی خدمت کی کیا حاجت؟؟؟اس لیے ان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت و عبودیت ہے کہ وہ اپنے رب کی شہنشاہی اور عظمت و کبریائی کا قولاً وفعلاً اعتراف کرکے اس کو سجدہ کرے اور اپنی ساری خواہشات اور قلبی ارمان کو اس کے تابع کردے۔۔۔ عبادت کا اصل مطلب خدا کے آگے پستی اور عاجزی اختیار کرنا ہے، اس کو بڑا اور محسن حقیقی سمجھتے ہوئے اس کے لیے اپنے آپ کو انتہائی حد تک بچھا دینا ہے، جب انسان میں یہ صفت پیدا ہوگی تو اس میں تضرع و انکساری اور حد درجہ کی عاجزی پائی جائے گی اور یہی کیفیت خدا کو مطلوب ہے اور یہی خلاصہ عبادت بھی ہے، پھر عبادت کا یہ عمل جس عظیم ہستی کے آگے ہوتاہے وہ اس لائق بھی ہے کہ اس کی عبودیت کی جائے اور اس کو سجدہ کیا جائے۔۔۔کیوںکہ اس نے انسان کو مٹی اور پھر منی کے ایک ناپاک قطرے سے مختلف مراحل میں پیدا کیا، اس کی کوئی حیثیت اور عزت نہیں تھی مگر اس نے ان کے مقام کو بلند اور ارفع کیا، ان کو مکرم اور محترم بنایا، عقل و شعور عطا کیا اور مختلف علوم و فنون سے آراستہ کیا، ذرا سوچئے! کہ انسان کی حقیقت کیا تھی، وہ ایک قطرہ ناپاک سے پیدا کیا گیا اور پھر کس طرح اس کو مزین اور خوبصورت بنایا، تخلیق کی اس کاریگری کو مختلف آیات میں بیان کیا گیا ہے، سورة المومنون میں ہے: ”ہم نے انسان کو مٹی کے ست سے بنایا، پھر اسے ایک محفوظ جگہ ٹپکی ہوئی بوند میں تبدیل کیا، پھر اس بوند کو لوتھڑے کی شکل دی، پھر لوتھڑے کو بوٹی بنادیا، پھر بوٹی کی ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا، پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کرکھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ سب کا ریگروں سے اچھا کاریگر“ انسان کی تخلیق کے حیرت انگیز مراحل کا تذکرہ کرتے ہوئے خصوصیت کے ساتھ یہ جملہ قابل توجہ ہے(پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کرکھڑا کیا) ۔یعنی بوند سے لوتھڑااور لوتھڑا سے گوشت کی بوٹی اور پھر بوٹی سے ہڈی، یہ تبدیلی اور تخلیقی کیفیت تو جانوروں میں بھی ہے مگر انسانوں میں بطور خاص جو امتیاز ہے وہ اس کا شعور، عقل وآگہی، بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہونا اور دیکھنے اور سوچنے کا اہل ہونا ہے، انسانوں نے اسی عقل و شعور کے سبب بے شمار حیرتناک اشیاءکا انکشاف کیا، مختلف ایجادات کے ذریعے دنیا کو مزین کیا اور اب چاند سے بھی آگے بڑھنے کی باتیں کررہے ہیں، اسی عقل و شعور کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے بندوں کو مکلف بنایا کہ وہ اپنے خالق، محسن اور پروردگار کو پہچان کر اس کی اطاعت کریں اور یقین رکھیں کہ جس نے اس عجیب و غریب مراحل سے گذار کر بے جان ڈھانچے کو روح بخشی اور تمیز و عقل اور سمع و بصر کی عظیم صلاحیتوں سے نوازا وہی کائنات کا خدا اورپالنہار ہے۔ اس مضمون پر مشتمل متعدد آیات ہیں جن میں انسان کو اپنی حقیقت پر غور کرنے اورمعبود حقیقی تک پہنچنے کی دعوت دی گئی ہے، عقل و شعور کا تقاضہ ہے کہ اپنے محسن اور منعم کو فراموش نہ کیا جائے، جس طرح دنیا میں دستور ہے کہ کسی شخص سے اگر معمولی نفع وابستہ ہوتا ہے تو اس کی مرضی اور خوشی کو اپنی مرضی اور خوشی پر ترجیح دیتا ہے، اس کی ناراضگی اس کے لیے بوجھ بن جاتی ہے، وہ نہیں چاہتا کہ وہ شخص اس سے کبھی ناراض ہو، ایک حقیر نفع دینے والے شخص کی یہ اہمیت ہے تو اس خدا کی کتنی اہمیت اور عظمت ہونی چاہئے جس نے انسان اور ساری کائنات کو وجود بخشا، جو خالق ہے، مالک ہے، رازق ہے، کھلاتا ہے، پلاتا ہے، جلاتاہے، مارتا ہے، آسمانوں کو اس نے بنایا ہے، زمینوں کو اس نے پھیلایا ہے، ہوائیں وہ چلاتا ہے، سمندروں کو وہ بہاتا ہے، بارشوں کو وہ برساتا ہے، بیماری اور موت وحیات کا وہ مالک ہے اور ہر انسان پر اس کے اتنے احسانات ہیں کہ ان کو کوئی شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کرسکتا: ”اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکتے، حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے“ لوگ مال و دولت، اسباب و وسائل کی فراوانی، عیش و عشرت کی چیزوں کو ہی نعمت سمجھتے ہیں، جو افراد مالدار ہوتے ہیں ان کے بارے میں تصور رہتا ہے کہ اللہ نے ان پر بڑا احسان کیا ہے اور جو لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گذاررہے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے اوپر اللہ کا کوئی خاص انعام و او اکرام ہیں، انسان غور کرے تو وہ پکار اٹھے گا کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے ہمارے اوپر بے پایاں احسانات ہیں، وہی ہمارا رب اور پالنہار ہے، وہی اس لائق ہے کہ اسے سجدہ کیا جائے اور اپنی پیشانی جو اشرف ترین عضو ہے، اس کو زمین پر عظمت الٰہی کے اقرار میں رکھ دیا جائے، جسے تذلل، خشوع و خضوع، خشیت و انابت اور قنوت وغیرہ سے قرآن نے تعبیر کیا ہے اور جو عبادت کی اعلیٰ ترین قسم ہے۔ غرض بندوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچانیں اور اس سے ربط کو مستحکم کریں، اس کی عبودیت کا دم بھریں اور ساری کائنات سے منہ موڑ کر صرف ایک خدا کو اپنا سہارا بنالیں، یہی وہ فریضہ اور ذمہ داری ہے جس سے آگاہ کرنے کے لیے انبیاءکرام علیہم السلام کو بھیجا گیا، جنہوں نے انسانوں کو معبود حقیقی سے ملانے کا کام کیا، قدم قدم پر ان کی رہنمائی کی اور ایسے اصول و ضوابط بیان کئے جن پر چل کر ایک انسان حقیقی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، بہت سے بندوں نے ان کی دعوت قبول کی اور جن کے مقدر میں ہدایت نہیں تھی،وہ اس دعوت سے دور رہے اور ہمیشہ کے لیے ذلت و رسوائی ان کا مقدر بن گئی، قرآن نے اس اصول خداوندی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ”ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبر دار کردیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو، اس کے بعد ان میں سے کسی کو اللہ نے ہدایت بخشی اور کسی پر ضلالت مسلط ہوگئی“ عبادت خداوندی کا مسئلہ اتنا اہم ہے کہ اگر آدمی اپنے وطن میں عبادت اور اسلامی زندگی بسر کرنے کے مواقع نہ پارہا ہو تو حکم ہے کہ وہ اس کو چھوڑ کر دوسرے علاقہ میں چلا جائے، جہاں وہ اپنے ایمان و اعتقاد کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکے؛ اس لیے کہ عبادت اوراسلامی اصول کے مطابق زندگی گذارنے کے لیے ہی انسان کی تخلیق عمل میں آئی ہے، اس مقصد کی تکمیل کے لیے جتنا بھی جتن کیا جائے کم ہے، تمام انبیائے کرام نے اس ذمہ داری کا احساس دلایا ہے اور ہر ایک کی یہی دعوت تھی: ”لوگو! بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ گذرے ہیں ان سب کا خالق ہے، تمہارے بچنے کی توقع اسی صورت میں ہوسکتی ہے، وہی توہے جس نے تمہارے لیے زمین کا فرش بچھایا، آسمان کی چھت بنائی، اوپر سے پانی برسایا اور اس کے ذریعہ سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا، پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھہراو“ حضرت نوحؑ ، حضرت ہود ؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت ابراہیم ؑ، حضرت یعقوب ؑ، حضرت شعیب ؑ، حضرت موسی ؑ، حضرت عیسی اور جتنے بھی انبیاءکرام علیہم السلام آئے سب کی مشترکہ دعوت توحید و آخرت تھی، یعنی تمام نبیوں اوررسولوں نے بندوں کو خدا سے جوڑنے اور اسی کی عبادت کرنے کی تلقین کی، معبودان باطلہ اور دنیا کی چمک دمک سے منہ موڑنے کی ہدایت دی اور صاف صاف واضح کردیا کہ عبادت کے لائق صرف ایک خدا کی ذات ہے، اسی کی عبادت کرنی چاہئے اور اسی کو اپنا سہارا اور ٹھکانا بنانا چاہئے، رسول اکرم ﷺ سے خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے ”ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی رب نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو“ سورہ
ہے، تمام انبیاءکرام کی یہی فکر تھی کہ کسی طرح ہماری قوم خدا آشنا ہوجائیں، اس کی عبودیت اور بندگی کو مقصد حیات بنالیں، انبیاءکرام علیہم السلام جو اللہ کے حقیقی نمائندے تھے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ ہمارا مقصد تم سے دنیا حاصل کرنا یا کچھ اجرت طلب کرنا نہیں ہے، اس کام کا اجر تو اللہ تعالیٰ ہی دینے والا ہے، تم لوگوں سے صرف اتنی ہی خواہش ہے کہ اپنے حقیقی خالق و مالک اور اپنے حقیقی محسن پر ایمان لاو اور اسی کو اپنا مرجع و ملجا بنالو: ”تم نے میری نصیحت سے منہ موڑا تو میرا کیا نقصان کیا؟ میں تم سے کسی اجر کا طلبگار نہ تھا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ خواہ کوئی مانے یا نہ مانے، میں خود مسلم بن کر رہو ں“ قرآن شاہد ہے کہ خدا کے تمام فرستادہ نمائندوں نے حق کی آواز خدا کے بندوں تک پہنچادی اور ان کو آگاہ کردیا کہ وحدانیت ہی کامیابی کی راہ ہے، جسے دنیاو آخرت کی سرخروئی عزیز ہے اور جو ابدی راحت و آرام کا طالب ہے، اسے چاہئے کہ جب تک جسم سے روح کا رشتہ باقی ہے وہ خدا کے لیے ہی اپنی
عبودیت کا دم بھرتا رہے، اسی کو اپنا معبود اور مسجود بنائے، خواہ اس کے لیے ہزار مصائب سے گذرنا پڑے، اور گھبرادینے والے خوفناک مراحل پیش آئے، مگر ایمان و یقین پر تذبذب کا کوئی سایہ بھی نہ پڑ سکے، یہی مطلوب تھا تمام پچھلی قوموں سے اوررسول اکرم ﷺ کی خاتم النبیینﷺ کی حیثیت سے بعثت عمل میں آئی تو آپ ا نے بھی اپنے متبعین سے اسی کا مطالبہ کیا، حضرت معاذ بن جبل ؓ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اکرمﷺ ا نے دس چیزوں کی خاص طور پر وصیت کی، ان میں پہلی چیز یہ تھی:خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراو خواہ تمہیں قتل کردیا جائے یا جلادیا جائے یا سولی دے دی جائے۔ ان ساری روایات کا حاصل یہ ہے کہ آدمی ہر حال میں خدا کی ۔
نوٹ: پاکستان ٹائم کا معزز کالم نگارکی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں
شعراءمیں مختلف انبیاءکرام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان سب کی ایک ہی دعوت کا تفصیلی بیان