ٹیریان کیس،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایسے ریمارکس کہ عمران خان کی پریشانی بڑھ جائے

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ”مبینہ بیٹی“ چھپانے کے کیس میں نااہلی کی درخواست پر سماعت جاری ہے، چیف جسٹس عامر فاروق کی سربراہی میں لارجر بینچ درخواست پر سماعت کررہا ہے۔چیف جسٹس عامر فاروق نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر میرٹ پر جائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق ٹیریان وائٹ کیس میں درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ اور عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ابوزر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے درخواست کے قابل سماعت سے متعلق عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کا سوال ہے، عدالت نے آخری سماعت پر مزید دستاویزات جمع کرنے کیلئے مہلت دی تھی، نوٹسسز جاری ہوتے ہیں تو پھر فریق کو جواب جمع کرنا ہوتا ہے، فریق کی جانب سے مختلف اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست کے قابل سماعت ہونے یا میرٹ پر دلائل دینے ہیں یہ آپ پر ہے، ہم ابھی نہیں کہہ رہے کہ آپ میرٹ پردلائل دیں، اگر میرٹ پر جائیں تو یہ دو منٹ کا کیس ہے ویسے۔وکیل درخواست گزار نے مو¿قف پیش کیا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو میانوالی سے ڈی سیٹ کیا گیا تھا۔عدالت نے وکیل درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا آپ ان کو ابھی بھی اس ایک حلقے کے نمائندہ کے طور پرمانتے ہیں؟ عمران خان اس وقت تومیانوالی کی نشست پر سے ممبر قومی اسمبلی ہی نہیں، اگر ایک شخص رکن منتخب ہوتا اور وہ حلف نہیں لیتا تب کیاہوگا؟، کیا حلف نہ لینے کی صورت میں عمران خان پبلک آفس ہولڈر ہوں گے؟۔
وکیل درخواست گزار نے بھارتی سپریم کورٹ کے عدالتی فیصلے کا حوالہ دیا۔ جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواستگزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پہلے اس کیس کے قابل سماعت ہونے کو دیکھیں گے، قابل سماعت ہوا تو ہی آگے چلیں گے۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کیس قابل سماعت کے ساتھ یہ بھی دیکھیں کس عدالت کا دائرہ اختیار ہے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ عمران خان اس وقت پبلک آفس ہولڈر ہیں، وہ جب الیکشن لڑے کوئی ٹریبونل جا سکتا تھا، اس کیس میں تو کوئی ٹریبونل میں نہیں گیا، عمران خان ابھی بھی الیکشن لڑ کر جیتے، کیا کوئی کرپٹ پریکٹس میں ان کیخلاف ٹریبونل گیا؟ اس وقت انہوں نے نئی نشست پرحلف بھی نہیں لیا، کیا محض نشستوں پر کامیاب ہونا پبلک آفس ہولڈر بنا دیتا ہے؟۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ پارٹی سربراہ سے متعلق پرانے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کو الیکشن جیت لینے پر پبلک آفس ہولڈر کہا جا سکتا ہے۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس نکتے پر آپ نے مطمئن کرنا ہے، یہ کیس اصل میں تھا کیا؟۔عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں میں اس کیس میں بھی وکیل تھا، میں اس کیس میں دراصل نوازشریف کا وکیل تھا، ہم تو وکیل ہیں، آفیسر آف کورٹ ہیں، کسی پارٹی سے تعلق نہیں، اس کیس میں پہلے سے 62 ون ایف کا فیصلہ موجود تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں