کراچی بلدیاتی انتخابات کے شفاف انعقاد میں الیکشن کمیشن کی ناکامی اور جانبداری،سراج الحق نے سپریم کورٹ سے اپیل کر دی

لاہور(وقائع نگار خصوصی)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے نام درخواست میں کراچی بلدیاتی الیکشن کے صاف شفاف انعقاد میں الیکشن کمیشن کی ناکامی اور جانبداری پر ازخود نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق چیف جسٹس کے نام خط میں سراج الحق نے کہا کہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن نہ صرف صوبائی دارلحکومت میں ایماندارانہ الیکشن کرانے میں ناکام ہوا بلکہ الیکشن کے عمل کے دوران اور بعد میں بدترین جانب داری کا منتخب ہوا۔امیر جماعت نے اپنی درخواست کے ہمراہ کراچی کے 12 حلقوں میں دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی صوبہ کی حکمران جماعت کے حق میں جانبداری کے ثبوت بھی ارسال کیے ہیں۔انہوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی ہے کہ عدالت عظمیٰ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے معاملہ کا نوٹس لے اور الیکشن کمیشن کی دیدہ دانستہ آئین کی خلاف ورزی پر فیصلہ دے اور متنازعہ یونین کمیٹیوں میں الیکشن کو کالعدم قرار دے۔

سراج الحق کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئین ِ پاکستان کی رو سے ریاست پاکستان میں وفاقی صوبائی اور بلدیاتی غرض ہر سطح پر حکومتوں کے اختیارات کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے کرنا طے کر دیا گیا ہے‘اس مقصد کو بروئے کار لانے اور صاف و شفاف انتخابات کرانے کے لیے الیکشن کمیشن قائم کیا گیا ہے۔فی الوقت کراچی میں 15 جنوری 2023 ء کو ہونے والے انتخابات میں بدترین دھاندلی اور الیکشن کمیشن کی اس دھاندلی کو روکنے میں ناکامی میرے اس خط کا موضوع ہے۔اس موقع پر میں آپ کی توجہ کراچی کی ملک میں معاشی اور سیاسی لحاظ سے اہمیت کی جانب بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں نیز یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی گذشتہ 30/35 سال میں گزرے حالات کی وجہ سے خاص حساسیت رکھتا ہے اور بد ترین بلدیاتی حالات کی وجہ سے یہاں کے شہری ہر آنے والے دن بہتری کی امید لگائے ہوئے ہیں,یہی وجہ ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی کی مسائل کے حل کے لیے بھر پور جدوجہد کو شہریوں نے سراہا اور الیکشن میں سب سے زیادہ ووٹ دیے۔بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے پر 120 دن میں انتخابات کرانا لازمی قانونی تقاضا ہے لیکن 2009 میں یہ مدت پوری ہونے کے بعد 2015 میں اور 2020 میں یہ مدت پوری ہونے کے بعد 2023 میں یہ انتخابات منعقد ہوئے۔شیڈول جاری ہونے کے بعد 3 مرتبہ انتخابات کی پولنگ حکومت سندھ کی خواہش پر ملتوی کی گئی۔ان انتخابات کے منعقد کرانے کے لیے جماعت اسلامی کو مسلسل الیکشن کمیشن،سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک سے رجوع کرنا پڑا۔15 جنوری 2023 کو ہونے والے انتخابات سے قبل ہی سندھ میں حکومتی جماعت نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا تھاکہ کراچی کا آئندہ میئر جیالا ہو گا۔اس مقصد کے حصول کے لیے ناقص انتخابی فہرستیں بد نیتی کی بنیاد پر حلقہ بندیاں اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر انتخابی عملے کی تعیناتی کی گئی جس کے خلاف جماعت اسلامی نے مسلسل الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا لیکن بالکل بے سود رہا۔
15 جنوری کے انتخابات کی پولنگ بالعموم پر امن فضا میں منعقد ہوئی تا ہم اس دوران واضح طور پر یہ بات نوٹ کی گئی کہ حکومتی جماعت نے اپنی منتخب کردہ 35/40 یونین کمیٹیوں میں نہ صرف جعلی ووٹ بھگتائے ہیں بلکہ ان حلقوں میں مقررکردہ زیادہ تر پریذایڈنگ آفیسرز اور ریٹرننگ آفیسرز حکومتی جماعت کے حامی لگائے گئے تھے اور انہوں نے فارم XI اور فارم XII (متعلقہ پولنگ سٹیشن کا رزلٹ دینے)سے انکار کیا‘جس پر جماعت اسلامی کے پولنگ ایجنٹس نے اصرار کیا تو بعض جگہ آدھی رات اور بعض جگہ اگلے دن تک انتظار کرایا گیا۔جب سخت جدوجہد کے بعد پولنگ سٹیشن سے رزلٹ لینے میں کامیاب ہوئے تو ان کئی یوسیز کے ریٹرننگ افسران نے ہزاروں ووٹوں کے فرق سے جیتے ہوئے امیدواروں کو بھی ہرا کر پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی جیت کا اعلان کر دیا اور جعلی Appendix-A جاری کر دیئے۔یہ معاملات علم میں آتے ہی جماعت اسلامی نے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا۔یہی معاملہ بہت سی UC کی نشستوں پر PTI کے ساتھ کیا گیا‘چنانچہ بڑی تعداد میں الیکشن کمیشن میں درخواستیں داخل کی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے تمام معاملات پر طویل سماعت کی۔
جماعت اسلامی نے تمام ثبوت مع اصل فارم XI اور XII الیکشن کمیشن میں پیش کیے لیکن افسوس یہ تمام سماعتیں وقت گزاری کا حربہ ثابت ہوئیں اور الیکشن کمیشن نے زیادہ تر کیس دوبارہ ان ہی ریٹرننگ افسروں کے پاس Recounting کے لیے بھیج دیے جن پر دھاندلی کے الزامات تھے یا پھر جان چھڑانے کے لیے ٹریبونل کے پاس جانے کا کہہ دیا۔6 یونین کمیٹیاں جن میں بد ترین دھاندلی ہوئی۔ ان میں فارمXI کے رزلٹ کے علی الرغم RO نے نتیجے جاری کیے اور الیکشن کمیشن نے انہیں Take up کیا۔ ان میں جماعت اسلامی نے 66 ایسے پولنگ اسٹیشنز کی نشاندہی کر دی تھی جہاں رزلٹ تبدیل کیے گئے ہیں۔ وہاں 22مارچ کو حقائق کے برعکس محض 17 پولنگ اسٹیشنز کو خودہی منتخب کر کے Recounting کا حکم جاری کر دیا گیا۔ بقیہ پچاس کے قریب پولنگ سٹیشنز کو Consider ہی نہیں کیا گیا۔ یہ بات الیکشن کمیشن کے علم میں تھی کہ تمام انتخابی میٹریل دھاندلی کے ذمہ دار ریٹرننگ افسروں کے قبضہ میں ہی ہے اور مختلف سماعتوں کے دوران جماعت اسلامی کی جانب سے اس بات کی نشاند ہی بھی کی جاتی رہی لیکن الیکشن کمیشن نے دھاندلی کے الزامات کے باوجود اس تمام میٹریل کو اپنے قبضے میں نہیں لیا بلکہ محفوظ رکھنے کا بھی کوئی اہتمام نہیں کیا۔ اس موقع پر یہ بات بھی واضح کرنا چاہتا ہوں کہ الیکشن کمیشن نے 22فروری کو دوران سماعت یہ کہا تھا کہ تمام میٹریل جو جماعت نے فراہم کیا ہے وہ ریٹرننگ افسروں نے دیا تھا اس کا بھر پور تجزیہ کر کے حتمی سماعت کی جائے گی۔ لیکن بنائی گئی کمیٹیوں کی نہ تو رپورٹ فراہم کی گئیں نہ ان پر اعتراضات کا موقع دیا اور نہ ہی کوئی سماعت ہوئی بلکہ 22 مارچ کا فیصلہ سامنے آگیا۔
دوران سماعت جماعت اسلامی کی جانب سے اس بات پر مسلسل اصرار کیا گیا تھا کہ ریٹرننگ افسروں نے نہ صرف نتائج تبدیل کر دیئے ہیں بلکہ ان جعلی نتائج کے مطابق فارمز میں بھی تبدیلی کی گئی ہے اور بہت سے پریذایڈنگ افسروں سے جبراً دستخط کرائے گئے ہیں تھیلے پھاڑ کر بڑے پیمانے پر ووٹوں میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔لہٰذا اب Recounting بے فائدہ ہے بلکہ دھاندلی پر ہی مہر ثبت کرنے کے مترادف ہے۔لہٰذا یہاں Repolling کرائی جائے لیکن ہمیں اندازہ نہ تھا کہ ہماری سب درخواستیں اور دھاندلی کے ثبوت صدا بصحرا ثابت ہوں گے اور الیکشن کمیشن سندھ حکومت کی خواہش کے مطابق فیصلے دے گا جس طرح اس نے سندھ حکومت کی فرمائشوں پر تین دفعہ الیکشن ملتوی کیے تھے۔
اس تمام صورت حال کو ہم انتہائی تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صورت حال کی یہ سنگینی برقرار رہی اور کہیں سے انصاف نہ ملا تو کراچی کے شہری کہیں انتخابات کے عمل اور اداروں سے انصاف ملنے سے ہی مایوس نہ ہو جائیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن نہ صرف صاف شفاف اور ایماندارانہ الیکشن کرانے میں بری طرح ناکام ہوا بلکہ الیکشن کے تمام عمل کے دوران اور بعد میں بد ترین جانبداری کا مرتکب ہوا ہے۔ اپنے آئینی اور قانونی فرائض سے جان بوجھ کر روگردانی کی ہے اور اپنے فیصلوں سے دھاندلی کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا ہے اس صورت حال میں ہم درخواست کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اس تمام معاملہ کا فوری نوٹس لے الیکشن کمیشن کی جانب سے دیدہ دانستہ آئین و قانون کی خلاف ورزی پر واضح فیصلہ دے۔ متنازعہ یونین کمیٹیوں پر الیکشن کمیشن کے جانبدارانہ فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر انصاف پر مبنی فیصلے کو یقینی بنائے تا کہ ملک کے شہریوں کا نظام انصاف اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد بحال ہوگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں