اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چیف جسٹس کا از خود نوٹس لینے کا اختیار محدود کرنے کے حوالے سے کی جانے والی قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ہے،عدالتوں میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے،اس میں ایشو نہیں ہے،اس کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے،کسی کو نا اہل نہیں ہونا چاہیے،نواز شریف کو بھی نا اہل نہیں ہونا چاہیے تھا،آصف زرداری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا،اس وقت حالات بہت خراب تھے،ملک ٹوٹ سکتا تھا،میں سابق صدر کو اس کا کریڈٹ دیتا ہوں۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق نجی ٹی وی سے خصوصی انٹرویو میں گفتگو کرتے ہوئے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ قومی اسمبلی پیش کردہ بل جس میں از خود نوٹس کے اختیارات کم کرنے کی تجویز دی گئی ہے،اس بل کی ٹائمنگ پر سوالیہ نشان ہے،اس میں سپریم کورٹ کے ساتھ اتفاق رائے ہوجائے تو بہتر ہے،میں نے یہ بل ابھی نہیں دیکھا، میں نے ڈرافٹ دیکھا،جب بل آئے گا تو دیکھ کر اس کی منظوری کے حوالے سے فیصلہ کروں گا،بحران کو بڑھانے کے لیے بلکہ اس کو حل کرنے کے لیے کردار ادا کروں گا۔صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ جب اداروں یا انسان پر پریشر آتا ہے تو کریکس نظر آتے ہیں،جب عدالتوں پر پریشر پڑھتا ہے تو اس میں دراڑیں نظر آتی ہیں،مجھے تمام اداروں میں کریکس اور پریشانی نظر آرہی ہے،اس کی وجہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ کرنا ہے،تمام اداروں میں انسان موجود ہیں،اس وقت ملک اور آئین کو بچانے کی ضرورت ہے،غصے اور دباو میں وہ فیصلے اور الفاظ ادا کیے جاتے ہیں جو عام طور پر ادا نہیں کیے جاتے،وہ نہیں کرنے چاہئیں۔
ایک سوال کے جواب میں صدر مملکت نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے حوالے سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی،اس فیصلے میں تمام ادارے موجود ہیں،اداروں نے کہا کہ سیکیورٹی نہیں دے سکتے،کسی نے کہا کہ فنڈز نہیں دے سکتے،الیکشن ڈیوٹی کے لیے ججز نہیں دے سکتے،اس طرح تو ہر حکومت چاہے گی کہ اس کی مدت طویل ہوجائے،جب جمہوری قوتیں آپس میں لڑیں تو غیر جمہوری قوتوں کے آنے خطرات بڑھ جاتے ہیں،میں نہیں سمجھتا کہ مارشل لا لگ سکتا ہے لیکن آئین کو مسخ نہ کیا جائے،ایک گفتگو کے دوران میں نے عمران خان کو کہا کہ 2023 اکتوبر کے الیکشن بھی خطرے میں ہیں،حکومت کہتی ہے ہم نے ملک بچایا،ملک کے لیے قربانی دی،اب وہ سمجھتے ہیں کہ الیکشن ہوئے تو وہ اڑ جائیں گے،ہوسکتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔صدر مملکت نے کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے( آئی ایم ایف)سے جو وعدے کیے گئے،اس پر قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے،میں نے اپنے خط میں انسانی حقوق کی پامالی کی بات کی،میں نے اپنے خط میں پی ٹی آئی دور کے معاملے کا بھی ذکر کیا،میں نے لکھا کہ 2021، 2022 میں انسانی حقوق کی پامالی ہوئی،اس میں 2023 میں اضافہ ہوا۔ایوارڈز دینے کے حوالے صدر مملکت نے کہا وزیر اعظم کے خط میں اس کا جواب ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کا کردار ایڈوائزری کا ہے،میں نے عمران خان کی حکومت میں بعض ایوارڈز پر سوال اٹھائے تھے کہ آئین کا مس کیرج ہو رہا ہے، آئین میں لکھا کہ وزیر اعظم اور کابینہ کسی کو کوئی ایوارڈ نہیں دے سکتے،یہ اختیار صدر کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی تعریف بھی واضح ہونی چاہیے،مجھ پر بھی دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا،کیا دنیا میں اسی طرح سے دہشت گردی کی تعریف کی جاتی ہے۔صدر مملکت نے کہا کہ جنرل (ر)قمر باجوہ اور عمران خان میں اختلافات اور دوریاں کم کرنے کی کوشش کی،موجودہ آرمی چیف سے ملاقاتی ہوتی ہے تو انہیں ہمیشہ مثبت پایا، جب آرمی نے کہا کہ وہ سیاست سے دور ہونا چاہتی ہے تو اب سیاست دانوں کی ذمے داری ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین پاکستان،شملہ معاہدہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کے کارنامے ہیں،ان کا آئین بنانے میں بہت اہم کردار تھا،وہ بہت ذہین آدمی تھے۔