حکمران اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اعلامیہ جاری ،چیف جسٹس سپریم کورٹ سے ہنگامہ خیز مطالبہ

لاہور(وقائع نگار خصوصی) وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کا اہم اجلاس ہوا،جس میں میاں نواز شریف لندن سے،آصف علی زرداری دبئی،بلاول بھٹو زرداری کراچی اور مولانا فضل الرحمان اسلام آباد سے ویڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے،اجلاس میں شاہد خاقان عباسی،مریم نواز،چوہدری سالک حسین،ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی،وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ،ملک احمد خان،عطا اللہ تارڑ،اٹارنی جنرل سمیت دیگر اتحادی جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے،اجلاس میں ملک کی موجودہ سیاسی و سپریم کورٹ میں پیدا ہونے والی صورت حال اور دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق مشاورت کی گئی،حکومتی اتحادیوں کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افسوسناک امر ہے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں،سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمیشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے،چیف جسٹس سمیت تین رکنی بینچ میں شامل دیگر ججز کیس سے الگ ہو جائیں۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق حکومت کی اتحادی جماعتوں کے اہم اجلاس میں وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑ نے شرکاء کو قانونی معاملات پر بریفنگ دی،اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر غور کے علاوہ مستقبل کی حکمت عملی تیار کی گئی۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس میں تمام اتحادیوں نے سپریم کورٹ میں جاری صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تاخیر کے کیس میں فل کورٹ بنانے کا مطالبہ کردیا۔شرکاء کا کہنا تھا کہ کیس میں تمام سیاسی جماعتوں کو بھی باقاعدہ فریق بنایا جائے۔اجلاس میں محاذ آرائی سے بچنے کیلئے مذاکرات کے آپشن پر بھی غور کیا گیا۔شرکاء نے وزیر اعظم کو مشاورت کیلئے ٹاسک دے دیا تاہم واضح کر دیا کہ تحریک انصاف کے کسی بھی غیر آئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ذرائع کے مطابق وزیر اعظم کی زیر صدارت اجلاس کے دوران نواز شریف نے تین رکنی بینچ کے بائیکاٹ کی تجویز دی۔نواز شریف نے اجلاس کے دوران کہا کہ فل کورٹ بنے تو ٹھیک ورنہ بائیکاٹ کر دیا جائے،سیاسی جماعتوں کے مطالبے کے باوجود فل کورٹ تشکیل نہیں دی جا رہی،اتحادی جماعتوں نے نواز شریف کی تجویز پر اتفاق کیا۔

وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے رہنماوں کے اہم اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں ملک کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی غور کیا گیا اور مستقبل کی حکمت عملی پر مشاورت کی گئی،تمام اتحادی جماعتیں متفق ہیں کہ ملک بھر میں ایک ہی دن انتخاب ہونے چاہئیں،یہ شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے،اس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا، یہ صورتحال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہو گی، ایک جماعت کے دباو پرسیاسی و آئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائیگی۔اعلامیہ کے مطابق بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی و آئینی بحران بنادیاگیا ہے،معاشی،سکیورٹی،آئینی،قانونی اور سیاسی امور کو نظر انداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے،خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے،یہ آئین وقانون اور الیکشن کمیشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل218 (3) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے۔اجلاس تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس کے4 رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔افسوسناک امر یہ ہے کہ چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے،سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی 3 کے مقابلے چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کر چکا ہے،چیف جسٹس اکثریت پر اقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں،پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔

اعلامیہ کے مطابق جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی سے روکنے کا کہا ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے،جسٹس اعجاز الاحسن کا دوبارہ تین رکنی بینچ میں شامل ہونا غیر منصفانہ ہے،یہ عمل سپریم کورٹ کے طریقہ کار اور نظائر کی بھی صریح خلا ف ورزی ہے،سیاستدانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مل کر بیٹھیں لیکن سپریم کورٹ خود تقسیم ہے۔اعلامیہ کے مطابق ان حالات کا تقاضا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان اور تین رکنی بینچ کے دیگر جج صاحبان مقدمے سے دستبردار ہو جائیں، اجلاس کے دوران پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید اور حمایت کا اعلان کیا گیا،قانون سازی سے عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ ہوگا،پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے،پارلیمنٹ بالا دست ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے،امید ہے کہ صدر قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے،پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویے کے تاثر کو چیف جسٹس ختم کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں