اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات کے التوا سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔
”پاکستان ٹائم،“ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ پنجاب خیبرپختونخوا انتخابات کیس کی سماعت کررہا ہے۔وفاقی حکومت نے انتخابات کیس میں اپنا جواب جمع کراتے ہوئے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر اعتراض اٹھا دیا اور عدالت سے پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کر دی۔حکومتی جواب میں کہا گیا کہ یکم مارچ کا سپریم کورٹ کا فیصلہ اکثریت سے دیا گیا، 3 رکنی بینچ متبادل کے طور پر درخواست پر سماعت نہ کرے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کی درخواست موخر کی جائے۔جسٹس اعجازالاحسن پہلے ہی کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں،پہلے راونڈ میں دیا گیا الیکشن کا فیصلہ 4،3 کی اکثریت سے دیا گیا،چیف جسٹس،جسٹس منیب اختر فیصلہ دینے والے بینچ کا حصہ تھے، چیف جسٹس اورجسٹس منیب اختر بھی اس کیس کو نہ سنیں۔پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو جسٹس منیب اختر نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اخبارات توکچھ اورکہہ رہے ہیں،کیا آپ نے بائیکاٹ ختم کر دیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ اخبارات میں بائیکاٹ کا چھپا ہوا ہے۔فاروق نائیک نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی بائیکاٹ نہیں کیا،ہم کارروائی میں شامل ہوں گے،بینچ سے متعلق ہمارے کچھ تحفظات ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ابھی آپ کوسن نہیں رہے اس پر وضاحت کریں،اگر آپ بائیکاٹ نہیں کر رہے تو تحرہری طور پر بتائیں۔وکیل ن لیگ اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہمارا وکالت نامہ اپ کے پاس ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ موجود ہے لیکن بیان دیئے گئے ہیں اس کا کیا؟جس پر اکرم شیخ نے جواب دیا کہ ہم وکلا آپ کے سامنے آئے ہیں،اس کا مطلب آپ پر اعتبار ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک طرف اعتراض دوسری طرف کارروائی کاحصہ بھی بنتے ہیں،حکومتی اتحاد اجلاس کا اعلامیہ پڑھ کر سنائیں،جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے۔جمعیت علمائے اسلام ف کے وکیل کامران مرتضیٰ نے عدالت سے کہا کہ ہمارے تحفظات بینچ پر ہیں۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر تحفظات ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ بائیکاٹ نہیں کیا تو لکھ کر دیں،اٹارنی جنرل صاحب آپ کو کیا ہدایت ملی ہیں؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ حکومت بائیکاٹ نہیں کرسکتی،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سنجیدہ اٹارنی جنرل سے ایسی ہی توقع تھی۔اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آئین کے مطابق چلتی ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا ہے،صدر کو خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کی استدعا کی گئی، درخواست کی بنیاد یکم مارچ کا عدالتی فیصلہ ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا،عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اصل معاملہ الیکشن کمیشن کے حکم نامے کا ہے،الیکشن کمیشن کا حکم برقرار رہا تو تمام استدعا ختم ہو جائیں گی۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے اٹارنی جنرل عثمان منصور کے کان میں لقمہ دیا تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ کیا عرفان قادر اٹارنی جنرل کو بچانے آئے ہیں؟عرفان قادر نے جواب دیا کہ 15 سیکنڈز کا معاملہ ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آپ 3 منٹ سے15سیکنڈ پر آگئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو 5 رکنی تھا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پہلے والے اراکین شامل کرنے کا پابند نہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ یکم مارچ کوبھی کوئی عدالتی حکم نہیں تھا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں 5 رکنی بینچ بنا نہیں تھا،کس قانون کے تحت آرڈر آف دی کورٹ ضروری ہوتا ہے؟ججز میں ہم آہنگی سپریم کورٹ کیلئے بہت اہم ہے،ججز کے بہت سے معاملات آپس کے ہوتے ہیں،عدالتی کارروائی پبلک ہوتی ہے،ججز کی مشاورت نہیں۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ 4/3 والی منطق مان لی تو معاملہ 9 رکنی بینچ کے پاس جائے گا،فیصلہ یا 9 رکنی بینچ کا ہوگا یا 5 رکنی بینچ کا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تفصیلی اختلافی نوٹ بینچ کے از سر نو تشکیل کانقطہ شامل نہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹ کے مطابق بینچ کی ازسر نو تشکیل انتظامی اقدام تھا، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے معذرت کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نوٹ کے مطابق 4 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا،بہتر طریقہ یہ تھا کہ لکھتے کہ 4 ججز کو بینچ سے نکالا گیا،فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کون رضا کارانہ الگ ہو رہا ہے،کسی نے بینچ سے الگ ہونا ہو تو جوڈیشل آرڈر لکھا جاتا ہے،کوئی شق نہیں کہ جج کو بینچ سے نکالا نہیں جاسکتا،عدالت بینچ کی ازسر نو تشکیل کا حکم دے تو اسے نکالنا نہیں کہتے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ ازسر نو تشکیل میں تمام 5 نئے ججز آ جاتے تو کیا ہوتا؟کیا نیا بینچ پرانے 2 ججز کے فیصلوں کو ساتھ ملا سکتا ہے؟نیا بینچ تشکیل دینا جوڈیشل حکم تھا انتظامی نہیں۔اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھایا کہ 2 ججز نے جو رائے دی اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس یحییٰ نے کہا اپنی شمولیت چیف جسٹس پر چھوڑتے ہیں،بینچ کا کوئی رکن بھی نہ ہو تو سماعت نہیں ہوسکتی، 5 رکنی بینچ نے 2 دن کیس سنا،کیا کسی نے کہا 2 ارکان موجود نہیں؟ کیا کسی نے یہ کہا کہ بینچ 7 رکنی ہے؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 2 ججز کی رائے کے بعد نیا بینچ بنا اور از سرِ نو سماعت ہوئی،بینچ ارکان نے دونوں ججز کے رکن ہونے کا نقطہ نہیں اٹھایا۔
اٹارنی جنرل نے موقف پیش کیا کہ 4 آراء کے مطابق درخواستیں خارج ہوئی ہیں۔جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ سمجھ گئے اگلے نقطے پر آئیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر حاشیہ میں بھی لکھا کہ 2 ججز کی آرا ریکارڈ کا حصہ ہے،فیصلے کا نہیں،ریکارڈ میں تومتفرق درخواستیں اور حکمنامے بھی شامل ہوئے ہیں،ابھی تک آپ ہمیں اس نقطے پر قائل نہیں کر سکے۔اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت میں رائے کس کی ہے؟حل یہ ہے کہ جنہوں نے پہلے مقدمہ سنا وہ بینچ سے الگ ہو جائیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا نقطہ نوٹ کر لیا ہے۔اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ رجسٹرار آفس نے ایک سرکلر جاری کیا ہے،سرکلر جسٹس فائز کے 29 مئی کے فیصلے کے بعد جاری کیا گیا،عدالتی حکم کو انتظامی سرکلر سے ختم نہیں کیا جا سکتا،عدالتی حکم نظر ثانی یا کالعدم ہونے پر ہی ختم ہوسکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکلر سے کسی فیصلے کو واپس نہیں لیا گیا، 184/3 کے مقدمات کی سماعت روکنے کے معاملے پر سرکلر آیا،مقدمات سماعت کیلئے مقرر نہ کرنے کے انتظامی حکم پر سرکلر آیا،جسٹس فائز عیسی کے فیصلے میں کوئی واضح حکم نہیں دیا گیا۔اٹارنی جنرل نے موقف پیش کیا کہ 184/3 کے تحت درخواستوں کے حوالے سے رولز موجود ہیں،ازخودنوٹس پر سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کا فیصلہ موجود ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 29 مارچ کے فیصلہ میں ہدایت نہیں بلکہ خواہش ظاہر کی گئی،فیصلہ میں تیسری کیٹگری بنیادی حقوق کی ہے،بنیادی حقوق تو 184/3 کے ہر مقدمے میں ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب نے استفسار کیا کہ کیا یہ آئینی درخواست نہیں ہے جس کے رولز بنے ہوئے ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کرتے ہوئے استدعا کی کہ موجودہ مقدمہ میں بنیادی حقوق کا ذکر ہے،موجودہ کیس تیسری کیٹگری میں آسکتا ہے،رولز بننے تک سماعت موخر کی جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے موخر کریں؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ کو پھر بھی سرکلر کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے رواں سال میں پہلا سو موٹو نوٹس لیا تھا، 2 اسمبلیوں کے سپیکرز کی درخواستیں آئی تھیں،سپیکر ایوان کا محافظ ہوتا ہے،ازخود نوٹس کیلئے بینچ کا نوٹ بھی پڑا ہوا تھا،از خود نوٹس لینے میں ہمیشہ بہت احتیاط کی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ متفق نہیں کہ یہ مقدمہ دیگر 184/3 کے مقدمات سے مختلف ہے،جن کے رولز بنے ہیں ان مقدمات پر کیسے کارروائی روک دیں؟ 184/3 کے دائرہ اختیار پر بہت سخت طریقہ کار بنایا ہوا ہے۔جسٹس منیب اختر نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ایک جانب کہتے ہیں فل کورٹ بنائیں اور ساتھ کہتے ہیں سماعت نہ کریں۔جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فل کورٹ کی استدعا جمعہ کو مسترد ہو چکی ہے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پہلے طے تو کر لیں سماعت ہو سکتی ہے یا نہیں؟آپ کا موقف مان لیں تو فل کورٹ بھی سماعت نہیں کر سکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کی استدعا فی الوقت مسترد کی تھی،جسٹس قاضی فائز فیصلے پر دستخط کرنے والے جج نے خود کو الگ کر لیا، کیسے ہو سکتا ہے فیصلہ لکھنے والے جسٹس قاضی فائز مقدمہ سنیں؟جسٹس امین الدین خان نے فیصلے پر صرف دستخط کیے تھے،سماعت سے معذرت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا فیصلہ ہوگا،سماعت سے انکار تو فرض نہیں کیا جاتا یہ جوڈیشل آرڈر ہوتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تمام 15 ججز مختلف آرا اپنانے پر مقدمہ نہیں سن سکتے،آپ نے معاملہ فہم ہوتے ہوئے دوبارہ فل کورٹ کی استدعا نہیں کی،آپ کی زیادہ سے زیادہ استدعا لارجر بینچ کی ہوسکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ لارجر بینچ کی استدعا آگے جاکر کروں گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا، 9 ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا، 27 فروری کے 9 ججز کے حکم نامے سے دکھائیں بینچ سے کون الگ ہوا؟عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ جسٹس فائزعیسیٰ کا حکم خوبصورت لکھا گیا ہے، فل کورٹ میٹنگ فائدہ مند ہوسکتی ہے لیکن فل بینچ نہیں، گزشتہ 3 دن میں سینئر ججز سے ملاقاتیں کی ہیں، لارجر بینچ کے نکتے پردلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں۔اٹارنی جنرل نے موقف پیش کیا کہ جو ججز 9 رکنی بینچ کا حصہ نہیں تھے ان پر مشتمل بینچ بنایا جائے، 3/2 اور 3/4 کا فیصلہ باقی 2 ججز کو کرنے دیا جائے۔چیف جسٹس نے ریمارکس د یئے کہ ایک فیصلہ 3 رکنی اکثریت نے دیا، ایک 2 رکنی اقلیت نے، بنیادی اصول مقدمہ کی سماعت ہے،سنے بغیر فیصلہ محدود نوعیت کا ہی ہو سکتا ہے، سماعت کے بعد کیے گئے فیصلے کا ہی وجود ہوتا ہے،کورٹ فیس ادا نہ کرنے پر بھی تو مقدمہ خارج ہو جاتا ہے،نظرثانی اکثریتی فیصلے کی ہوتی ہے، جن ججز کے نوٹ کا حوالہ دے رہے ہیں کیا وہ 5 رکنی بینچ میں تھے۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ عدالتی حکم کے بغیر کوئی فیصلہ قابل عمل نہیں ہوتا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 2 الگ الگ بینچز نے الگ الگ کارروائی کی تھی۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے بہترین دلائل دے رہے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ صورتحال سب کیلئے ہی مشکل ہے۔جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکرٹری دفاع اور سیکریٹری خزانہ کہاں ہیں؟اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کو بتایا کہ سیکرٹری خزانہ رپورٹ کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اصل مسئلہ سیکیورٹی ایشو ہے،دونوں افسران کو سن کر بھیج دیتے ہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ حساس معاملہ ہے،سیکیورٹی معاملات پران کیمرا سماعت کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ فائلز دے دیں ہم جائزہ لے لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فورسز کا معاملہ صرف آرمی کا نہیں بلکہ نیوی اور ائیرفورس کا ہے،بری فوج مصروف ہے تو نیوی اور ائیرفورس سے مدد لی جا سکتی ہے،الیکشن کمیشن کہتا ہے 50 فیصد پولنگ سٹیشنز محفوظ ہیں،فوج میں ہر یونٹ یا شعبہ جنگ کیلئے نہیں ہوتا، عدالت نے وہ کام کرنا ہے جو کھلی عدالت میں ہو،کوئی حساس چیز سامنے آئی تو چیمبر میں سن لیں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام چیزیں ریکارڈ پرموجود ہیں،الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں۔سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ حمود الزمان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ حساس معلومات نہیں لیں گے مجموعی صورتحال بتا دیں،فلحال پنجاب کا بتائیں،خیبرپختونخوا میں ابھی تاریخ ہی نہیں،کیا پنجاب میں سیکیورٹی حالات سنگین ہیں؟کھلی عدالت میں تفصیلات نہیں بتا سکتا،نہیں چاہتے معلومات دشمن تک پہنچیں۔عدالت نے پی ٹی آئی کے علی ظفر کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ ان چیمبر سماعت پر آپ کا کیا موقف ہے۔وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ اہلکار دے دیں تو انتحابات کروا سکتے ہیں، سیکیورٹی اہلکارصرف ایک دن کیلئے دستیاب ہو سکتے ہیں،سیکیورٹی کا ایشو رہے گا آئینی ضرورت 90 دن کی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سیکیورٹی اہلکار کون دے گا؟ سوال یہ ہے کہ 8 اکتوبر کو کیسے سب ٹھیک ہو جائے گا؟ کیا الیکشن کمیشن کو جنگ والے اہلکار درکار ہیں۔وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ریٹائرڈ لوگوں کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔
سیکرٹری دفاع نے عدالت سے کہا کہ ریزورفورس موجود ہے مخصوص حالات میں بلایا جاتاہے،ریزور فورس کو بلانے کا طریقہ کار موجود ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری دفاع کو حکم دیا کہ سر بمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں، جائزہ لے کر مواد واپس کردیں گے اور کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گے،آپ چاہیں تو جواب تحریری بھی دے سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس د یئے کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں،پبلک نہیں ہونے چاہیئے۔پی ٹی آئی وکیل علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا،اس مقدمے میں سیکورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔سیکرٹری دفاع نے موقف پیش کیا کہ ریزروفورس کی طلبی کیلئے وقت درکار ہوتا ہے اور اس کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی بڑی تعداد بارڈرز پر بھی تعینات ہے،الیکشن ڈیوٹی کیلئے لڑنے والے اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی،انتخابات کل نہیں ہونے پورا شیڈول آئے گا۔وکیل علی ظفر نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ پیرا ملٹری فورسز،بحری اور فضائیہ سے بھی معلومات لیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جہاں سیکیورٹی صورتحال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں،الیکشن کمیشن نے 45 فیصدپولنگ سٹیشنز کو حساس قرار دیا،جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں،جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کرلی اور جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اپنی پوری کوشش کریں۔سیکریٹری دفاع نے عدالت سے کل تک مہلت مانگ لی۔جس پر عدالت نے سیکرٹری دفاع کوکل تک کی مہلت دیدی۔
ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے اور عدالت میں سیکرٹری خزانہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہو سکے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے،کرنٹ اکاونٹ اورمالی خسارہ کم کیا جارہا ہوگا،آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کرکے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے،کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے،درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔اٹارنی جنرل نے موقف پیش کیا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ نے بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتاہے،ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے، حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے،عدالت فیصلہ کرے، 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کی وجہ اخراجات میں کمی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے توغیر ترقیاتی اخراجات کم کردیں،حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لئے اقدامات کئے ہیں،آئینی تقاضہ پورا کرنے کے لئے آرٹیکل 254ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوا کریں گے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔عدالت نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ کل اور آج 2 ججز نے سماعت سے معذرت کی،ججز کے آپس میں تعلق اچھے ہیں،اعتراف اور شائستہ گفتگو پہلے اور بعد میں بھی ہوئی، کچھ نقاط پر ہماری گفتگو ضروری ہے، سیاسی معاملات پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تیل ڈالا گیا،عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا، کچھ لوگ چند ججز پر تنقید کررہے ہیں،ہم اس معاملے کو بھی دیکھیں گے۔دوسری جانب سپریم کورٹ کے باہر بھاری سیکیورٹی نفری تعینات کر دی گئی۔سپریم کورٹ بلڈنگ کے باہر پولیس، ایف سی اور رینجرز تعینات ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے اظہار یکجہتی کے لئے وکلاءسپریم کورٹ کے باہر پہنچ گئے۔کسی بھی غیرمتعلقہ شخص کے سپریم کورٹ میں داخلے پر پابندی ہے جبکہ وکلائ، صحافیوں اور سائلین کو عدالت میں جانے کی اجازت ہے۔