لاہور(کامرس رپورٹر)یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈائزڈ گھی میں خورد برد اور مضر صحت گھی کی فروخت کا انکشاف ہوا ہے،پبلک اکاونٹس کمیٹی نے نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق چیئرمین نور عالم خان کی زیر صدارت پبلک اکاونٹس کمیٹی(پی اے سی)کا اجلاس ہوا، جس میں یوٹیلٹی سٹورز پر سبسڈائزڈ گھی میں خورد برد اور مضر صحت گھی کی فروخت کا انکشاف ہوا۔پی اے سی نے یوٹیلٹی سٹورز پر مضر صحت گھی کی فروخت کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔چیئرمین پبلک اکاونٹس کمیٹی کا کہنا تھاکہ غیر معیاری گھی کی تصدیق کے باوجود یوٹیلٹی سٹورز پر گھی فروخت کیا جا رہا ہے،یوٹیلٹی سٹورز حکام پی اے سی فورم پر جھوٹ بول رہے ہیں،مضر صحت گھی لوگوں کو کھلایا جارہا ہے جس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں۔کمیٹی نے ارکان پارلیمنٹ کی ٹیلی فون کالز نہ اٹھانے پر ایم ڈی یوٹیلٹی سٹورز کی سرزنش کرتے ہوئے عوام کو اشیائے ضروریہ کی بلا تعطل فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کر دی۔چیئرمین کمیٹی نے آٹے کی تقسیم کے طریقہ کار پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آٹے کی تقسیم یوٹیلیٹی سٹورز کے ذریعے ہونی چاہئے،مفت آٹے کی تقسیم کے دوران شہریوں کی ہلاکتیں ہورہی ہیں۔واضح رہے کہ حکومت ہر سال رمضان المبارک میں یوٹیلٹی سٹورز کیلئے رمضان پیکیج کا اعلان کرتی ہے، جس میں اربوں روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔
پبلک اکاونٹس کمیٹی اجلاس میں اوگرا اور نیپرا سمیت مختلف اداروں کے آڈٹ معاملات کا جائزہ بھی لیا گیا۔چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے آڈٹ نہ کرانے پر چیئرمین نیپرا کی سرزنش کی،جس پر چیئرمین نیپرا نے بتایا کہ ہمارے اکاونٹس کا آڈٹ ہوتا ہے،پرفارمنس یا ریگولیٹری آڈٹ نہیں ہورہا،جس پر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ آپ کو آڈٹ کرانا پڑے گا،اس کے بعد پی اے سی نے نیپرا کو پرفارمنس آڈٹ کرانے کی ہدایت کردی۔نور عالم خان نے اس موقع پر کہا کہ خدا کیلئے اس ملک کو چلنے دیں،آئین جو کہتا ہے اس پر عمل کریں،آپ بجلی کے ٹیرف میں اضافےکی سفارش کرتے ہیں۔چیئرمین پی اے سی نے چیئرمین نیپرا سے استفسار کیا کہ آپ کتنی تنخواہ اورمراعات لے رہے ہیں،جس پر نیپرا سربراہ نے جواب دیا کہ میری تنخواہ 7 لاکھ 90 ہزار ہے،کوئی اضافی مراعات نہیں۔دوران اجلاس پی اے سی میں اسلام آباد کلب کے آڈٹ کا معاملہ بھی اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ اسلام آباد کلب کے آڈٹ کی رپورٹ طلب کی جائے۔اس موقع پر چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہا کہ جوادارہ آڈٹ نہیں کرائے گا اس ادارے کے سربراہ کو چاہیے کہ مستعفی ہو جائے۔