سیاسی بحران کا خاتمہ اور انتخابات کی تاریخ،جماعت اسلامی کا آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ

لوئر دیر(وقائع نگارخصوصی)ملک میں سیاسی بحران ختم کرنے کے لیے جماعت اسلامی کی قیادت میں انتخابات کی تاریخ کے لیے اے پی سے منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،دوسری طرف امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ الیکشن کے مسائل سپریم کورٹ حل کر سکتی ہے نہ اسٹیبلشمنٹ،دونوں اداروں کو ان معاملات میں غیر جانبدار رہنا چاہیے،عدلیہ کے لیے شرم کی بات ہے کہ لوگ اب ججزکے چہروں سے پہچان جاتے ہیں کہ یہ فلاں پارٹی کا جج ہے،سپریم کورٹ کے ججز خود ایک پیج پر نہیں ہیں،افسوس کی بات ہے کہ ملک میں ججز اور الیکشن کمیشن کے عہدیدار بھی سیاسی ہو گئے ہیں،سپریم کورٹ سیاست دانوں کو چانس دے کہ وہ اپنے مسائل خود حل کر لیں،معاشرہ میں زہریلی پولرائزیشن ہے اور فاصلے بڑھ رہے ہیں،تمام اداروں کی کرپشن اور سیاسی لڑائی سے ملک اس نہج پر پہنچ گیا،جماعت اسلامی ایک ہی روز انتخابات کے حق میں ہے، ہمارا یہ بھی یقین ہے کہ عوام ہی سے فیصلہ لینے سے مسائل حل ہوں گے، پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی بھی قربانی دے، قومی اور دو صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرے اور ذاتی کی بجائے قومی مفادات کو مدنظر رکھے،حکمران پارٹیاں اور پی ٹی آئی اگر قومی انتخابات پر اتفاق رائے پیدا نہیں کرتیں اور ٹکراو پر بضد رہیں تو جماعت اسلامی عوام ہی کی طرف جائے گی۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق سیاسی منظر نامے پر ایک اور پیش رفت سامنے آئی ہے،عید الفطر کے بعد ون پوائنٹ ایجنڈے پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کی قیادت میں آل پارٹیز کانفرنس ہوگی،امیر جماعت اسلامی سراج الحق اب تک شہباز شریف اور عمران خان سے الگ الگ ملاقات کرکے ابتدائی بات چیت کر چکے ہیں۔آل پارٹیز کانفرنس میں جماعت اسلامی کی جانب سے عمران خان اور شہباز شریف کو بلانے کے لیے رابطے شروع کردیے گئے ہیں،آل پارٹیز کانفرنس کا ون پوائنٹ ایجنڈا عام انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے ہو گا، جماعت اسلامی چاہتی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن الیکشن کے بارے میں ایک تاریخ پر اتفاق کریں، حکومت کو اکتوبر سے قبل جبکہ تحریک انصاف کو مئی کے بعد الیکشن کے لیے رضامند کرنے کی کوشش کی جائےگی۔مسلم لیگ ن کی جانب سے خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کو جماعت اسلامی سے معاملات آگے بڑھانے کے لیے گرین سگنل دے دیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف نے بھی جماعت اسلامی سے بات چیت کے لیے پرویز خٹک کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی قائم کردی ہے ،کمیٹی میں سینیٹر اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید شامل ہیں ۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کے نامزد وفود سے جماعت اسلامی کی قیادت کے اے پی سی سے پہلے مزید مذاکرات ہوں گے۔
دوسری طرف تحصیل میدان دیرلوئر میں افطار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا کہ میں نے وزیر اعظم شہباز شریف اور عمران خان سے ملاقاتیں کیں اور انھیں باور کرایا کہ یہ ملک 23 کروڑ عوام کا ہے اور اسے سیاست کی نظر نہ کیا جائے۔وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک میز پر آ جائیں اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔صوبوں میں الگ الگ الیکشن ہوئے تو بحران مزید جنم لے گا اور کوئی بھی الیکشن کا نتیجہ تسلیم نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں مثبت پیش رفت یہی ہو سکتی ہے کہ شفاف الیکشن ہوں، اس پر سب کا اتفاق ہونا چاہیے، صرف پنجاب یا خیبر پختونخوا کے الیکشن سے مسئلہ حل نہیں ہو گا، مرکز اور چاروں صوبوں میں بیک وقت الیکشن ہوں، صوبوں میں نگراں حکومتیں بنائی جائیں اور تمام سٹیک ہولڈرز شفاف انتخابات کے لیے مثبت ڈائیلاگ کا آغاز کریں، اس کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو سب تسلیم کریں گے۔سراج الحق نے کہا کہ آئین کے پچاس سال مکمل ہوئے اور جشن منایا گیا، حکمران سیاسی جماعتیں بتائیں پچاس برسوں میں آئین کی کس شق پر عمل درآمد کیا گیا؟یہ لوگ آئین کی ان دفعات کو مانتے ہیں جن میں ان کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے، عوام کے لیے بنائی گئی شقوں سے یہ ناواقف ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ملک کے مسائل کا حل اسٹیبلشمنٹ کے پاس ہے اور نہ سپریم کورٹ اور نہ ہی سیاسی پارٹیوں کے پاس ہے۔ غریب مہنگائی میں جل رہے ہیں، بے روزگاری اور غیر یقینی کی صورت حال حکمرانوں کی وجہ سے ہے۔ یہ ہمارا ملک ہے اسے آباد ہم کریں گے، نوجوانوں سے اپیل ہے کہ اس وطن کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہمارے پاس پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کے لوگ آئے اور کہا کہ ہمارا حصہ بنیں۔ انھوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی کئی عشروں سے سندھ میں حکومت کر رہی، پی ٹی آئی کے پی کے اور پنجاب میں مسلم لیگ ن نے حکومت کی یہ بتائیں عوام کی بہتری کے لیے کیا تبدیلی لائی؟ پاناما لیکس اورپنڈوراپیپرز میں ان حکمرانوں کے نام ہیں، بنکوں سے قرضے انھوں نے معاف کرائیں، یہ چند فیصد اشرافیہ کبھی ایک پارٹی تو کبھی دوسری پارٹی میں جاتے ہیں۔امیر جماعت نے کہا کہ اس وقت تمام ادارے آپس میں باہم دست و گریبان ہیں، ان کی لڑائیاں غریب کے لیے نہیں بلکہ اقتدارکے لیے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور الیکشن کمیشن غیرجانبدارہو جائیں۔ اسٹیبلشمنٹ سے کہتے ہیں کہ کبھی ایک لیڈر اور کبھی دوسرے لیڈر کو عوام کے کندھوں پر سوار کرنے کی روش ترک کریں۔ انھوں نے کہا کہ آئین ہی قوم کا مشترکہ ڈاکومنٹ ہے اس پر سب کو متفق ہونا ہو گا۔ کرپشن،سودی معیشت کا خاتمہ ہو وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو اور گڈ گورننس قائم ہو جائے تو ملک کو بیرونی قرضوں کی ضرورت نہیں، صرف جماعت اسلامی ہی ملک کو موجودہ مسائل سے نجات دلانے کی اہلیت رکھتی ہے، باقی سبھی پارٹیاں بری طرح ایکسپوز ہوگئیں ہیں، حکمران ٹولہ جھوٹے نعرے لگا کر عوام کو بے وقوف بناتا ہے، اب ان کی دکانداری مزید نہیں چلے گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں