”غلط فیصلہ ایک کرے یا اکثریت،غلط ہی رہے گا“جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ماضی سے سبق سیکھنے کا مشورہ

اسلام آباد(خصوصی وقائع نگار)سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے؟ غلط ہی رہے گا،اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سبق سیکھیں، سب سے بری چیز تکبر اور اَنا ہے،کسی عہدے پر ہوں تو آپ میں اَنا نہیں ہونی چاہیے،جس دن مجھ میں اَنا آ گئی پھر میں جج نہیں رہا،اختلاف سے اَنا کا کوئی تعلق نہیں،زندہ معاشروں میں اختلاف رائے موجود رہتا ہے،سب تائید میں سر ہلانا شروع کر دیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہو جائے گی۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق اسلام آباد میں’آئین پاکستان،قومی وحدت کی علامت‘کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973 کا آئین صرف سپریم کورٹ کے لیے نہیں،اس میں سب کے حقوق ہیں،اس وقت آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جا رہا،آئین صرف سیاست دانوں،چند افراد،پارلیمان اور عدلیہ کیلئے نہیں بلکہ عوام کے لیے ہے،پاکستان بننا مشکل کام تھا وہ تو 1947 میں ہو گیا مگر لوگوں کو آئین دینے والا کام بر وقت نہیں ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956 کی دستور ساز اسمبلی کے تحت الیکشن نہیں ہوا، 1958 میں ایک شخص نے اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کر مارشل لا لگا دیا، 1962 میں اس شخص نے اپنا آئین بنا لیا، 1965 میں اسی آئین کے تحت الیکشن ہوئے،پوری طاقت کے باوجود حالات اس شخص سے نہ سنبھلے تو پھر ملک ایک اور ڈکٹیر کے حوالے کر دیا، جس کے بعد 1971 میں ملک ٹوٹ گیا،ملک اچانک نہیں ٹوٹا تھا بلکہ اس کا بیچ بویا گیا،یہ زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا تھا، بویا ہوا زہریلا بیج جب پروان چڑھا تو اس نے پوری قوم کے ٹکڑے کر دیے،جو کام ہم آج کرنے بیٹھے ہیں،اس کے اثرات صدیوں بعد بھی نکلیں گے،جب کوئی ناانصافی ہوتی ہے تووہ زیادہ دیر تک ٹھہرتی نہیں،آئین کو اس طرح پیش نہیں کیا جاتا جس کا وہ مستحق ہے،آئین کسی ایک پارٹی کے لیے نہیں یہ کتاب سب کی ہے،آئین میرے لیے صرف کتاب نہیں ہے،اس میں لوگوں کے حقوق ہیں،ہم آئین کی تشریح کر سکتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1973 میں ملک میں پہلی بار عوامی نمائندگی سے آئین بنایا گیا،ضیا الحق 58 ٹو بی کا استعمال کر گئے،پھر اس کے بعد غلام اسحاق نے 2 مرتبہ 58 ٹو بی کا استعمال کیا،مشرف نے آئین کی شق 277 ٹرپل اے کے تحت خود کو آئینی تحفظ دیا،اگر فیصلہ غلط ہے تو اکثریت کرے یا ایک کرے غلط ہی رہے گا،آج اگر جسٹس منیر کے فیصلے پر ریفرنڈم کرائیں تو شاید ہی کوئی حمایتی ہو،اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں،تاریخ پکار رہی ہے ماضی سے سبق سیکھو،تاریخ کتنا سکھائے گی 7 سبق تو دے چکی،1977 کے انتخابات پر الزامات لگے کہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے،اس کے باوجود دونوں مخالفیں ٹیبل پر بیٹھے،دونوں فریقین میں معاملات طے ہوگئے معاہدے پر دستخط ہونا تھے،پھر ایک شخص آ گیا جو 11 سال قوم پر مسلط رہا،پھر عدالت سے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت ہوئی جس کے بعد جمہوریت پسندی اور ریفرنڈم کا ڈراما کیا گیا،جب ریفرنڈم ہوا ہے تو ٹرن آوٹ 98 فیصد رہتا ہے،حالانکہ ریفرنڈم میں پولنگ بوتھ خالی ہوتے ہیں،عام انتخابات زور شور سے ہوتے ہیں ٹرن آوٹ 60 سے آگے نہیں جاتا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 184/3سپریم کورٹ کو اختیارات دیتا ہے،یہ شق مظلوموں کے لیے مزدورں کے لیے رکھی گئی تھی،یہ بچوں کی جبری مشقت اور خواتین کو تعلیم سے دور رکھنے سے متعلق تھی،ایسے افراد جن کو وکیل تک رسائی نہیں ان کے لیے ہے مگر پاکستان میں اس کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا،ازخود نوٹس کی شق کے استعمال کے حوالے سے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے،اس میں اپیل کا حق نہیں ہے اس لیے اس کے استعمال میں بہت محتاط ہونا چاہیے،میری رائے میں ازخود نوٹس کا اختیار سپریم کورٹ کے پاس ہے،کہیں نہیں لکھا کہ یہ صرف سینیئر جج یا چیف جسٹس کا اختیار ہے،سپریم کورٹ کا مطلب تمام ججز ہے،میرے دوستوں کی رائے ہے کہ سوموٹو کا اختیار چیف جسٹس کا ہے،شق بتادیں،میری اصلاح ہو جائے گی میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ کہ آئین ایسا تحفہ ہے جو دوبارہ نہیں ملے گا،آئین پر کئی وار ہوئے لیکن وہ آج بھی مضبوطی سے کھڑا ہے، 18 ویں ترمیم میں پرانی غلطیوں کو ہٹانے کی کوشش کی گئی،میری رائے کی اہمیت نہیں،رائے وہی ہوگی جو آئین میں لکھی ہو،الیکشن میں شفافیت کے لیے نگراں حکومتوں کا تصور دیا گیا،جب تک لوگ آئین نہیں سمجھیں گے اس کی قدر بھی نہیں ہوگی،جب سے میں جج بنا ہوں اس وقت سے میں نے کبھی یہ سفارش نہیں کی کہ مجھے فلاں قسم کے مقدمات میں بٹھایا جائے اور فلاں قسم کے مقدمات میں نہ بٹھایا جائے،ہم وفاق کو بھول چکے ہیں، 18 ویں ترمیم نے وفاق کو مضبوط کیا ہے،وفاق نے زیادہ اختیارات نچلی سطح پر منتقل کر دیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں