سپریم کورٹ کی سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذکرات کی ہدایت

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے عام انتخابات پر تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا،پنجاب میں انتخابات کے حوالے سے کیس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے تمام سیاسی جماعتوں کو آج ہی مذاکرات کرنے کی ہدایت کردی ہے اور حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔
”پاکستان ٹائم“ کے مطابق پنجاب میں انتخابات روکنے کے لئے وزارت دفاع کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کا تین رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے،بینچ کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔آج سماعت کے آغاز پر امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے علاوہ تحریک انصاف کے شاہ محمود قریشی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔چیف جسٹس نے سماعت کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کرنے کے بعد سراج الحق کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مکالمہ کیا کہ آپ نے نیک کام(مذاکرات)کو شروع کیا اللہ کامیاب کرے، عدالت اس نیک کام میں اپنا حصہ ڈالے گی،چیف جسٹس نے شاہ محمود قریشی سے استفسار کیا کہ کیا آپ عدالت کی تجویزکی حمایت کرتے ہیں؟جس پر وائس چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت کے ہر لفظ کا احترام کرتی ہے،ملک نے آئین کے مطابق ہی آگے بڑھنا ہے،سپریم کورٹ جو بھی حکم کرے قبول ہو گا۔سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان کی درخواست پر چیف جسٹس نے سماعت میں 15 منٹ کا وقفہ کیا جس کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا۔سماعت کے دوبارہ آغاز پر وزارت دفاع کے وکیل شاہ خاور نے کہا کہ بیشترسیاسی جماعتوں کی قیادت عدالت میں موجود ہے،مناسب ہوگا،عدالت تمام قائدین کو سن لے۔جمہوریت کی مضبوطی الیکشن ایک دن ہونا ضروری ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قائدین کی تشریف آوری پر مشکور ہوں اور صف اول کی قیادت کا عدالت آنا اعزاز ہے۔ قوم میں اضطراب ہے اس لیے سیاسی قیادت مسئلہ حل کرے تو سکون ہو جائے گا۔عدالت حکم دے تو پیچیدگیاں بنتی ہیں،سیاسی قائدین افہام وتفہیم سےمسئلہ حل کریں تو برکت ہو گی۔چیف جسٹس نے وزارت دفاع کی جانب سے گزشتہ روز دی جانے والی بریفنگ کو سراہتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آج 29 رمضان ہے،ہمیں ایک بریفنگ دی گئی تھی۔ درخواست گزار بھی ایک ہی دن میں الیکشن چاہتے ہیں،ایک ہی دن کی بات اٹارنی جنرل نے کی تھی لیکن وہ بات ریکارڈ کا حصہ نہیں بن سکی۔پیپلزپارٹی کے سربراہ نے اس عمل کی حمایت کا اظہار کیا اور فاروق ایچ نائیک نے بھی کہا تھا کہ ایک ساتھ انتحابات ہوں۔ہم آصف زرداری کے مشکور ہیں،انھوں نے تجویز سے اتفاق کیا۔ن لیگ نے بھی تجویز سے متعلق بات کی ہے۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ مذاکرات سے اتفاق رائے پیدا ہو،الیکشن جتنی جلدی مکمن ہو،ایک ہی دن ہونے چاہئیں۔رہنما ن لیگ خواجہ سعد رفیق نے روسٹرم پر آکر کہا کہ میری قیادت کے مشورے سے عدالت کے سامنے آئے ہیں،ملک میں انتشار اور اضطراب نہیں ہونا چاہیے۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک ہی دن الیکشن ہونے چاہیے۔سیاسی لوگوں کو مذاکرات کے ذریعے حل نکالنے چاہئیں،ہم مقابلے پر نہیں مکالمے پر یقین رکھتے ہیں، اپوزیشن کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہیں،ہم نے عید کے بعد اتحادیوں کا اجلاس بلایا ہے،ہم جو میڈیا پر بات کرتے ہیں اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس میں کچھ کردار سوشل میڈیا کا بھی ہے۔سعد رفیق کے بعد ایازصادق بی این پی مینگل کی نمائندگی کیلئے روسٹرم پر آئے اور کہا کہ سیاست اپنی جگہ مگر سب اکٹھے اچھے لگتے ہیں،بی این پی مینگل کے لوگ حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں،قیادت دبئی میں ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مذاکرت ہوں۔پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا کہ کوشش تھی اس ہیجان کوختم کیا جائے،پہلے ہم نے اپنی پارٹی اور پھر اتحادیوں سے مشاورت کی۔جب جب تلخیاں بڑھیں،اس کے نقصانات نکلے اور مسئلہ پھر بھی مذکرات سے حل ہوا۔ہم نے اس عمل کا آغاز پہلے سے شروع کیا ہے اور گزشتہ حکومت میں بھی قومی ایشوزپر ساتھ چلے۔مسلم لیگ ق کے رہنما طارق بشیر چیمہ روسٹرم پر آئے اور کہا کہ مجھے چوہدری شجاعت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا،ہمارا موقف ہے کہ ملک میں ایک دن میں الیکشن ہونا چاہئے،ایک روز انتخابات بہت سے اختلافات کو ختم کردے گا،ایک دن انتخابات کی مکمل حمایت کرتے ہیں،آپ فیصلہ کریں گے تو اس پر تنقید ہوسکتی ہے،اگر سیاسی جماعتیں فیصلہ کریں گی تو پھر سب کیلئے بہتر ہوگا۔متحدہ قومی موومنٹ(ایم کیوایم )پاکستان کے رہنما صابر قائم خانی نے کہا کہ مسائل کا حل بات چیت سے نکالا جائے،ملک میں انتخابات ایک دن ہوں تو بہتر ہو گا۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آے اور عدالت کو پارٹی موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کا نقطہ نظر پیش کرچکا ہوں،ایک سیاسی پہلو ہے دوسرا قانونی،آئین 90 روز میں انتخابات کرانے سے متعلق واضح ہے،کسی کی خواہش کا نہیں،آئین کا تابع ہوں،سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق فیصلہ دیا،عدالتی فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں،عدالت نے بردباری اور تحمل کا مظاہرہ اور آئین کا تحفظ کیا،ہم تلخی کی بجائے آگے بڑھنے کیلئے آئے ہیں،سیاسی قوتوں نے مل کر ملک کو دلدل سے نکالنا ہے،آئینی اور جمہوری رستہ انتخابات ہی ہیں،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں تو انتخابات ہونے چاہئیں،ن لیگ نے کہا کہ الیکشن چاہتے ہیں تو اسمبلیاں تحلیل کر دیں،ہمیں کہا گیا قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے گی،اپنی حکومت چھوڑنا آسان نہیں تھا،حکومت ختم ہونے کے بعد جو ہوا سب کے سامنے ہے،ن لیگ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد فیصلے سے مکر گئی،مذاکرات سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے،مذاکرات آئین سے بالا نہیں ہوسکتے،عدالت نے زمینی حقائق کےمطابق 14مئی کی تاریخ دی،مذاکرات توکئی ماہ اورسال چل سکتے ہیں،کشمیر اور فلسطین کے مسائل نسلوں سے زیربحث ہیں، حکومت کا یہ تاخیری حربہ تو نہیں ہے،اعتماد کا فقدان ہے،عدالتی حکم پر پہلے بھی فنڈز ریلیز نہیں کئے گئے،پارلیمنٹ کی قرارداد آئین سے بالاتر نہیں ہو سکتی،مناسب تجاویز دی گئیں تو راستہ نکالیں گے،انتشار چاہتے ہیں نہ ہی آئین کا انکار۔

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق دوبارہ روسٹرم پر آ ئے اور کہا کہ عدالت کو ڈیبیٹ کلب نہیں بنانا چاہتے،مل بیٹھیں گے توسوال جواب کریں گے،عدلیہ اور ملک کیلئے جیلیں کاٹیں اور ماریں کھائی ہیں،آئینی مدت سے ایک دن بھی زیادہ رہنے کے قائل نہیں ہیں۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت میں ٹاک شو یا مکالمہ نہیں ہونا چاہئے،ملک میں ایک ساتھ بھی الیکشن ہوئے،مقررہ تاریخ سے آگے بھی گئے،آئین بنانے والے اس کے محافظ ہیں،آئین سے باہر جانے والوں کے سامنےکھڑے ہیں،سیاست میں گنجائش پیدا کرنی چاہیے۔سابق وفاقی وزیر شیخ رشید روسٹرم پر آئے اور کہا کہ قوم عدالتی فیصلوں کو سلام پیش کرتی ہے،عدالت کا فیصلہ پوری قوم کا فیصلہ ہو گا،یہ نا ہو مذاکرات میں چھوٹی اور بڑی عیدیں اکٹھی ہو جائیں،سیاستدان مذاکرات کی مخالفت نہیں ہوتے لیکن مذاکرات با معنی ہونے چاہئیں،ایک قابل احترام شخصیت نے آج بائیکاٹ کیا ہے۔جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق روسٹرم پر آئے اور کہا کہ قوم کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں،کل پاک افغان بارڈر پر تھا،رات سفر کر کےعدالت پہنچا ہوں،تلاوت قرآن پاک سے کارروائی آغاز کرنے پر مشکور ہوں،اللہ کا حکم ہے اجتماعی معاملات میں مذاکرات کرو،اللہ کا حکم ہے یکسوئی ہو جائے تو اللہ پر اعتماد کرو،مذاکرات کرنا آپشن نہیں،اللہ کا حکم ہے،آئین اتفاق رائے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا،آج بھی آئین ملک کو بچا سکتا ہے،آئین کی حفاظت کرنا ملک کی حفاظت کرنا ہے،دنیا کا منظر نامہ تبدیل ہو چکا ہے، 1977 میں نتائج تسلیم نہیں کئے گئے تو احتجاج شروع ہو گیا،اس وقت بھی سعودی اور امریکی سفیر نے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام ہوئے تو مارشل لاء لگ گیا، 90 کی دہائی میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی لڑائی پر مارشل لاء لگا،آج ہمیں اسی منظر نامے کا سامنا ہے لیکن آج امریکا،ایران اور سعودیہ پاکستان میں دلچسپی نہیں لے رہے،سیاستدانوں نے خود اپنا گھر ٹھیک کرنا ہے،نیلسن منڈیلا کے ساتھ 30 سال لڑائی کے بعد آخر مذاکرات کئے گئے، نیلسن منڈیلا نے اپنے ایک بیٹے کا نام ڈیکلار رکھا۔سراج الحق کا کہنا تھا کہ پاکستان جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں بنا،آمریت نہ ہوتی تو ملک نہ ڈوبتا،خیبرپختونخوامیں کسی نے استعفا دینے کا مطالبہ نہیں کیا تھا،دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرنے پر عوام حیران ہے،خیبرپختونخوا نے خلاف روایت دوسری بار بھی پی ٹی آئی کوووٹ دیا،ہم پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں اور نہ ہی پی ڈی ایم کے ساتھ،دونوں سیاسی جماعتوں سے اخلاص کےساتھ بات کی۔امیر جماعت اسلامی نے بڑی عید کے بعد انتخابات کرانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ مجھ سے پوچھا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ کہ کہنے پر بات تو نہیں کی،میں تو چاہتا ہوں کہ سب اداروں کو آزاد رہنا ہوگا،اس مسئلے کا حل ہے سب اپنی ریڈ لائن سے پیچھے ہٹ جائیں۔بینچ نے تمام جماعتوں کا موقف سننے کے بعد سیاسی جماعتوں کوآج ہی مذاکرات کی ہدایت کردی اور سماعت میں 4 بجے تک وقفہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے حکم دیا کہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت سے عدالت کو آگاہ کیا جائے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس د یئے کہ پنجاب میں الیکشن کی تاریخ 14 مئی ہے، 1970اور71 کے نتائج سب کے سامنے ہیں، عدالت آئین اور قانون کی پابند ہے، سراج الحق،ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے مذاکرات کی کوشش کی ہے،پی ٹی آئی نے بھی ایک ساتھ انتخابات کی بات کی ہے، ان کیمرہ بریفنگ دی گئی،عدالت فیصلہ دے چکی تھی،حکومت کی شاید سیاسی ترجیح کوئی اور تھی،یادرکھنا چاہئے کہ عدالتی فیصلہ موجود ہے،یقین ہے کہ کوئی عدالتی فیصلے کے خلاف نہیں جانا چاہتا،آج کسی سیاسی لیڈر نے فیصلے کو غلط نہیں کہا،مذاکرات میں ہٹ دھرمی نہیں ہوسکتی،دو طرفہ لین دین سے مذاکرات کامیاب ہو سکتے ہیں،گزارش ہوگی کہ پارٹی سربراہان عید کے بعد نہیں آج ہی بیٹھیں،بڑی عید جولائی میں ہوگی،اس کے بعد الیکشن ہوسکتے ہیں،عید کے بعد انتخابات کی تجویز سراج الحق کی ہے۔
سپریم کورٹ نے گزشتہ روز کی سماعت کے بعد تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں کو نمائندوں کے ذریعے کیس کا حصہ بننے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ سیاسی جماعتیں الیکشن کے معاملے پر مذاکرات کی حامی ہیں اورانتخابات کی تاریخ پر مل بیٹھ کر اتفاق رائے ممکن ہے۔گزشتہ روزسماعت میں الیکشن کمیشن کو فنڈز کی عدم فراہمی سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ کو بھی ناقابل قبول قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو 27 اپریل تک پنجاب میں انتخابات کے لئے 21 ارب روپے جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت کے احکامات کا مقصد آئین میں دی گئی پابندی پر عملدرآمد کرنا ہے، عدالتی حکم کی خلاف ورزی یا نافرمانی کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر سیاسی جماعتیں انتخابات کی تاریخ بدلنا چاہتی ہیں تو عدالت ان کے ساتھ ہے، سیاسی جماعتیں ایک نکتے پر آجائیں تو عدالت گنجائش نکال سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا تھا کہ سیاسی مذاکرات میں اتفاق ہوا تو ٹھیک ورنہ ہم 14 مئی کا حکم دے چکے ہیں۔گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سردار کاشف کی درخواست پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو نوٹس جاری کیے تھے۔عدالت نے الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل اور وفاقی حکومت کو بھی نوٹس جاری کر رکھا ہے۔سپریم کورٹ نے وزیراعظم شہبازشریف، چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان، سابق صدر آصف زرداری ،سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق، خالد مقبول صدیقی، اسفندیار ولی، چوہدری شجاعت حسین اور دیگر سیاسی رہنماوں کو آج طلب کررکھا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں