ڈاکٹر منصور سرور پر جنسی ہراسگی کے بعد کرپشن اور خلاف ضابطہ بھرتیوں کے الزامات بھی لگ گئے

لاہور ( ایجوکیشن رپورٹر)یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی(یو ای ٹی)لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر منصور سرور پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی کے بعد خلاف ضابطہ اور خلاف قانون بھرتیاں کرنے کا بھی الزام لگ گیا ہے ،مصدقہ ذرائع کے مطابق اس بارے میں ایک سینئر ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے گورنر اور وزیر اعلی پنجاب کے نام خط لکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:تعلیمی درسگاہیں یا جنسی بھیڑیوں کی آماج گاہیں؟بہاولپور کے بعد غازی یونیورسٹی کا بھی شرمناک سکینڈل سامنے آ گیا
تفصیلات کے مطابق یو ای ٹی کے ایک طالب علم عبدالولی خاں داوڑ کے خط میں سابق وائس چانسلر یوای ٹی ڈاکٹر منصور سرور شاہ پر خواتین کے ساتھ جنسی ہراسگی کے الزام لگایا گیا تھا اب ایک سینئر ایڈووکیٹ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے گورنر پنجاب کے نام لکھے گئے خط میں ڈاکٹرمنصور سرور پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے اپنے چہیتے پروفیسرز کوخلاف ضابطہ اور خلاف قانون انتظامی عہدوں پر تعینات کیا بلکہ درجنوں کی تعداد میں غیر قانونی بھرتیاں بھی کی ہیں لہذا اسکی بھی غیر جانبدرانہ تحقیقات کی جائیں۔ ذرائع کے مطابق خط کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ منصور سرور نے اپنے چار سالہ دور میں یو ای ٹی ایکٹ کی خلاف ورزی جاری رکھی ، کلیدی عہدوں پر غیر قانونی اور آوٹ آف میرٹ ترقیاں دیں۔ یو ای ٹی ایکٹ 1974 کے مطابق یونیورسٹی میں کلیدی تقرریاں جیسے کہ ڈین آف فیکلٹی اور ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین یا سینٹر کے ڈائریکٹر تین سینئر ترین پروفیسرز میں لگائے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر منصور سرورنے جونیئر افراد کو تعینات کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر شاکر محمود کو چیئرمین سٹی اینڈ ریجنل پلاننگ ڈیپارٹمنٹ لگایا گیا،اس کیس میں سینئر پروفیسرز پروفیسر ڈاکٹر عبید اللہ ندیم، پروفیسر ڈاکٹر اعجاز احمد کو نظر انداز کیا گیا۔ ڈاکٹر شاکر محکمانہ سنیارٹی میں چوتھے نمبر (04) پر ہیں اور یو ای ٹی ایکٹ کے مطابق انہیں ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین مقرر کرنا ممکن نہیں ہے۔
BPS 20 کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر شہاب ثاقب بطور چیئرمین مائننگ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ لگایا گیا جبکہ BPS 21 کےپروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کو نظر انداز کیا گیا
تقریباً دس سالہ جونیئر پروفیسر ڈاکٹر محمد عثمان غنی خان کو چیئرمین شعبہ کمپیوٹر سائنس لگاگیا جبکہ سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر شازیہ ارشد کا حق ماراگیا
دس سال سے زائد جونیئر پروفیسر ڈاکٹر عامر اخلاق بطور چیئرمین،انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹ انجینئرنگ اینڈ ریسرچ لگایا گیا وہاں سینئر ترین پروفیسر ڈاکٹر سجاد کو نظر انداز کیا گیا۔
BPS 20 کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر علی حسین کاظم کو چیئرمین آٹوموٹیو سینٹ لگایا گیا جبکہ وہاں BPS 21 کے سات (07) پروفیسرز کو نظر انداز کیا گیا
BPS 20 کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر، ڈاکٹر احسان الحق بطور ڈائریکٹر فاونڈری سروس سینٹ لگا یا گیا اور BPS 21 کے سینئرپروفیسر ڈاکٹر محمد آصف رفیق کو نظر انداز کردیا گیا۔
اسی طرح UET کے چار الائیڈ کیمپس اور کالج ہیں جیسے UET KSK، فیصل آباد اور نارووال کیمپس اور RCET۔ کے کیمپس کوآرڈینیٹر اور کالج کے پرنسپل کی تقرری کرتے وقت آئین اور قانون کو نظر انداز کیا اور ایڈہاک بنیادوں پر غیر قانونی اور آوٹ آف ٹرن تقرریاں کیں۔


پروفیسر ڈاکٹر تنویر اقبال کونیو کیمپس کاکوآرڈینیٹر (CC) لگادیا گیا جبکہ سینئرپروفیسرز جیسے پروفیسر ڈاکٹر شاہد عمران، پروفیسر ڈاکٹر شہزاد آصف، پروفیسر ڈاکٹر انیلہ انور اور پروفیسر ڈاکٹر محسن کاظمی کو نظر انداز کردیا گیا۔
یوای ٹی نارروال کیمپس میں من پسند پروفیسر ڈاکٹر شہباز کو سی سی لگایا جبکہ اس کی تقرری پر آڈٹ پیرا لگا ہوا ہے۔
پرنسپل رچنا کالج بھی کافی عرصے سے ایڈہاک پر کام کر رہے ہیں۔
حکومت پنجاب کے قوانین کے مطابق کسی بھی عہدے کا اضافی چارج چھ (06) ماہ سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ اس پس منظر میں، ایچ ای سی نے ایک لیٹر نمبر SO(Univ.) 14-4/2014 بھی جاری کیا ہے۔ مورخہ 19.06.2023، جس میں تمام VCS کو ہدایات جاری کی گئی تھیں؛
وہ پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے تمام وائس چانسلرز کو ہدایات جاری کریں کہ وہ اپنے متعلقہ سروس قوانین/ قانون پر سختی سے عمل کریں اور مجاز اتھارٹی کی پیشگی منظوری کے بغیر کسی بھی عہدے کا اضافی چارج دینے سے گریز کریں لیکن منصور سرور نے اس کی بھی دھجیاں بکھیریں۔
پنجاب حکومت ایڈہاک ازم پالیسی کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ ایڈہاک پر تقرریوں کے خلاف پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں کے بے شمار فیصلے موجود ہیں۔
ڈاکٹر سرور نے سنیارٹی کے بارے میں متعلقہ سروس کے قوانین/قانون کی پرواہ نہیں کی، نہ اعلیٰ عدلیہ/حکومت پنجاب کے احکامات اور نہ ہی چانسلر کی ہدایت کو اہمیت دی۔
اپنے ساتھیوں کو ناجائز فائدہ پہنچانا اور غیر قانونی تقرریاں ہی اس کا مقصد رہا۔
ڈاکٹر سرور نے اپنے چار (04) سالہ دور میں یہ غیر قانونی تقرریاں کرنے کے لیے متعلقہ دفتر کو قانون میں دستیاب سنیارٹی رول کے مطابق سنیارٹی لسٹ کو مطلع کرنے کی اجازت تک نہیں دی۔

یو ای ٹی ایکٹ 1974 کے مطابق، شق “3*(2) ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین اور انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کا تقرر وائس چانسلر کی سفارش پر ڈیپارٹمنٹ کے تین سینئر ترین پروفیسرز میں سے ہوگا۔ تین سال کی مدت کے لیے اور دوبارہ تقرری کے لیے اہل ہوں گے۔
اس شق میں دو اہم باتیں ہیں۔
سنڈیکیٹ تقرری کرنے والی اتھارٹی ہے اور
وائس چانسلر مناسب پروفیسر کی سفارش کر سکتا ہے۔

یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ ڈاکٹر سرور نے غیر قانونی طور پر ٹیچنگ ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین/ڈائریکٹر کی سفارش اور تقرری کے دونوں اختیارات حاصل کیے اور استعمال کیے جو کہ قانونی اور اخلاقی طور پر ناقابل قبول ہے یہ UET ایکٹ 1974 کی روح کے خلاف ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مذکورہ بالا سمیت تمام تقرریاں سنیارٹی لسٹ کی عدم موجودگی میں کی گئیں
ڈاکٹر منصور شاہ نے متعصبانہ طریقے سے اپنے ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر سینئر بنا کر اور کلیدی عہدوں پر تعینات کیا۔

اسی طرح ڈاکٹر منصورسرور ڈاکٹر عرشی خالد پر مہربان ہوگئے،ڈاکٹر عرشی نے پی ایچ ڈی بائیو اینڈ برین انجییئرنگ کے شعبہ میں کر رکھی ہے لیکن اسے شعبہ ریاضی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کر لیا۔ریاضی کے مضمون کے ساتھ اس کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی کوئی مناسبت ہی نہیں بنتی۔نیو کیمپس میں ایچ ای سی کی ہدایات کے برعکس ڈائرکٹ دو اسسٹنٹ پروفیسر بی پی ایس پر بھرتی کیے گئے۔منصور سرور نے خلاف ضابطہ کاموں کو خفیہ رکھنے اور ان پر پردہ ڈالنے کی خدمات کے عوض آخری دنو ں میں رجسٹرار اور اسکے عملے کو 16 لاکھ روپے اعزازی طور پر تقسیم کیے۔
یوای ٹی کے سابق وائس چانسلر کے غیرقانونی کاموں کو تحفظ فراہم کرنے اور مفادات اٹھانے والوں میں پروفیسر ڈاکٹر نوید رمضان،پروفیسر ڈاکٹر صائمہ تنویر،پروفیسر ڈاکٹر تنویر اقبال اور پروفیسر ڈاکٹر شاکر محمود اور رجسٹرار محمد آصف شامل ہیں انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے۔
خط میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ یوای ٹی کی بدنامی کا باعث بننے والے منصور سرور کو کبھی بھی کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر مت لگا یاجائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں