لاپتا صداقت عباسی کا آدھی رات کونجی ٹی وی کے آفس میں”مبینہ انٹرویو“صحافی اسد طور نے ساری کہانی کھول کھول کر بیان کر دی

اسلام آباد(وقائع نگار) معروف صحافی اور یو ٹیوبر اسد علی طور نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے” لاپتا“ ہونے والے رہنما صداقت عباسی کے نجی ٹی وی چینل”ڈان نیوز“ کے اینکر عادل شاہزیب کو دیئے جانے والے ”مبینہ انٹرویو “کی ساری کہانی کھول کھول کر بیان کر دی۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی اسد طور نے اپنے وی لاگ میں انکشاف کیا ہے کہ دو روز قبل رات 12 بجے کے بعد سابق ممبر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے لاپتہ رہنما صداقت عباسی کو نجی ٹی وی چینل ”ڈان نیوز“ کے آفس پہنچایا گیا،دو ویگو ڈالے آئے جن میں صداقت عباسی اور سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار سوار تھے،غالباً یہ اہلکار آئی ایس آئی کے تھے،وہی اہلکار انہیں عمارت کے اندر لائے اور عمارت کی سکیورٹی کو بھی اپنے ہاتھوں میں لے لیا،اینکر پرسن عادل شاہزیب کو پہلے سے بتایا جا چکا تھا اور وہ سٹوڈیو میں ان کا انتظار کر رہے تھے،صداقت عباسی کے انٹرویو کا باقاعدہ منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن چینل انتظامیہ کو اس پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا اور صرف چند لوگوں کو ہی اس بارے میں علم تھا،صداقت عباسی کا انٹرویو کر تو لیا گیا تاہم بعدازاں چینل پر نشر نہیں ہو سکا۔اسد طور کے مطابق اس سے قبل پی ٹی آئی کے دور اقتدار میں بھی صداقت عباسی کئی مرتبہ ”ڈان نیوز“ کے آفس میں بہت سے پروگرامز میں شرکت کر چکے ہیں،وہ ہمیشہ اچھے اور نفیس لباس زیب تن کرتے اور بہت عمدہ طریقے سے پیش آتے تھے لیکن اس بار جب انہیں انٹرویو کے لیے مبینہ طور پر کالے ویگو ڈالے میں لایا گیا تو ان کا حلیہ نیوز چینل پر انٹرویو کے حوالے سے غیر مناسب تھا،انہوں نے ٹی شرٹ ایسے پہن رکھی تھی جیسے سونے کے لیے پہنی جاتی ہے،ان کے بال بری طرح سے بکھرے ہوئے تھے اور ان کا چہرا سرخ تھا لیکن اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ چہرے کی سرخی کی وجہ کیا تھی،صداقت عباسی کافی مخبوط الحواس نظر آ رہے تھے کیونکہ بارہا ”ڈان نیوز“ کے آفس آنے کے باوجود اس بار آنے پر انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کس فلور پر اور کس سائیڈ پر سٹوڈیو ہے؟انہیں بتایا گیا کہ انہوں نے کس طرف جانا ہے؟صداقت عباسی کے ہمراہ آنے والے سادہ کپڑوں میں ملبوس افراد سٹوڈیو میں بھی پورا وقت ان کے ساتھ رہے،صداقت عباسی کے بال ٹھیک کیے گئے اور چہرے کا میک اپ کیا گیا،عادل شاہزیب کے ساتھ ان کے انٹرویو سے پہلے مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے اہلکار نے ان دونوں کے سامنے ایک ایک صفحہ رکھا۔اینکر عادل شاہزیب کو دیے جانے والے صفحہ پر شاید انٹرویو کے لیے ہدایات یا پھر پوچھے جانے والے سوالات تحریر تھے۔اسی طرح صداقت عباسی کو دیے گئے کاغذ پر شاید جوابات تحریر تھے۔یہ انٹرویو کم و بیش 45 منٹ پر محیط تھا اور صداقت عباسی نے عثمان ڈار کی طرح 9 مئی کی پوری ذمہ داری عمران خان پر ڈالنے کے بجائے بشریٰ بی بی پر ڈالی۔

انہوں نے بتایا کہ بشریٰ بی بی ہی ان دنوں سارے اجلاسوں کی صدارت کر رہی تھیں اور وہی ہدایات دے رہی تھیں۔ بعد ازاں اینکر پرسن کی گاڑی میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک افسر اور عباسی صاحب بیٹھے جبکہ ویگو ڈالے ان کی گاڑی کے پیچھے تھے۔انٹرویو کے بعد یہ لوگ کہاں گئے؟اس بارے میں کسی کو علم نہیں۔اسد طور کا کہنا تھا کہ اگلے روز ڈان نیوز کی انتظامیہ کو تمام صورت حال کا علم ہوا تو اس وقت ڈان کے پرنٹ میڈیا سے وابستہ سینیئر صحافی عارفہ نور اور دیگر صحافیوں نے اس حوالے سے احتجاج کیا کہ چینل کس طرح اپنی پالیسی اور اصولوں کو نظر انداز کر کے ایسا انٹرویو نشر کر سکتا ہے؟چینل انتظامیہ کے حکم پر اس انٹرویو کو نشر ہونے سے روک دیا گیا،اس کے بعد انٹرویو کی فائل کو چینل کے ڈیٹا بیس سے ڈیلیٹ کروا دیا گیا اور عملے کو تنبیہ کی گئی کہ اس انٹرویو کا کوئی لفظ بھی چینل سے باہر نہیں جائے گا۔یہ تمام واقعہ اسلام آباد میں ہوا جہاں ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں موجود ہیں لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی،صداقت عباسی کو کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا اور غیر قانونی حراست میں رکھا گیا ہے مگر رات گئے ان کا انٹرویو ضرور کروا لیا گیا ہے۔اسد طور نے کہا کہ ‘سکوپ’ یعنی بڑی خبر بریک کرنے کے چکر میں ہم صحافی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں،اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں اپنا بیانیہ بنانے اور پروپیگنڈا کروانے کے لیے صحافیوں کو ایکسپلائٹ کرتی ہیں لیکن صحافیوں کو کسی کے ہاتھوں میں استعمال نہیں ہونا چاہئے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں