اسلام آباد(بیورو رپورٹ)نوٹس ملیا تے کجھ نہ ہلیا کے مصداق بلوچ طلباءکی بازیابی کے کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے طلب کرنے پر بھی نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے عدالت عالیہ کے احکامات ہوا میں اڑا دیئے،دوسری مرتبہ طلب کرنے پر پیش نہ ہوئے تو عدالت نے تیسری مرتبہ طلبی کا نوٹس جاری کر دیا۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں بلوچ طلبہ کی بازیابی کے مقدمے میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا گیا۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آئندہ سماعت پر نگران وزیر اعظم حاضری یقینی بنائیں،نگران وزیراعظم عدالت آنے کو اپنی توہین نہ سمجھیں۔سیکریٹری داخلہ آفتاب درانی اور اٹارنی جنرل منصور عثمان عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ اپنے ملک کے شہریوں کو بازیاب کرنے کے لیے دو سال لگے،ان کے خلاف لڑائی جھگڑے،منشیات سمیت کسی قسم کا کوئی کیس نہیں،لاپتہ افراد کے اور بھی حساس کیسز سنتے ہیں، 24 ماہ میں ابھی تک تمام بچوں کو بازیاب نہیں کر سکے، لاپتہ 12 طلبہ ابھی بھی بازیاب نہیں ہوئے؟اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ میری معلومات کے مطابق آٹھ طلبہ ابھی بازیاب نہیں ہوئے،جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ نگراں وزرا،سیکریٹری دفاع کدھر ہیں؟دوسری دفعہ وزیر اعظم نہیں آئے،سیکریٹری دفاع کیوں نہیں آئے؟نگران وزیر اعظم سے پوچھ لیں،ان کو اس لیے بلایا تھا کیونکہ وہ جوابدہ ہیں،یہاں کوئی قانون سے بالاتر نہیں،یا آپ ان افراد کے خلاف کریمنل کیسز کی تفصیل بتائیں یا پھر ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے ذمہ دار ہیں یا پھر یہ لوگ خود بھاگ گئے یا کسی تیسرے نے انہیں اغوا کر لیا ہے لیکن اس صورت میں پھر ریاستی اداروں کی ناکامی ہے،ہر ماہ کی تاریخ ملا کر 24 تاریخیں ہو چکی ہیں،جو شہری بازیاب ہوئے ان کے خلاف کوئی کیس ریکارڈ پر نہیں،ان لاپتہ بچوں کی مائیں بہنیں ہوں گی وہ ڈھونڈ رہی ہوں گی،اسلام آباد ایف سکس سے بغیر ایف آئی آر ایک شہری کو اٹھا لیا گیا،سیکریٹری دفاع،سیکریٹری داخلہ،ڈی جی آئی ایس آئی،ڈی جی ایم آئی سرکاری ملازم ہیں،یہ سب افسران جواب دہ ہیں کوئی قانون سے بالاتر نہیں،تین حکومتیں ابھی تک لاپتہ بلوچ طلبا کی بازیابی کا کچھ نہیں کر سکیں،ابھی نگران حکومت ہے،اس سے پہلے 16 ماہ کی حکومت تھی،اس سے پہلے والی حکومت بھی مسنگ پرسنز کے ایشو پر کچھ نہ کر سکی۔جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تینوں اداروں کے سربراہوں کی کمیٹی بنا کر ان سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں،ہم کیوں وزیراعظم کو بلائیں؟جن پر الزام ہے ان ہی اداروں کے لوگوں پر مشتمل کمیٹی بنا دیتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ نئی حکومت آئے گی،انہیں پالیسی بنانے کا وقت دے دیں۔جسٹس محسن اختر کیانی نے جواباً کہا کہ وہ کیا کہیں گے کہ کیا جبری گمشدگیاں ہونی چاہئیں؟کچھ اداروں کو جو استثنا ملا ہوا ہے وہ نہیں ملنا چاہیے،ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ایم پی او آرڈرز کو غلط استعمال کرتے رہے ہیں،اب عدالتی فیصلے کے بعد وہ توہین عدالت کیس کا سامنا کر رہے ہیں،جو کچھ ہو رہا ہے سارے نظام کو پتہ ہے جج کو بھی پتہ ہے لیکن سب خاموش ہیں،اگر ریاست کے ادارے یہ کریں گے تو چوروں اور ڈاکووں سے شہریوں کی حفاظت کون کرے گا؟عدالت نے سیکریٹری داخلہ سے کہا کہ اپنے آئی جی کو بتا دیں کہ اسلام آباد میں کوئی اغوا ہوا تو ایف آئی آر آئی جی کے خلاف ہو گی،ساری دنیا دیکھ رہی ہے،یہاں تمام ممالک کے سفارت خانے ہیں،وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ کیسے دارالحکومت میں رہتے ہیں؟وزیر اعظم ہوتے تو دیکھتے کہ یہاں کس طرح کام ہو رہے ہیں،سیکریٹری داخلہ آپ دیکھ لیں کسی دن اپنے گھر آنے والے کو کوئی مزاحمت میں آگے سے گولی مارے گا،آپ ڈریں اس وقت سے جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی اٹھ کھڑا ہو۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت 28 فروری تک ملتوی کر دی۔