آرمی چیف کی تقرری،خواجہ آصف کا دوٹوک اعلان

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اتحادی حکومت فوج کے سربراہ کی تقرری کے معاملے میں کسی کے دباو میں آ کر کوئی فیصلہ نہیں کرے گی اور آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق سابق وزیر اعظم عمران خان کے بیان پر ان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
امریکی خبر رساں ادارے کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان کے چیف آف آرمی سٹاف کی تقرری سے متعلق متنازع بیان پر کسی قانونی کارروائی سے قبل ان کے اس بیان کی تحقیقات کی جائیں گی،اس تقرری میں ابھی تین ماہ باقی ہیں،حکومت اس ضمن میں جلد بازی میں فیصلہ کرے گی اور نہ ہی کسی کے دباو میں آکر آرمی چیف کا تقرر کیا جائے گا،آرمی چیف کی تقرری کے معاملے پر ادارے کا تقدس اور وقار بحال رکھنا ان کی حکومت کے لیے مقدم ہے،اگر کوئی شخص ادارے کا وقار مجروح کرنے کی کوشش کررہا ہے تو ہمیں اس کے دباو میں آکر کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جو روایتی طور پر غلط ہو۔اس لیے جلد بازی کی کوئی ایسی ضرورت نہیں ہے،آپ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں کوئی ایک واقعہ بتائیں کہ دو تین ماہ یا ایک ماہ پہلے بھی کسی آرمی چیف کی تقرری ہوئی ہو۔
خواجہ آصف نے کہا کہ وہ ماضی میں بھی بطور وزیر دفاع دو مرتبہ آرمی چیف کی تقرری کے عمل کا حصہ رہے ہیں اور آرمی چیف کی سبکدوشی سے چند روز قبل ہی ان کے جانشین کے نام کا اعلان کیا جاتا ہے،آرمی چیف کی تقرری کے عمل کو متنازع بنانا کسی صورت قوم اور ملک کی خدمت نہیں بلکہ وہ اسے دشمنی سمجھتے ہیں،فوج کے سربراہ کی تقرری کا طریقہ کار آئین میں درج ہے جس کے تحت فوج کی جانب سے وزیر اعظم کے پاس چار یا پانچ سینئر جنرلز کے نام آتے ہیں جن میں سے وزیرِ اعظم کسی ایک کا تقرر کرتے ہیں۔ایک سوال پر خواجہ آصف نے کہا کہ اتحادی حکومت میں ہوتے ہوئے لازم ہوتا ہے کہ اہم فیصلوں میں مشاورت کی جائے۔ یقینی طور پر فوج کی جانب سے سامنے آنے والے ناموں کو اتحادی رہنماوں کے سامنے بھی رکھا جائے گا،اس عمل میں حکومت اصولوں سے انحراف نہیں کرے گی اور پہلے سے وضع کردہ قواعد اور قانون کے مطابق ہی فیصلہ کیا جائے گا۔
اس سوال پر کہ کیا فوج سے نئے سربراہ کی تقرری کے لیے نام مانگ لیے گئے ہیں؟خواجہ آصف نے کہا کہ ” ابھی دریا دس کوس دور ہے تو شلوار پہلے ہی اونچی کر لیں کہ بھیگ نہ جائے؟ملکی دفاع کے تناظر میں پاکستان کو پچھلے 20 برس سے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ان غیر یقینی حالات میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان کی تقرریاں ہوتی رہی ہیں، اس وقت ملک میں سیاسی اور معاشی حالات سازگار نہیں لیکن دفاعی ادارے کے حوالے سے اگر ہم بات کریں تو قطعی طور پر غیر معمولی حالات نہیں ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ فوج کے سربراہ کی تقرری میں میڈیا کی دلچسپی بھی بڑھ گئی ہے اور اسے موضوعِ بحث بنا رکھا ہے اور عمران خان بھی اس پر عوامی سطح پر تبصرے کررہے ہیں،جنرل باجوہ کی مدت میں توسیع کے امکان پر بات قبل از وقت اور غیر ضروری ہے۔
وزیر دفاع نے ایک بار پھر پاکستان کا یہ موقف دہرایا کہ افغانستان میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری پر کیے جانے والے امریکی ڈرون حملے میں پاکستان کی سرزمین قطعی طور پر استعمال نہیں ہوئی، امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے قبل پاکستان کی فضائی اور زمینی راستے استعمال کیے جاتے رہے ہیں لیکن فی الحال واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کا ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے، پاکستان خلفشار کا شکار افغانستان میں استحکام چاہتا ہے اور اس کے لیے پڑوسی ملک کو ہر ممکن معاونت فراہم کی جا رہی ہے،پاکستان کی پالیسی واضح ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو افغانستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا، امریکی ڈرونز کے پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے سے متعلق الزام پر طالبان حکومت نے اسلام آباد کے ساتھ باقاعدہ طور پر کوئی شکایت نہیں کی ہے، پاکستان اور افغانستان کے مفادات مشترک ہیں اور دونوں ہمسایہ ملکوں کو بھائی چارے کے ساتھ باہمی مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا جو کہ خطے کے لیے بھی مفید ہے۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں افغان طالبان کے کردار پر بات کرتے ہوئے خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی بات چیت اگر کسی منطقی انجام تک پہنچتی ہے تو اس میں افغان طالبان کا کردار بھی ہوگا، اس ضمن میں افغان طالبان کا کردار مثبت رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں